برطانیہ میں یونیورسٹی آف ڈنڈی میںHistory of Political
Thought کے استاد Prof Antony Black نے ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ سے لے کر
آج تک کے زمانے میں مسلم دنیا کے سیاسی نظریات کو The History of Islamic
Political Thought کے عنوان سے کتابی شکل دی ہے۔ اس کتاب کے کل صفحات تین
سو بہتر ہیں اور اس کا پہلا ایڈیشن ؑEdinburgh University Press نے شائع
کیا ہے۔ اب اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی آچکا ہے۔ یہ کتاب برٹش لائبریری
میں موجود ہے اور گوگل سے فری ڈاؤن لوڈبھی کی جا سکتی ہے۔ اس کتاب میں
مسلمانوں کے سیاسی افکار کے مآخذ بیان کیے گئے ہیں جن میں قرآن اور سیرت
نبوی بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ساتھ مختلف ادوار میں آنے
والے مسلمان سیاستدانوں اورمفکرین کے افکار و نظریات کا تجزیہ کرکے، انہیں
زیر بحث لایا گیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب کے موضوع کے حوالے سے مذہب اور
ریاستی طاقت کے باہمی توازن اور عدم توازن پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔
یونانی فلسفہ کے عربی میں ترجمہ ہونے کے بعد عربوں پر اس کے ہونے والے
اثرات کا بھی ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں فلسقہ یونان کے مقابلے میں ابن رشد
اور امام غزالی جیسی ہستیوں کے اسلامی فلسیانہ افکار کی اہمیت کو بھی اجاگر
کیا ہے۔ شیعہ اور سنی حکومتوں کے ادوار میں سیاسی احوال و واقعات سے لے کر
صوفیائے کرام کے اصلاح معاشر ہ میں کردار کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ ماضی میں
مختلف مسلمان سلطنتوں جیسے سلجوقی حکومت،خلافت عثمانیہ اور مغل حکومتوں کے
حوالہ سے مسلمانوں کی سیاسی سوچ کی تاریخ اور تجزیہ پیش کیا گیاہے۔ یہ ایک
حقیقت ہے کہ مختلف مسلم مصنفین نے بھی "مسلمانوں کے سیاسی افکار" کے حوالے
سے کئی کتابیں لکھی ہیں لیکن پروفیسر انٹونی بلیک کی یہ کتاب ایک غیر مسلم
کے قلم سے لکھے جانے کی وجہ سےایک مختلف زاویہ نگاہ رکھتی ہے۔ بنیادی طور
پر موصوف نے کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی فکر کو جدید سیاسیات کے
نظریات اور زبان میں دیکھا اور سمجھا جائے۔ مصنف کے تجزیات اور تبصرے حرف
آخر نہیں۔ یقینا ان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ مصنف
موصوف کے تجزیات کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرکے دور حاضر کے مسلمانوں کی
سیاسی سوچ کو ایک نئی جہت دینے میں معان ثابت ہو سکتےہیں۔مصنف کا خیال ہے
کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ جس کی سیاسی فکر منفرد دانشورانہ روایت کی
حامل ہے کیونکہ اس میں مذہب اور سیاست میں ہمیشہ سے ایک مضبوط تعلق موجود
رہا ہے ۔ وہ لکھتاہے کہ اسلام میں مذہب، سیاست اور ریاست مل کر معاشرے میں
انسانوں کی ہمہ جہت ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ قرون اولی میں اسلام کے نظام
زکوۃ کے ذریعہ مسلمان معاشرے معاشی استحکام پاتے تھے اور اُن کی فوجیں
اطمینان کے ساتھ جہاد کا فریضہ سرانجام دینے میں مصروف رہتی تھیں۔مصنف کا
کہنا ہے کہ مسلم دنیا میں سنہ آٹھ سو پچاس کے لگ بھگ یہ تبدیلی آئی کہ
سیاسی اقتدار بادشاہوں اور علمائے اسلام میں تقسیم ہوگیا جس میں سلطان فوجی
معاملات اور امن و امان چلاتا تھا جبکہ علماء دینی، سماجی، عائلی اور
تجارتی معاملات چلاتے تھے۔مصنف کی تحقیق کے مطابق مسلمانوں کے سیاسی اقتدار
کی مذہب سے یہ تفریق سلطنت عثمانیہ میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ ان ادوار
میں اسلام کا عسکری ونگ ہمیشہ تیار رہا اور علمائے اسلام نے سلطنت کی
بیرونی جارحیت پر کبھی کوئی قدغن نہیں لگائی۔ اس کے بقول یورپ کے کلیسا کی
طاقت کے مقابلہ میں مسلمان علمائے کرام کو کم اختیارات اور طاقت ملی لیکن
اس کے باوجود وہ زیادہ موثر اور دیر پا رہی۔ اسلامی سیاسی فکر کی تاریخ میں
شروع سے ہی قبائلی نظام کو بہت اہمیت رہی جو ابھی تک عام ہے۔ وقت کے ساتھ
ساتھ مسلمانوں میں اقتدار ایک وراثت کی شکل اختیار کرگیا۔ اسلام میں وراثت
بڑے لڑکے کو جانے کا تصور نہیں تھا جس کی وجہ سے اقتدار کی منتقلی مشکلات
کا باعث بنتی رہی۔ مصنف کے مطابق انتخاب کے ذریعے جمہوریت میں یہ فرض کیا
جاتا ہے کہ اقتدار عہدہ سے وابستہ ہے نہ کہ کسی مخصوص شخص سے جبکہ اسلامی
معاشرہ میں مغربی اثر سے پہلے سلطان یا امام کو کسی آئینی حکومت یا
جمہوریہ میں بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اسی طرح وہ لکھتا ہے کہ
قبائلی ذہنیت کی وجہ سے ہی مسلمان معاشروں میں کارپوریٹ ادارے ،کاروباری
کارپوریشنیں اور رضا کارانہ تنظیمیں وجود میں نہیں آسکیں جنہوں نے یورپ کی
ترقی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ مصنف کے خیال میں مسلمان ملکوں میں فوجی
سرپرستی کی حامل ریاستیں‘ بنیں جنہوں نے ایک آزادسوچ کو پیدا نہیں ہونے
دیا اور اسی طرح اقربا پروری اور رشتہ داری کی بنیاد پر ہر جائز و ناجائز
معاملے میں باہمی تعاون نے بھی مسلمان معاشروں کو کھوکھلا کیا۔وقت کے ساتھ
ساتھ مسلمان معاشروں کے ہر طبقہ میں جادو اور ستارہ شناسی میں اعتقاد عام
ہوگیا ۔اصل عقائد اسلامیہ خصاصا عقیدہ توحید کمزور پڑ گیا۔ اس سے بھی
مسلمانوں کی جڑیں کمزور ہوئیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ مسلمان معاشرے میں سلطان
ایک ایسی ریاست کا سربراہ تھا جو فوجی اور زرعی کمپلکس پر مبنی تھی جیسے کہ
یورپ میں فیوڈل ریاستیں تھیں۔ اس کے خیال میں دنیائے اسلام سلطنت روما کی
روایات سے ایسے ہی دور رہی جس طرح کہ ہند اور ایرن کی سیاسی روایت سے یورپ
الگ رہا اور بارہ سو عیسوی کے بعد اسلامی دنیا اور عیسائی دنیا بالکل جدا
راستوں پر چل پڑے کیونکہ اس دور میں لاطینی یورپ میں ریاست اور سیاسی فکر
کے نئے انداز نے جنم لے لیا تھا۔مصنف اس حقیقت کا معترف ہے کہ اسلامی سیاسی
فکر میں دانشمندانہ اخلاق، سیاسی حقیقت پسندی اور انتظامی معاملات میں حسن
و خوبی کی روایت ہمیشہ موجود رہی ہے اور اس کے بے شمار حوالہ جات مسلمان
مفکرین کی تحریرات میں بھی ملتے ہے۔ مصنف اس بات کو بھی مانتا ہے کہ اسلام
میں عملی زندگی کے معاملات میں توازن اور اعتدال کے تصورات پائے جاتے ہیں۔
امام غزالی اور دیگر مسلمان فلسفیوں اور علماء نے کھل کر اس پر لکھا ہے- ان
کے خیال میں یہ تصورات حقیقت پسندانہ ہیں۔انٹونی بلیک کا کہنا ہے کہ سماجی
سائنس کے ہر جدید ماہر کو ابن خلدون کو ضرورپڑھنا چاہیے تاکہ اسے پتہ چل
سکے کہ اسلامی دنیا میں ساتویں صدی سے سترویں صدی اور قدرے بعد تک کس قسم
کا معاشرہ موجود تھا۔ |