ڈھلتی شام کا وقت ہے. سورج گھر لوٹنے کو ہے... درخت و پیڑ
نیلی چادر اتار کر کالی چادر اوڑھنے لگے ہیں .... میں بالکونی سے اس منظر
پر نظریں جمائے کھڑا ہوں... دور پارسائی چادر میں لپٹے چہرے کا عکس مجھے
چاند کی لب لباتی روشنی میں صاف دکھائی دینے لگا ہے ....اتنے میں ہوا کے
سرد جھونکے نے میرے جسم کو چھو کر عجب سنسی دوڑا دی
اک منٹ کے ہزارویں حصہ میں میری توجہ نے دم توڑا اور میرے محو ذدہ احساسات
کو ایک آہنی وجود بخش گئی .... تند و تیز ہوا نے میرے سر پہ لہلہاتی زلفوں
کو میرے رخساروں پر
یوں بکھیر دیا کہ میرا چہرہ شادابی سے معطر ہونے کو ہے لیکن پھر اداسی اپنے
پر کھولنے لگنی ہے . جیسے سمندر کی لہریں ساحل پر موجود ریت سے ٹکرا کر
واپس چلی جاتی ہیں...
میں ہمیشہ ان خیالوں کی دھن میں جانے کتنے لمحوں کا سفر طے کر لیتا ہوں.
مشرق کا شہسوار اپنے گھر لوٹ چکتا ہے اور رات کا مہمان اپنی روشنی کے ساتھ
آسمان پر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہوتا ہے..پھر گھنی سیاہ رات میرے
چرنوں میں بیٹھ کر مجھے کمزور کیے دیتی ہیں میں ہجر کی تلخیوں کو اپنے بیڈ
کے دراز میں دفن کر دینا چاہتا ہوں لیکن یادوں کے ہچکولے مجھے انگلی پکڑ کر
چلانے لگتے ہیں
ہجر کا تعلق یادوں کی کتاب سے گہرا ہوتا جاتا ہے چاند پھر رات کے سناٹے کو
ہمراہ لیے صبح کے سورج کے تعاقب کو نکل کھڑا ہوتا ہے
زندگی فراق ہے
وصل کا لمحہ موت ہے |