یہ فرض کفایہ نہیں

عجب تماشہ ہے چو ربھی چور چور کا شو ر مچارہاہے۔ایک وردی پہنے جرنیل بھی جمہوریت کو مضبو ط کرنے کا دعوی کررہاہے۔ایسے لوگ جو سراپا کرپشن ہیں۔وہ دوسروں پر انکلیاں اٹھا رہے ہیں۔چور اور سادھ کا فرق مٹ رہاہے۔کچھ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ اس قدر خلفشار برپا رہے کہ ان کے جرائم چھپے رہیں۔ریاست ہے کہ اس کا انگ انگ زخمی ہے۔مگر اس کے نام نہاد مسیحا اس کے اپریشن کے نام پر کبھی کہیں نشتر لگرہے ہیں۔کبھی کہیں۔ریاست میں بسنے والے اپنے اپنے حقوق کے لیے تو بے چین ہیں۔مگر کوئی بھی اپنی ذمہ داری نبھانے پر آمادہ نہیں۔اگر کوئی شخص ذمہ داری نبھانے کا ذہن بنالے تو بجائے اس کی حوصلہ افزائی کے سبھی اسے ڈرانے دھمکانے لگتے ہیں۔سابق وزیر اعظم نوازشریف کے سیاسی موقف کو قریب قریب سبھی سیاسی جماعتیں غیر دانشمندانہ قراردے رہی ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف زرداری کا کہناہے کہ شریف خاندان اختلافات کا ڈرامہ رچا کر احتساب سے بچنا چاہتاہے۔لوٹ مار کی مذید تفصیلات آنے والی ہیں۔شریف اشرافیہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ایک انٹرویومیں سابق صدر مملکت کا مذید کہنا تھاکہ نواز حکومت نے ملک کو قرضوں میں جکڑ دیاہے۔یہ کیسی ترقی ہے۔لاہور میں ہسپتالوں میں لوگوں کو دوائی اور جگہ نہیں ملتی۔

شریف فیملی کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔سچ پوچھیے تو شریف فیملی میں سے صر ف دو لوگ اصل نشانہ ہیں۔سابق وزیر اعظم نوازشریف اور ان کی صاحب زادی مریم نواز۔ان دونوں کے سوا کسی دوسرے فرد سے کچھ خاص شکایت نہیں۔ پہلے صرف اور صر ف نوازشریف اکیلے فرد نامطلوب تھے۔ حلقہ این اے120 کانتیجہ دیکھنے کے بعد مریم نوازبھی نامطلوب قرار پائیں۔یہ نتیجہ صرف او ر صرف یا مریم کی محنت تھی۔یا نوازشریف کا نام اس کے علاوہ کوئی دوسرا امر کارفرما نہیں۔تب آدھی پارٹی قیادت توبے وجہ ہی غیرفعال ہوچکی تھی۔بعد میں کئی لوگ عدالتی احکامات کی آڑ میں اپنی بے ہمتی چھپانے لگے۔عدالت نے انتخابی مہم کے دوران پابندیاں لگاکر اس قسم کے لوگوں کو بہانہ دیا۔تب میدان میں یا تو مریم نوازتھی۔یا پھران کی ایک چھوٹی سی ٹیم۔اس حلقے میں کامیابی پانا یوں بھی ایک معجزہ تھاکہ یہاں سے نوازشریف کو ہروانے کے لیے خفیہ قوتیں پوری طرح متحرک تھی۔انہوں نے اس سلسلے میں آخری حد تک جانے کی کوشش کی۔پری پول رگنگ سے لے کر پوسٹ پول رگنگ تک سبھی حربے آزمائے۔یہ جو چالیس سے زیادہ جماعتیں اس حلقے میں کھڑی کردی گئی تھی۔یہ اسی پری پول رگنگ کا ایک باب تھا۔ان جماعتوں کی تمام تر غیر قانونی نشرو اشاعت کو ممکن بنایا گیا۔حکومت تو کسی کی تھی۔مگر اختیار کوئی اور برتتا رہا۔نوازشریف کو جہاں جہاں سے کوئی ریلیف مل سکتاتھا۔وہاں وہاں پر نقب لگایاگیا۔تحریک لبیک یا رسول اللہ۔ملی مسلم لیگ۔سمیت کئی جماعتوں کو صرف اسی لیے متعارف کروایا گیا۔کہ نوازشریف کو ملنے والے اس مذہبی حلقوں کا ووٹ توڑا جا سکے۔جو پی پی اور تحریک انصاف کولادین اور مغربیت پسند کلچر کی فروغ دینے والی جماعتیں قراردے کر اپنا وزن نوازشریف کے پلڑے میں ڈالتے رہے ہیں۔میڈیا میں بھی ان دنوں شریف فیملی کے خلاف جو زہر اگلوایا گیا۔وہ بھی پری پول رگنگ کی ایک صورت تھی۔نوازشریف کا نام ان سازشیوں کی روسیاہی کا باعث بن گیا۔اور انہیں منہ کی کھانا پڑی۔مریم کا جرائت سے کھڑے ہوجانا حلقے کی عوام کی غیرت کو لکارگیا۔عوام نے ایک مخلص اور نیک نیت لیڈر کی بیٹی کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا۔

زرداری صاحب شریف فیملی کو منہ دکھانے کے قابل نہ ہونے کا دعوی کررہے ہیں۔دراصل یہ مخالفت وہ اگلے الیکشن میں کامیابی پانے کے لیے کررہے ہیں۔پی پی قیادت اس فردنامطلوب کے بد خواہوں کو خوش کرنے کے لیے کروہے ہیں۔یہ بد خواہ دراصل پاکستان میں جنگل کا قانون چاہتے ہیں۔جہاں وہ ملک کو خالہ جی کے گھر کی طرح چلاسکین۔۔ حلقہ این اے120 کی کامیابی دراصل ان بدخواہوں کے منصوبے فیل ہونے کی دلیل ہے۔ یہ دوسری بڑی ناکامی تھی۔اس سے قبل دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں بھی ان کے منصوبے خاک میں جاملے تھے۔تب بھی عوام نے پتلی تماشہ مستر دکردیا۔نالائق ااور کاٹھ کے گھوڑے مستردکردیے۔ایسے گھوڑے جو زبردستی مسلط کیے جانے تھے۔آج تک اس ناکامی کا غصہ فرو نہیں ہورہا۔کبھی دھرنا کروایاجاتاہے۔کبھی آزادی مارچ۔کبھی کسی دنیا دار نام نہاد علامہ کے ذریعے کوئی ٹوپی ڈرامہ کروایا جاتاہے۔کبھی معصوم او رکچے ذہنوں میں گند بھر کر یوتھ فورس کے نام پر خلفشار پید اکیا جاتاہے۔یہ معصوم اگر اپنے نام نہاد انقلابیوں کی اصل صورت او رعزائم دیکھ لیں تو شاید ان کی تکا بوٹی پر اتر آئیں۔مریم نواز کو اس لیے تنقید کا سامناہے کہ وہ نوازشریف کی زبان بنی ہوئی ہیں۔ان کے ہاتھ۔بنی ہوئی ہیں۔زبان تو مریم کی ہے مگر الفاظ اور مدعا نوازشریف کا ہوتاہے۔مریم کو تنقید سننا پڑرہی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آخراس مصنوعی خلفشار کی انتہا کیا ہے۔وہ جماعتیں جو اپنے آپ کو جمہوریت کی چیمپئن قراردیتی ہیں۔جو نوازشریف کو آمریت کی پیداوار قراردیتی ہیں۔جو انہیں آمرکی یادگار کہتی ہیں۔ان کا اپنا کردار کیا ہے۔کل کو چھوڑیے وہ آج کہاں کھڑی ہیں۔جمہوریت تو مضبوط ہونی چاہیے۔کیااسے باندھ کرغیر جمہوری قوتوں کے آگے پیش کردینے سے یہ مضبوط ہوگی۔جس طرح سے نوازشریف کی دوسری جماعتوں کی جانب سے مخالفت کی جارہی ہے۔وہ افسوس ناک ہے۔جو جماعتیں ہنگامی طور پر متعارف کروائی گئی ہیں۔ان پر تو گلہ نہیں۔وہ تو بنائی ہی اس لیے گئی ہیں کہ وہ جمہویت کو کھوکھلا کریں۔مگر وہ جماعتیں جودہائیوں سے سیاست کے سرد گرم سے آشنا ہیں۔ان کی جانب سے یہ مخالفت کسی طور درست نہیں۔نوازشریف جمہوریت کو مضبو ط کرنے کے لیے عملی طور پر میدان میں ہیں۔وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔طعنے سہہ رہے ہیں۔پارٹی اور خاندان میں پھوٹ سے گزررہے ہیں۔دوسری جماعتیں جانے کیوں تماشائی سے بنے ہوئے ہیں۔جمہوریت کا دفاع کرنا کوئی فرض کفایہ نہیں جو ایک آدھ کی طرف سے ادائیگی پر پورا ہوجائے۔یہ تو ایک ایسی جنگ ہے۔جو صرف متحد ہو کرہی جیتی جاسکے گی۔تقسیم کرو اور حکومت کروکی مشترکہ دشمن کی پالیسی کو اہل جمہور ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا جوڑ کر ہی ناکام بناسکتے ہیں۔
Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141289 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.