وہ نومبرخواب ہوا جس میں سرد لہجے،
برفاب لمحے بھی دلکش ودلفریب لگتے تھے جو روح و بدن کو آسودگی بخشتے تھے کہ
اب تو اسموگ میں لپٹا آسمان ہے اور فضاؤں میں پھیلادھواں ہے کہ سانس لینا
بھی محال ہے ،عظمت رفتہ کے چھن جانے کی چبھن جلن بن کر دل میں اتر آئی ہے
ہر سو عجب بے چینی اور وحشتوں کے ڈیرے ہیں جیسا کہ یہ کوئی خدائی پکڑ ہو
۔۔؟ویسے جب ہم اس خدائی پکڑ کا ذکر کرتے ہیں تو اہلِ دانش بول اٹھتے ہیں کہ
موسمی تغیرات کو خدائی پکڑ کہنا مناسب نہیں۔۔ مناسب تو یہ بھی نہیں کہ آجکل
جس ڈگر پر ہمارے حکمران گامزن نہیں جس میں خسارہ ہی خسارہ ہے اور پیارے
عوام ہیں کہ کسی کبوتر کی طرح آنکھیں موندھے آسمان سے اترنے والی فرشتوں کی
جماعت کا انتظار کر رہے ہیں ۔کیا قیامت ہے کہ ایک اسلامی ریاست ہے مگر جھوٹ
، فریب ، مکاری ،من مانی ،دغا بازی اور نفرتوں کا بول بالا ہے کہ مدرسوں
میں معصوم بچوں کی عزتیں اور جانیں محفوظ نہیں ، گلیوں ، محلوں اور چوراہوں
میں آدم و حوا کے بیٹے اوربیٹیاں محفوظ نہیں کہ’’ بنت حوا ‘‘کو با اثر
افراد نے اسلحے کے زور پرسر عام برہنہ کر کر پورے گاؤں میں پھرایا ہے
بلاشبہ باشعور لوگ مانتے ہیں کہ یہ ایک لڑکی کو برہنہ نہیں کیا گیا بلکہ
’’پاکستان کی بیٹی ‘‘ کو برہنہ’’ پھرایا ‘‘گیا ہے ۔ ہماری اخلاقیات کا
معیار یہ ہے کہ قندیل بلوچ نے اگر نا مناسب اور شرمناک انداز اختیار کیا
توموم بتی مافیا آج بھی اس کو رو رو کر ہلکان ہورہا ہے اور اس ڈرامے کی آڑ
میں بے حیائی اور شرمناکی کے انداز میں ڈرامے اور دستاویزی فلمیں بن رہی
ہیں اور ایک بچی کو برہنہ کر دیا گیا تو یہ مفاد پرست موم بتی نہیں جلی
۔کسی کا بیان تو کیا کوئی جلسہ جلوس نہیں نکالا گیااو ر دوسری طرف شرمین
عبید چنائے کی بہن کو ڈاکٹر نے فیس بک فرینڈ ریکوئیسٹ بھیجی تو اسے ہراساں
کرنے کا نام دیکر نوکری سے بر طرف کر دیا گیا جبکہ فیس بک پر بلاک کی سہولت
بھی موجود ہے ۔مگر دو نمبری عقل والوں کیلئے سوال چھوڑ ہی دیتی ہے اورکیا
کوئی عام عورت ایسی درخواست لیکر تھانے جاتی تو اس پر اسقدر سخت ردعمل
دیکھنے میں آتا؟ بس یہی وہ دوہرا معیار ہے جس نے ملک کی ساکھ خراب کر رکھی
ہے ۔
اب جبکہ وطن عزیز عجیب صورتحال سے دوچار ہے کہ ایک طرف اسموگ نے فضاؤں کو
اپنی لپٹ میں لے رکھا ہے تو دوسری طرف سیاسی بحرانوں کی فوگ نے ملک میں لوٹ
مار کا طوفاں بپا کر رکھا ہے ‘سچے اور مظلوم کی آواز کان پڑی سنائی نہیں
دیتی اور جمہوری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور من مانیوں سے ایوان بھی کانپ
نہیں رہے ۔نظم مملکت کو درپیش خطرات بڑھتے جا رہے ہیں کیونکہ کرسی اور
اقتدار چھوڑتے ہوئے ہماری جان نکل رہی ہے اور سازشی عناصر سر گرم ہیں کہ
امریکہ بھارت کو خطے میں لیڈر بنانے کا عندیہ دے رہا ہے اور بھارتی فوج کو
جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے ہم جانتے ہیں کہ امریکہ کا
مقصد خطے میں توازن بگاڑنا ہے جبکہ ہمارے حکمران ’’ڈومور ‘‘ کے جواب میں ’
نو مور ‘‘ بھی اپنوں کو کہتے ہیں اور جو اپنوں سے لڑتے ہیں وہ غیروں سے
لڑنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ تاہم یہ لڑائی تو جیسے ملک کی بنیادیں کھوکھلی
کرکے ہی جان چھوڑے گی کیونکہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی نا اہلی تو
جیسے ملکی انتظام و نصرام پر قیامت بن کے ٹوٹی ہے ۔ کسی کو عوام کی فکر
نہیں ہے بلکہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھ گیا ہے ۔ چولہے ٹھنڈے پڑنے لگے ہیں،
اشیا ء ضروریہ جیسی چیزوں کے نرخوں کو بڑھا کر عوام کو ہذیانی کیفیت میں
مبتلا کر کے نفسیاتی دباؤ بڑھایا جارہا ہے مایوسیوں اور نا امیدیوں کا
بازار گرم ہے، حکمران جماعت کا پروٹوکول ، سینہ زوری بے قابو ہوتی جا ر ہی
ہے جبکہ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار ،جناب میاں صاحب اور بھتیجی کو
سمجھا سمجھا کر تھک گئے ہیں کہ ’’ہتھ ہولا رکھو‘‘ تصادم کی راہ کسی طور نفع
بخش نہیں ہے۔ امکان ہے کہ چوہدری نثار آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں
گے اور دکھائی یہ دیتا ہے کہ اگر لیگی قیادت نے صلح جوئی کا راستہ اختیار
نہ کیا تو اپنوں کے ہی ہاتھوں مسلم لیگ ن کو نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ
سکتا ہے مگرشریف خاندان تو ایسے آگ بگولہ ہے جیسے ان کا سب کچھ چھن گیا ہو
لہذا انکا الٹی میٹم ہے بقول شاہین بیگ’’ ہلا کے رکھ دوں گا سب انجمن کو
۔۔ابھی میں وجد میں آیا نہیں ہوں ۔‘‘! اور خوش آمدی لکھ رہے ہیں کہ میاں
صاحب بہت بردبار آدمی ہیں مگر اب معاملہ ان کی برداشت سے باہر ہو چکا ہے
اور اب ان کے لہجے میں نرمی تب آئے گی جب ان کے لیے نرمی اختیار کی جائے گی
ورنہ کچھ بھی ہو سکتا ہے ویسے ہم نے تو آج تک وہ دن نہیں دیکھا جب ن لیگی
قائدین اور وزرا نے تحمل ، برباری اور رحمت کا رستہ اپنایا ہو ۔ باقی رہی
سہی کسر تو’’ بختاور حکمران‘‘ پوری کر رہے ہیں کہ وہ بظاہر جی حضوری میں
لگے ہیں درپردہ ہواؤں کا رخ دیکھ رہے ہیں درحقیقت تو ان سب سیاسی شعبدہ باز
وں کو اپنی اپنی پڑی ہے کہ کہیں ن کا اپنا کھاتہ نہ کھل جائے اور بالفرض
کھل بھی گیا تو کوئی تو پھولوں کے ہار پہنانے والا ہو جو کہ نیب کو ظالم
ادارہ کہہ کر ان کا غصہ اور حوصلہ بڑھاسکے۔
ویسے یہ بھی پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ سات ارب روپے کی کرپشن کرنے والے کو
پھولوں کے ہار پہنائے جائیں ۔پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جائیں اور پھر پوری
اسمبلی نیب کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اسے نا اہل اور متعصب ادارہ قرار دے دے
مگر ایسا پہلی بار نہیں ہواپاکستانی تاریخ ایسی عاقبت نا اندیشیوں اور
سیاسی ہتھکنڈوں سے بھری پڑی ہے مگر اب نیا یہ ہے کہ سیاسی بساط بچھانے والے
اور سیاسی چالیں کھیلنے والے سب کے سب زیر عتاب آرہے ہیں ویسے اس میں بھی
ان کا ہی قصور ہے کہ انھوں نے اپنی کارگزاریوں اور کارستانیوں کی داستانیں
یوں سر عام بیان کی ہیں کہ اس ملک کا بچہ بچہ کہہ رہا ہے ۔۔۔اچھا ۔۔! یہ
ہیں ہمار ے سیاستدان ۔۔؟؟؟ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اب تو پاکستانی سیاست
بھی لندن منتقل ہو چکی ہے کیونکہ آجکل اسلام آباد مغوی طور پر پاکستان کا
دارالخلافہ ہے اور اصل لندن ہے جہاں لیگی وزراو رفقا اپنی میٹنگز اور اہم
فیصلے کر رہے ہیں جبکہ ملکی سیکیورٹی ، وقار اور سالمیت کے پیش نظر یہ
انتہائی قابل تفتیش عمل ہے مگر ہمارا تو تقریباً ہمیشہ سے یہی حال ہے بدیں
وجہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ـ:
لے اڑی بوئے گل راز چمن بیرون چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن
لہذا ب طے پایاہے کہ آئندہ الیکشن میں نواز شریف ن لیگ کی قیادت کریں گے
جبکہ شہباز شریف وزیراعظم بنیں گے اور مریم نواز اور حمزہ شہباز عوام میں
رہ کر ان کی ہمدردیاں اور ووٹ جیتیں گے تاکہ مستقبل میں موروثی اور ابدی
سیاست کو خون جگر دے سکیں ۔ حکمران جماعت کے فیصلے ،انداز ، آنیاں اور
جانیاں دیکھ کر محسن نقوی کا یہ شعر ذہن میں آتا ہے کہ
لاکھ اجڑے ہوں شہزادے
سر سے سلطانیاں نہیں جاتیں
پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی شرجیل میمن کو ہی دیکھ لیں کہ جنھوں نے
کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا ہے کہ نیب کا دوہرامعیار کیوں ہے ؟شریف خاندان
اور اسحاق ڈار کے خلاف نیب ریفرنسز موجود ہیں لیکن ہو پوری دنیا میں گھوم
رہے ہیں جبکہ مجھے ضمانت کے کاغذات ہونے کے باوجود حراست میں لیا گیا ہے ان
کا تو پتہ نہیں مگر ہسپتال کی تصاو یرضرور سوشل میڈیا پر گھوم رہی ہیں عجب
مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ پانامہ کھلا تو میاں صاحب کی ہارٹ سرجری دیکھنے کو
آئی،نہال ہاشمی زیر عتاب آئے تو ہسپتال پہنچ گئے ،شریف خاندان کی والدہ
ہسپتال میں ہیں اور اب اسحاق ڈار بستر مرگ پر ہیں اورعوام سے دعاؤں کی اپیل
ہے ۔
شنید ہے کہ اب وہ استعفی دینے پر بھی رضامند ہیں اور نئے وزیر خزانہ سے
ملاقاتیں ہیں۔یقینا کوئی دست راست ہوگا جس نے وفا داری میں ہر حد پار کر دی
ہوگی کیونکہ گذشتہ پانچ سالہ بھرتیوں اور عہدوں کی بندر بانٹ کا جائزہ لیا
جائے تو کسی جگہ قابلیت اور اہلیت نہیں بلکہ اپنی ذات سے وفا داری کی چھاپ
ہے بدیں وجہ سیاسی پارٹیوں سمیت لیگی کارکنان اور رفقا میں بھی انتشار اور
بے یقینی پھیل چکی ہے ۔اس افراتفری اور اکھا ڑ پچھاڑ کا انجام جو بھی ہو
مگر اس میں سب کا خسارہ ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ میاں صاحب بھی یہی
چاہتے ہیں کہ’’ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے ‘‘یعنی ہم نہیں
تو پھر کوئی نہیں ۔دوسری طرف پیپلز پارٹی کی قیادت شکوہ کناں ہے کہ ان کا
احتساب الگ اور مسلم لیگ ن کا احتساب الگ کیوں ہے واقعی بات تو سچ ہے کہ ’’
مر سوں مرسوں ، کم نہ کر سوں ‘‘ کی پالیسی اپنانے والوں اور پاکستان کھپانے
والوں کا اسپیشل ا حتساب ہونا چاہیے مسئلہ احتسابی طریقہ کار کانہیں بلکہ
احتسابی سلسلے سے جو سچائیاں سامنے آرہی ہیں وہ جان لیوا ہیں اور اب تو
احتسابی چکر نے چوہدری برادران کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے وہ کھسیانے
شہزادے تو ایک کونے میں بیٹھے تالیاں پیٹ رہے تھے کہ پاپ کی ناؤ ڈوب گئی
ویسے اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ اکثریتی سیاستدان’’ ایک توے کی روٹی
کیا پتلی کیا موٹی کیا‘‘ کے مصداق ایک جیسی نوازیاں کر تے آرہے ہیں اور ان
کے حوصلے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ان کے پیغامات سے یہ پیغام مل رہا ہے کہ
فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے
اس سیاسی گہما گہمی میں بھی اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی کہ مسلم
لیگ ن نے وفاقی حکومت کی جانب سے نئے احتساب قوانین سمیت اہم امور سے متعلق
قانون سازی کو جلد ازجلد پارلیمنٹ سے منظور کروانے اور شریف خاندان کے خلاف
عدالتوں میں دائر احتساب ریفرینسز کے متوقع فیصلوں کے پیش نظر پارٹی کے
تنظیمی اسٹرکچر میں تبدیلی اور عوامی انتخابات کی تیاریوں کے لیے رابطہ مہم
کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس مذموم جمہوریت کو بچایا جا سکے جو کہ شخصی آمریت
کا شا خسانہ ہے کہ حالیہ جمہوری دور میں بھی جمہور کے لیے کوئی ایسا کام
نہیں کیا گیا جسے سنہری حروف میں لکھا جا سکے مگر فکر کسے ہے کیونکہ احساس
زیاں نہیں رہا۔کہتے ہیں کہ کسی نے ایک عالم دین سے پوچھا :انگریز اکیلا ہو
تو کیا کرے گا ؟ ’’بور ہوگا ‘‘۔ دو ہوں تو ؟عالم :’’شرط لگا لیں گے اور
برائی کی طرف راغب ہونگے ‘‘۔ تین ہوں تو ؟ عالم : ’’پارلیمنٹ بنا لیں گے
‘‘پوچھا گیا کہ اسی طرح ہندو کے بارے آپ کی کیا رائے ہے ؟عالم نے جواب دیا
کہ ہندو ایک ہو تو سازشی ہوتا ہے دو ہوں تو بنئے ہوتے ہیں اور تین ہوں تو
جلاد بن جاتے ہیں ۔‘‘ مسلمانوں کے بارے آپ کی کیا رائے ہے ؟عالم نے کہا
مسلمان ایک ہو تو بہادر ہوتا ہے دو ہوں تو فیصلے میں الجھ جاتے ہیں اور تین
ہوں تو فرقے بنا لیتے ہیں ۔
ایسے میں ملکی حالات دیکھ کر مجھے ایک ہی خیال آرہا ہے کہ اگر درختوں کے
جھنڈ ہوا سے ہل کر چند لمحوں کے لیے دنیا کو شوروغوغا سے لبریز کر سکتے ہیں
تو آدم کی اولاد اپنی آہ و بکا سے کیوں آسمان سر پر نہیں اٹھا سکتی ؟ اگر
بے جان و بے روح پتھر دوسرے پتھر وں پر گر کر رعدو برق کا ہنگامہ بپا کر
سکتا ہے تو تم تو روح رکھتے ہو ، اپنی قابلیت ، صلاحیت ، اہلیت اور نیک
جذبات سے کیوں مثبت تبدیلی نہیں لا سکتے ۔ |