سلگتا ہوا بلوچستان گزشتہ دنوں اس وقت پھر
بھڑکتے شعلوں کی لپیٹ میں نظر آیا جب مسلمانوں کے عیدالضحٰی کے موقع پر
لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی کئی مقامات سے تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں، جن کی
تعداد ایک درجن بتائی جاتی ہے- ان میں بعض نوجوانوں کو کچھ عرصہ قبل اغواء
کر کے لاپتہ کردیا گیا تھا اور ان کے لواحقین اپنے پیاروں کی بحفاظت
بازیابی کیلئے تمام سرکاری و غیرسرکاری انصاف اور انسانی حقوق کے اداروں
سےاپنا کردار ادا کرنے کی اپیلیں کرتے رہے، مگر ان کی فریاد کسی نے نہ سنی
اور آخرکار ان کے خدشات کے عین مطابق ان کے لاپتہ پیاروں کی بازیابی بعض
دیگر بلوچوں کی طرح تشدد زدہ لاشوں کی صورت میں ہوئی اور یوں عید کا دن جو
پہلے ہی ان کیلئے خوشیوں سے عاری تھا صف ماتم بچھا گیا- کہا جاتا ہے کہ
سمیع مینگل، حمید حیاتان بلوچ، حامد بلوچ اور دیگر بلوچ نوجوانوں کی لاشیں
انتہائی تشدد زدہ تھیں، انھیں انسانیت سوز تشدد کے ذریعے شہید کیا گیا تھا
اور عید کے دن ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دینا اس نام نہاد اسلامی
ملک کو زیب نہیں دیتا-
یہاں پر میڈیا کا کردار بھی نہایت منافقانہ ہے- اب تک سو (١٠٠) کے قریب
لاپتہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں لیکن میڈیا فورسز کے ان کافرانہ
مظالم کو دنیا سے چھپائے بیٹھے ہے جو صحافت کے غیر جانبداری پر کلنک کا
ٹھیکہ ہے-
ان تمام بلوچ نوجوانوں وکارکنوں کا جرم یہ تھا کہ وہ بلوچ قومی سیاست کے اس
دھارے سے ہمدردی رکھتے تھے جو ذاتی، گروہی، قبائلی اور دیگر منفی انفرادی
مفادات کی بجائے اجتماعی بلوچ قومی مفادات کو ترجیح دینے کا حامل ہے- عمومی
طور پر یہ افراد اپنی فکر پر سیاسی اور جمہوری طریقے سے عمل پیرا تھے، لیکن
اسے بھی گوارا نہیں کیا گیا- بعض بلوچ حلقوں کے مطابق تشدد زدہ لاشوں کی
برآمدگی بلوچ قوم میں خوف وہراس پھیلا کر انہیں اپنے حقوق کی جدوجہد سے
دستبردار کرانے کے مقاصد کی حامل ہے، جس کا ایک اور مقصد یہ بھی ہے کہ ان
تمام بلوچ رہنماؤں وکارکنوں اور نوجوانوں کا صفایا کردیا جائے جو ظلم وجبر
سے نجات چاہتے ہیں- اس ضمن میں بین الا اقوامی انسانی حقوق کی تنظیم
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے موجودہ صورتحال کے بارے میں دیئے گئے ریمارکس توجہ
اور غور طلب ہیں جن کے مطابق بلوچستان میں مارو پھینک دو اور صفایا کرو کی
پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا کرنے
والی قوتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکیں گی اور بلوچ سماج میں بھڑکنے والی
آگ پر قابو پاسکیں گی، اس سوال کا جواب جہاندیدہ حلقے نفی میں دیتے ہوئے یہ
امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ بلوچ نوجوانوں کی لاشوں کی برآمدگی سے نفرت اور
انتقام کی وہ فصل اگے گی جس کو کاٹتے کاٹتے اسے بونے والوں کے ہاتھ شل
ہوسکتے ہیں مگر فصل ختم نہیں ہوگی- |