حقائق کی بنیاد پرمسئلہ کشمیر کا ایک قابل عمل حل
(Athar Massood Wani, Rawalpindi)
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے
متنازعہ قرار دی گئی ریاست جموں و کشمیر و گلگت بلتستان پانچ تہذیبی و
جغرافیائی اکائیوں پر مشتمل ہے جس میں جموں،کشمیر،لداخ ہندوستان کے قبضے
میں اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان پاکستان کے قبضے میں ہیں۔ریاست کشمیر پر
سلامتی کونسل کی قرار دادوں سے پہلے ہندوستان اور پاکستان کی طرف سے سلامتی
کونسل کو یہ لکھ کر دیا گیا تھا کہ سلامتی کونسل کا فیصلہ قبول کیا جائے
گا۔اقوام متحدہ نے ریاست جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کے سیاسی مستقبل کے
فیصلے کے لئے رائے شماری کرانے کا فیصلہ کیا تا کہ متنازعہ ریاست کے عوام
اس کا فیصلہ کریں۔سلامتی کونسل کی طرف سے ناظم رائے شماری کا تقرر بھی کیا
گیا لیکن ہندوستان کی طرف سے تعاون نہ کئے جانے پر مسئلہ کشمیر کے پرامن
اور منصفانہ حل کا کام تعطل کا شکار ہو گیا۔بعد ازاں ہندوستان نے ریاست
کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کر دیااورآزاد کشمیر و گلگت بلتستان
پر بھی دعوی جمانے لگا۔تاہم بھارت کی یہی کوشش نظر آتی رہی ہے کہ سیز فائر
لائین کی بنیاد پر ہی متنازعہ کشمیر کی تقسیم کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل
کیا جائے۔
ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں
کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کئے جانے کے مطالبے کے ساتھ1986ء میں سیاسی تحریک
شروع ہوئی اور دو سال بعد ہی ہندوستان سے آزادی کی مسلح تحریک بھی شروع ہو
گئی۔یوں 31سال سے ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر میں آزاد ی،مسئلہ کشمیر کے حل
کے لئے کشمیریوں کی جدوجہد مختلف انداز میں جاری ہے۔اس دوران ایک لاکھ سے
زائد کشمیری بھارتی فورسز کے ہاتھوں ہلاک اورہزاروں قیدہوئے۔اس وقت مقبوضہ
کشمیر میں بھارت کی چھ سے سات لاکھ ریگولر آرمی جبکہ تین سے چار لاکھ نیم
فوجی دستے شامل ہیں،یوں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی تعداد دس ،گیارہ
لاکھ کے لگ بھگ ہے۔جموں اور لداخ کی غیر مسلم اکثریتی آبادی ہندوستان کے
ساتھ شامل ہونا چاہتی ہے جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے خطے پاکستان
کے ساتھ شامل ہونے کے خواہاں ہیں۔مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے جدوجہد صرف
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہے،جبکہ باقی خطے مسئلہ کشمیر کے حل تک متنازعہ
خطے کے حصوں کے طور پر اپنے سیاسی مستقبل کے تعین کے انتظار میں ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے تاریخی،جغرافیائی ،تہذیبی ،تقافتی اور زمینی
حقائق کے مطابق ایک تجویز سامنے آئی ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد
کشمیر(مقامی عوامی خواہشات کے مطابق)پاکستان،لداخ اور جموں(مقامی عوامی
خواہشات کے مطابق)ہندوستان جبکہ دریائے چناب اور کشن گنگا(نیلم دریا) کے
درمیان کے علاقے کو خود مختارسٹیٹس دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر حل کیا جائے۔یہ
مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں واحد عملی تجویز ہے ۔ تاریخی طور پر اصل
کشمیر بھی یہی علاقہ تھا جس کا ذکر ''راج ترنگنی '' میں آیا ہے۔1892ء میں
دنیا کے مشہور ماہر آثار قدیمہ اور محقق پروفیسر سٹائن نے بھی اصل کشمیر کی
حدود یہی بیان کی ہیں۔ اس وقت نہ تو اس میں لداخ ، نہ جموں اورنہ ہی گلگت
بلتستان شامل تھے ۔نہ ہی کشن گنگا کے مغربی طرف کے علاقے جن کو آج کل آزاد
کشمیر کہا جاتا ہے، یہ علاقے اپنی اپنی جگہ خود مختار ریاستیں تھیں۔ سب سے
پہلے کشمیر کے مغل قابضین نے ،بابر کے کز ن مرزا حیدر کی سربراہی میں، ان
تمام علاقوں کو فتح کر کے کشمیر میں شامل کر دیا ۔اس کے بعد افغانوں کو
کشمیر کا اقتدار منتقل ہوا تو یہ علاقے کشمیر کا حصہ ہی رہے، کسی یکجہتی کی
بنیاد پر نہیں بلکہ طاقت کے زور پر ۔ جب پنجاب کے سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ
نے افغانوں کو شکست دے کر کشمیر پر قبضہ کیا تو ان سب علاقوں نے اپنی آزادی
کا اعلان کر دیا اور ان علاقوں کے سابقہ حکمران خاندانوں نے ان علاقوں کا
اقتدار دوبارہ سنبھال لیا ۔سکھوں نے فوج کشی کرتے ہوئے ایک ایک کر کے ان
علاقوں ،ریاستوں پر دوبارقبضہ کیا۔ وہ صرف گلگت فتح نہ کر سکے جہاں کے راجہ
گوہر امان نے سکھ جرنیل بھوپ سنگھ کو شکست دے کر گلگت پر اپنا قبضہ برقرار
رکھا ۔ باقی علاقوںریاستوں پر سکھوں کا قبضہ ہو گیا اور ان علاقوں کو کشمیر
کے ساتھ شامل کر دیا گیا۔ گوہر امان کی وفات کے بعد گلگت کا علاقہ بھی فتح
کر کے کشمیر میں شامل کر دیا گیا ۔جب رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھ سلطنت
سازشوں اور طوائف الملوکی کا شکار ہوئی تو انگریزوں اور سکھوں کی جنگ کے
بعد انگریزوں نے ریاست پنجاب پر قبضہ کر لیا ۔سکھوں کی فوج کے ڈوگرہ جرنیل
گلاب سنگھ نے غداری کرتے ہوے درپردہ انگریزوں کی مدد کی ۔اس سے وعدہ کیا
گیا تھا کہ فتح کے بعد اس کی خدمات کے عوض جموں کا علاقہ اس کو دے دیا جاے
گا ۔لیکن جنگ میں فتح کے بعد انگریزوں نے کہا کہ ہم نے وعدہ ضرور کیا تھا
لیکن ہم تم کو جموں کے ساتھ کشمیر دے دیں گے لیکن قیمت کی ادا ئیگی کے بعد
۔یوں گلاب سنگھ ڈوگرہ اور انگریزوں کے درمیان معاہدہ امرتسر قائم ہوا اور
پچھتر لاکھ نانک شاہی کے عوض دریائے سندھ کے مشرقی علاقے تک گلاب سنگھ کو
فروخت کر دیا گیا۔ ان سب علاقوں نے پھر اپنی اپنی آزادی کا اعلان کرتے ہوے
اپنے اپنے آبائی علاقے کا انتظام سنبھال لیا۔ اس پر ڈوگرہ جرنیل زور آور
سنگھ کو فوج دے کر بھیجا گیا اس نے سب سے پہلے دریائے چندر بھاگا(چناب)کو
عبور کر کے کشتواڑ فتح کیا اور یہاں سے آگے بڑھتے ہوے لداخ کو فتح کرتے
ہوئے ریاست کی حدود نیپال کے ساتھ ملا دیں۔ یہاں سے آگے بڑھ کر و ہ تبت
خورد (بلتستان )تک جا پہنچا اور انتہائی ظلم و ستم روا رکھتے ہوئے ان سب
ریاستوں پر قبضہ کر لیا ۔
ڈوگرہ حکومت کے گورنر مولانا حشمت اللہ خان اپنی کتاب'' تاریخ جموں ''میں
لکھتے ہیں کہ ''یہ حملہ آوروں کی تلوار کا زور تھا کہ جہاں تک پہنچا وہاں
تک کشمیر بنا دیا ''۔آج کی صورت حال بھی کچھ یوں ہے کہ جموں انڈیا کا حصہ
بننے پر خوش ہے اور وہاں کوئی تحریک نہیں چل رہی ،لداخ کے باشندے جہاں بدھ
اکثریت ہے 50 سال سے تحریک چلا رہے ہیں کہ ہمیں مرکز(انڈیا)کے ساتھ ملایا
جاے ۔یہاں بھی کشمیر میں چلنے والی تحریک آزادی کی کوئی حمایت نہیں ہے
۔گلگت بلتستان کے عوام بھی پاکستان کے ساتھ شامل کئے جانے کا مطالبہ کرتے
ہیں ۔اسی طرح آزاد کشمیر میں بھی کوئی تحریک آزادی نہیں چل رہی ۔یہ تحریک
صرف لسانی ،ثقافتی ، اور تہذیبی یکسانیت رکھنے والی وادی کشمیر میں ہی جاری
ہے جو علاقے تاریخی طور پر ''مراز اور کمراز''پر ہی مشتمل ہیں ۔ مسئلہ
کشمیر کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ یہ سوچ ہی ہے جو مغلوں ،سکھوں، اور ڈوگروں
کے جبری طور پر فتح کئے گئے علاقوں کے وارث بننا چاہتے ہیں ۔آج کے حالات
میں جب کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی طاقتیں ہیں کسی فریق کے لئے اس مسئلہ کو
طاقت کے بل پر حل کرنا ناممکن ہے ۔اور کسی بھی علاقے کے عوام کو ان کی
خواہشات کے خلاف زبر دستی کہیں شامل کرنا انصاف نہیں ہو سکتا ،اس لئے
موجودہ حالات میں یہ تجویز بالکل مناسب اور زمینی حقائق کے مطابق ہے، جس
میں دونوں ایٹمی طاقتوں کی انا بھی مجروح نہیں ہوتی اور اپنی آزادی کے لئے
قربانیاں دینے والے کشمیر کے عوام کا مطالبہ بھی پورا ہو جائے گا۔ |
|