جماعت اسلامی کا 44واں سالانہ اجلاس اور ویژن 2030

جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیرگلگت بلتستان کا قیام 13جولائی 1974 ء کو عمل میں آیا،اپنی تاسیس سے لے کرآج تک جماعت اسلامی نے اسلامی نظام کے قیام ،عوامی خدمت اور تحریک آزادی کشمیرکو منزل سے ہمکنارکرنے کے لیے جوبھرپور کردار ادا کیا وہ تاریخ کا درخشاں اور شاندار باب ہے۔جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر گلگت بلتستان کا 44واں سالانہ اراکین جنرل کونسل کا اجلاس 12,11نومبر کو اسلام آباد مرکز جماعت اسلامی بستی دارالسلام برما پل اسلام آباد میں ہو گا اجلاس کے موقع پر جماعت اسلامی اراکین جنرل کونسل کو ویژن 2030کے ساتھ میدان میں اتارے گی ،جماعت اسلامی نے ویژن 2030کے تحت آزادکشمیر کو ایک ماڈل اسلامی ریاست بنانے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے لائحہ عمل دیا ہے اس پر عمل پیرا ہو کر جماعت اسلامی کا ہر کارکن اپنی ساری صلاحیتوں کو برؤے کار لاکر اس میں رنگ بھرے گا واضح رہے کہ جماعت اسلامی کے قیام کا دن 13جولائی اس لیے رکھا گیا کہ اسی دن سرینگر میں اذان مکمل کرنے کے لیے ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں 22مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اﷲ کی کبریائی بلند کی تھی۔جماعت اسلامی اسی منزل کی جانب گامزن ہے اور قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کررہی ہے۔تاسیس کے فوراً بعد مولانا عبدالباری مرحوم جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیرگلگت بلتستان کے پہلے امیر منتخب ہوئے۔ان کے بعد کرنل (ر)رشید عباسی مرحوم امیر منتخب ہوئے۔ان کی وفات کے بعد عبدالرشید ترابی اور بعد ازاں سردار اعجاز افضل خان ،عبدالرشید ترابی اس کاروان سخت جاں کے امیر رہے۔ اب اراکین جنرل کونسل نے سیشن 2017تا 2020ء کے لیے ڈاکٹر خالد محمود کو اپنا امیر چناہے۔ڈاکٹر خالد محمود نے اپنے پیش رو امراء جماعت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آزاد خطے میں تبدیلی لانے کی جدوجہد کو آگے بڑھایا ہے ۔

جماعت اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تاسیس سے لے کر اب تک دستور کے مطابق تسلسل کے ساتھ جمہوری عمل اور ووٹ کی پرچی کے ذریعے اپنے امیر کو منتخب کرنے میں ایک دن کی تاخیر نہیں کی۔امیر جماعت کا انتخاب ہر تین سال بعد اراکین جنرل کونسل خفیہ رائے دہی سے کرتے ہیں۔مرکزی مجلس شوریٰ اراکین کے لیے امیر کے انتخاب میں سہولت کے لیے تین نام تجویز کرتی ہے۔لیکن اراکین جنرل کونسل ان ناموں کے علاوہ بھی اگر کسی کو چاہیں تو امیر منتخب کر سکتے ہیں۔امیر کے انتخاب کے لیے جو اوصاف ہونے چاہئیں ان میں تقویٰ ،پرہیزگاری ،فہم وفراست اور ٹیم کو لے کر چلنے کی صلاحیت۔ان اوصاف کو سامنے رکھ کر ہر رکن جنرل کونسل دستور کے مطابق علاقائی ، قبیلائی یا لسانی تعصبات پرنہیں بلکہ اﷲ کے سامنے جوابدھی کے نقطہ نظر سے ووٹ دیتا ہے۔انتخاب کے دوران کوئی فرد لابنگ یادخل اندازی نہیں کر سکتا۔دستور کے مطابق ایسا کرنے والا فرد چاہے مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن ہو یا رکن جنرل کونسل وہ معطل کر دیا جائے گا۔ مضبوط تنظیمی ڈھانچے اور دستور پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی وجہ سے انتخابی عمل صاف اور شفاف ہوتا ہے ، جماعت اسلامی کے تنظیمی ڈھانچے کا تصور کسی دوسری جماعت یا پارٹی میں نہیں۔

جماعت اسلامی جب سے بنی ہے تب سے تسلسل کے ساتھ اپنا سالانہ اراکین جنرل کونسل کا اجلاس منعقد کرتی ہے یہ دستوری تقاضا بھی ہے اور جماعت اراکین جنرل کونسل کے اجلاس کے موقع پر سا ل بھر کے کاموں کا جائزہ لیتی ہے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرتی ہے اجلاس کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال ،بیس کیمپ اور گلگت بلتستان میں تبدیلی کے لیے سیاسی پالیسیوں پر بحث بھی کرتی ہے ۔مرکزی مجلس شوریٰ کی مشاورت سے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جن کو امیر جماعت اسلامی اور مرکزی ٹیم لے کر چلتی ہے۔ جماعت اسلامی میں فیصلے انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔جماعت اسلامی ایک انقلابی تحریک ہے جو موجودہ فرسودہ نظام تبدیل کرکے اسلام نظام کا دیا ہوا نظام چاہتی ہے۔اﷲ تعالیٰ نے انبیاؑکو اپنی واحدانیت کے اقرار اور دنیا میں دین اسلام کے غلبے کے لیے مبعوث فرمایاکہ تمام ادیان باطل کو مٹا کر اﷲ کے دئیے ہوئے نظام کو غالب اور نافذ کیا جائے۔یہی پیغام نبی آخرالزمان کا تھا۔آج ہمارا دین بطور نظام حیات مغلوب ہے اور جماعت اسلامی اسی لیے اٹھی ہے کہ وہ دین کو بطور نظام حیات قائم کرے۔

مختلف ادوار میں جماعت اسلامی کی ذمہ داری جن قائدین کے کندھوں پر رہی ، انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرکے جماعت اسلامی کی آبیاری کی۔ جماعت اسلامی نے زمام کار کی تبدیلی ،اصلاح معاشرہ ،عوامی خدمت اورتحریک آزادی کشمیرمیں گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور دے رہی ہے۔جماعت اسلامی نے سرکاری تعلیمی اداروں کی زبوں حالی کے پیش نظر نسل نوکے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچانے کے لیے آزاد کشمیربھر اور گلگت بلتستان میں 4سو سے زائد سکولز اور کالجز قائم کیے۔ان سکولوں میں ہزاروں بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوئے اور ایک لاکھ کے قریب زیر تعلیم ہیں۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں قرآن کی تدریس اور فہم قرآن کے لیے 150سے زائد دینی ادارے قائم کیے جن میں ہزاورں بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔جماعت اسلامی ان اداروں کے ذریعے ایسے علماء تیار کیے جو مسلکی اور فرقہ واریت سے بالاترہوکر دین کاابلاغ کررہے ہیں جو امت کو امت واحدہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور دور جدید کے چیلنجز سے آگاہ ہیں۔عوامی خدمت کے میدان میں جماعت اسلامی نے کارہائے نمایاں سرانجام دے ہیں۔ 17ہزار یتیم بچوں کی کفالت جماعت اسلامی اور اس کے ادارے کررہے ہیں۔ان بچوں کی تعلیم کے سارے اخراجات اور دیگر مسائل بھی جماعت کے ذمہ ہیں۔اس کے علاوہ سینکڑوں بیواؤں ور بے سہارا لوگوں کی کفالت جماعت اسلامی اور اس کے ادارے کررہے ہیں۔زلزلہ ،سیلاب یااور قدرتی آفت میں جماعت اسلامی کے رضا کار سب سے آگے نظر آئیں گے۔صحت کے شعبے میں بھی جماعت اسلامی نے کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔غریب اور نادار مریضوں کو مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔آزاد کشمیراور گلگت بلتستان میں ہسپتال اورڈسپنریاں اس مقصد کے لیے دن رات کام کر رہی ہیں۔زلزلے کے موقع پر لاکھوں افراد کا مفت علاج کیاگیا۔اسی طرح عوامی فلاح کے دیگر منصوبہ جات جن میں صاف پینے کے پانی اور دیگر سینکڑوں منصوبے مکمل ہو چکے اور سینکڑوں زیر تکمیل ہیں۔جماعت اسلامی غریب اورنادار بچوں کی اعلیٰ تعلیم کا بندوبست بھی کرتی ہے۔ان بچوں کو بیرون ملک سکالرشپ پر داخلے کروائے جاتے ہیں جبکہ یتیم بچیوں کی شادی کے اخراجات بھی برداشت کیے جاتے ہیں۔جماعت اسلامی عوامی خدمت بلا تخصیص کر رہی ہے جو صرف اﷲ کی رضا کے لیے ہیں۔جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت ہے جس نے تحریک آزادی کشمیرکے لیے سب سے زیادہ عملی کام کیا۔مقبوضہ کشمیر سے بھارتی فوج کے مظالم سے تنگ آ کر ہجرت کرنے والوں کی بے مثال خدمت کی اور ابھی بھی ان کی خدمت کی جا رہی ہے۔مہاجرین کے کیمپوں میں ان کے مسائل کے حل اور ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ROKMسمیت دیگر ادارے قائم کر رکھے ہیں۔جماعت کے سابق امیرعبدالرشید ترابی نے دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ، اس سلسلے میں دنیا کے مختلف ممالک میں کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد ہوتا رہا جن میں مختلف ممالک کے سینکڑوں کی تعداد میں مندوبین اور سربراہان مملکت شریک ہوتے رہے جنہوں نے عبدالرشید ترابی کی تحریک پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کا اعلان کیا اور متفقہ قراردادیں بھی منظور کیں۔ان ہی کوششوں اور کاوشوں کے نتیجے میں او آئی سی میں کشمیر کنٹیکٹ گروپ کا قیام عمل میں آیا اور برطانیہ کی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر زیر بحث آیا ، یورپی یونین ، عرب لیگ اور دیگر فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیاگیا۔ابلاغ کے محاذ پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مختلف زبانوں میں سینکڑوں کتب اور میگزین شائع ہو رہے ہیں ان سے دنیا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور مسئلہ کشمیر سے آگاہی حاصل کر رہی ہے۔مسئلہ کشمیر کو تحلیل کرنے کے لیے جب چارنکاتی فارمولا پیش کیا تھا تو جماعت اسلامی کے سوا سب ڈھیر ہو گئے۔اس وقت بھی جماعت اسلامی اور اس کی قیادت ہی کھڑی رہی چاہے وہ سردار اعجااز افضل خان ہوں یا عبدالرشید ترابی۔باقی ساری آزادکشمیرکی قیادت چار نقاطی فارمولے کی ٹرین پر چڑگئی تھی۔جماعت اسلامی اور اس کی قیادت نے تحریک آزادی کشمیر کو اس حادثے سے بچایا۔آزاد کشمیرسے جن لوگوں نے مقبوضہ کشمیرمیں جاکر جہا دمیں عملی حصہ لیا ان کاتعلق بھی جماعت ا سلامی سے ہے۔مقبوضہ کشمیرکے ہر قبرستان میں آزاد کشمیرکے شہداء موجود ہیں۔آزادی کی منزل تک جماعت اسلامی کشمیری بھائیوں کے ساتھ رہے گی یہ ہمارا یمانی اور دینی فریضہ بھی ہے اور جماعت اسلامی کے دستور کاحصہ بھی ہے۔

جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے ہاتھوں سے کروڑوں نہیں اربوں روپے مختلف منصوبوں پر خرچ ہوئے۔مگر کیا مجال کے کسی قیادت اور کارپرکوئی انگلی اٹھائے،یہاں ایک بات ذہین نشین رہنی چاہیے کہ جماعت اسلامی کی قیادت اورکارکن بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں او راسی طرح انسانی خواہشات رکھتے ہیں جس طرح دوسرے افراد ہیں۔یہ کوئی فرشتوں کی جماعت نہیں ہے،نہ ہی کوئی یہ دعویٰ کرسکتاہے۔کوتاہیاں اور کمزوریاں ہیں لیکن خیرغالب ہے۔ان لوگوں کے دامن صاف ہیں،اس کو معمولی نہ سمجھاجائے۔جماعت اسلامی کے اس شاندار کردار کااعتراف پاکستان کی علیٰ عدلیہ نے بھی کیاہے۔یہ نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کے پاس کچھ تھا ہی نہیں تو کرپشن کیا کرتے ؟امیر جماعت اسلامی آزادجموں وکشمیرعبدالرشید ترابی ممبراسمبلی رہے۔ ایک دفعہ جیت کے نتیجے کو دوسرے دن تبدیل کروایا گیاوہ الگ بحث ہے،جب ممبر اسمبلی تھے تو پہلی مرتبہ کسی کو پتہ چلا کہ ایم ایل اے فنڈز بھی ہوتاہے،محکمہ لوکل گورنمنٹ نے عبدالرشید ترابی کے حلقے کو ماڈل حلقہ قراردیاتھا یہ ریکارڈ پر موجود ہے،365سیکمیں بلاتخصیص دیں یہ نہیں دیکھاکہ کس علاقے کے لوگوں نے ووٹ دیے تھے کہ نہیں دیے تھے سب کو برابر حق دیا،بلکہ جس علاقے کے لوگوں نے زیادہ ووٹ دیے اور دوسرے علاقے کے لوگوں نے کم ووٹ دیے تھے یہ نہیں دیکھا بلکہ جس کا حق جتنا آبادی کے بنیادبنتاتھا وہ دیا۔عبدالرشید ترابی نے دو بار جماعت اسلامی کو پارلیمانی نمائندگی دلائی اور جماعت کو سیاسی طور پر آگے بڑھایا۔جماعت اسلامی کی قیادت نے کردار پیش کیاہے،کوئی ہے تو سامنے آئے۔جماعت اسلامی کے ساتھ اس وقت لاکھوں لوگ وابستہ ہیں،ہزاروں ممبران ہیں۔آزاد کشمیرگلگت بلتستان اور مہاجرین کے ہر حلقے میں ایک طاقت کے طو رپر موجود ہے،وقت قریب ہے کہ عوام جماعت اسلامی پر ہی اعتماد کریں گے اس کے علاہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیرگلگت بلتستان چونکہ 1974ء میں ہی قائم ہوئی تھی اس لیے صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔اس کے بعد 1977ء میں مارشل لاء لگ گیا،1985ء میں پاکستان کی طرف سے ایک شق لاگوہوئی جس کی بنیاد پر جماعت اسلامی نے انتخاب میں براہ راست حصہ نہیں لیا تھابلکہ تین جماعتوں کا اتحاد بناتھا جماعت اسلامی بھی اس کا حصہ تھی۔اسی اثناء میں مقبوضہ کشمیرکے اندر تحریک آزادی کشمیرپوری قوت کے ساتھ شروع ہوگئی ہزاروں کی تعدا د میں مقبوضہ کشمیرسے لوگوں نے ہجرت کرکے آزاد کشمیرکا رخ کیا،آزاد خطے سے جماعت اسلامی ہجرت کرکے آنے والوں کی رہائش او ردیگر ضروریات کی طرف لگ گئی،جماعت اسلامی نے مشاورت کے بعدتحریک آزادی کشمیرکے اس بڑے چیلنج سے عہدہ برا ء ہونے کے لیے اپنی ساری تونائیاں اس کی کامیابی کے لیے صرف کیں۔جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیرنے اس تحریک کی تمام ضروریات پوری کیں۔1990ء کے انتخابات کے موقع پریہ تحریک عروج پر تھی تو جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے مشاورت سے فیصلہ کیاکہ اگر اس موقع پر جماعت اسلامی انتخابی میدان میں جاتی ہے تو ساری توجہ اور وسائل انتخابی معرکے میں کامیابی کے لیے لگیں گے تو تحریک آزادی کشمیرمتاثرہوگی،جماعت اسلامی نے انتخابات میں نہ جانے کا فیصلہ کیااوراپنی ساری توانائیاں تحریک آزادی پر صرف کیں۔تحریک کے تقاضوں کے مطابق سارے محاذوں پر کام کرکے تحریک آزادی کشمیر کو ایک تواناآوازاورمسئلہ کشمیرکو عالمی سطح پرفلش پوائنٹ بنادیا۔تحریک آزادی کشمیر کو کامیابی کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لیے بیس کیمپ کے کردار کی بحالی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی نے 1996ء میں مشاورت سے پہلی بار پوری قوت کے ساتھ میدان سیاست میں اترنے کا فیصلہ کیا،انتخابات میں جماعت اسلامی کو اچھے ووٹ بنک کے ساتھ پارلیمانی نمائندگی بھی ملی،جماعت اسلامی کے امیر عبدالرشید ترابی نے اس پارلیمانی نمائندگی کے ذریعے مسئلہ کشمیرکو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے حقوق کے لیے جنگ لڑی۔2006ء میں جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا،اس مرتبہ عبدالرشید ترابی 2100کی لیڈ سے جیت گئے تھے مگر رات کو نتائچ تبدیل کروائے گئے۔دوسرے دن عبدالرشید ترابی کی ہار کا اعلان کروایا گیا، ان انتخابات میں جماعت اسلامی کے دیگر امیداروں نے اچھے ووٹ حاصل کیے تھے۔ان انتخابات میں بھی ایک سازش کے تحت جماعت اسلامی کو اسمبلی سے باہر کیاگیا۔جماعت اسلامی نے 2011ء میں ایک نومولود جماعت ن لیگ آزاد کشمیر کی پیش کش پر مشاورت کے بعد سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا،اس بار بھی جماعت اسلامی کی جیتنے والی سیٹ عبدالرشید ترابی کے حلقے میں بغاوت کروائی گئی اور ایک فرد کو کھڑا عبدالرشید ترابی کے خلاف تاکہ ایک تو جماعت اسلامی کو اسمبلی میں نہ آنے دیاجائے اوردوسرا راجہ فاروق حید ر اور نومولود مسلم لیگ ن کا سرکچلاجائے۔جماعت اسلامی مخالف لابیز اپنے اہداف میں کامیاب ہوئیں اور جماعت اسلامی پارلیمانی نمائندگی حاصل نہ کرسکی۔جماعت اسلامی نے 2016ء میں بھی مسلم ن آزاد کشمیر نے پھر پیش کش کی کہ مل کر سیاسی حکمت عملی اپناتے ہیں ، جماعت اسلامی نے اس پیش کش پر مشاورت کی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے انتخابات میں جانے کافیصلہ کیا،مسلم لیگ ن نے جماعت اسلامی کو دوبراہ راست سیٹیں ،دومخصوص سیٹیں ،مشیر حکومت اور حکومت بننے کی صورت میں اداروں میں بھی نمائندگی دینے کامعاہدہ کیا۔جماعت اسلامی نے اس پراتفاق کیااور جماعت اسلامی نے اخلاص کے ساتھ ہر حلقے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کی مہم چلائی اور جیت کا فیصلہ جماعت اسلامی کے فیصلہ کن ووٹ سے ہی ہوا۔اس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو دوسیٹیں دیں۔اس وقت جماعت اسلامی دوسیٹوں کے ساتھ اسمبلی میں موجود ہے تحریک انصاف کی قیادت اسمبلی سے باہر ہے اور پیپلزپارٹی جس کی حکومت تھی وہ محضتین سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئی۔اس حوالے سے جماعت اسلامی کی کامیاب حکمت عملی تھی۔موجودہ اسمبلی میں پیپلزپارٹی ،مسلم کانفرنس ،تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی برابربرابر نمائندگی ہے۔جماعت اسلامی کو یہ نمائندگی ووٹ دینے کے عوض ملی ہے۔جب سے جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن کی قیادت حکومت میں آئی ہے اسمبلی اور حکومت تحریک آزادی کی پشتیبان بن گئی ہیں۔قومی وقار میں اضافہ ہواہے نظام کی اصلاح کاکام شروع ہوا ہے۔میرٹ کی بحالی کے لیے این ٹی ایس کے ذریعے اساتذہ کرام کی بھرتیوں اور پبلک سروس کمیشن کی تشکیل نوجیسے اقدامات سے بہتری پیدا ہوئی ہے جماعت اسلامی خیر کے کاموں میں تعاوں کرے گی اور برائی کے کاموں میں تعاون نہیں کرے گی۔

جماعت اسلامی نے اپنا ایک فیز کامیابی سے مکمل کر لیا ہے آزاد خطے کے اندر متبادل تعلیم صحت اور خدمت کا نظام قائم کرلیا ہے اب سیاسی تبدیلی کی جانب گامزن ہے ویژن 2030کے مطابق جماعت اسلامی سیشن 2020تک 43500ممبران کا اضافہ کرنے کی کوشش کرے گی سالانہ 14500ممبران کا اضافہ کیا جائے گا ہر حلقہ انتخاب سالانہ500ممبران کم سے کم اضافہ کرے گا اسی طرح 2020تک ہر حلقے میں 1500ممبران جب کہ 2030تک ہر حلقے میں 6ہزار ممبران اور 30ہزار ووٹر بنائے جائیں گے ،ممبران میں اضافے کاآغاز اہل خانہ سے کیا جائے گا ایک ماڈل حلقے میں اراکین جنرل کونسل 600امیدواران جنرل کونسل 600ممبران جماعت 6000اور ووٹرز30000کا ہدف طے کیا گیا ہے جماعت اسلامی 30لاکھ افراد تک دین کی دعوت اور 70فیصد گھروں تک پہنچے گی اور حقیقی تبدیلی لائے گی جس کے لیے ہمارے اسلاف نے جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے ۔
 

Raja Zakir Khan
About the Author: Raja Zakir Khan Read More Articles by Raja Zakir Khan: 4 Articles with 2393 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.