صرف سیاستدانوں کے سَروں پر احتساب کی لٹکتی تلوار
کیوں؟۔ کیا سبھی زورآور معصوم عن الخطاہیں؟۔ زمین کا یہ ٹکڑا رَبّ ِ لَم
یَزل سے اِس عہد کے ساتھ حاصل کیا گیا تھا کہ ہم اِسے اسلام کی تجربہ گاہ
میں ڈھالیں گے۔ اگر ہم اِس عہد پر قائم ہیں تو پھر حکمت کی عظیم الشان کتا
ب میں تو یہ درج ہے ’’اے ایمان والو! انصاف کے عَلم بردار بنو اور خُدا
واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زَد خود تمہاری
ذات یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو‘‘ (النساء)۔
گویا حکمِ الٰہی کے مطابق انصاف سب کے لیے اور احتساب میں کوئی چھوٹا بڑا
نہیں،کوئی زورآور نہیں۔ تاریخِ اسلام میں وہ واقعہ آج بھی روزِ روشن کی طرح
جگمگا رہا ہے جب فاطمہ نامی ایک عورت سے چوری کا جرم سَرزَد ہوا۔ آقاﷺ نے
حکم دیا کہ اِس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ صحابہ اکرام رضوان علیہم نے عرض کیا
کہ وہ عورت طاقتور ترین قبیلے سے تعلق رکھتی ہے اِس لیے سزا پر عمل درآمد
سے گریز ہی بہتر۔ تب آپؐ ؐنے فرمایا ’’رَبّ ِ کعبہ کی قسم اگر میر ی بیٹی
فاطمہ بھی ہوتی تو میں اُس کا ہاتھ کاٹنے کا بھی حکم دیتا‘‘ (مفہوم)۔
حضرت عمرؓ جن کے انتظام و انصرام اور عدل کی غیر مسلم بھی گواہی دیتے ہیں،
اُن کا فرمان ہے ’’اگر کسی کی وجاہت کے خیال سے قانون کا پلڑا اُس کی طرف
جھُک جائے تو اﷲ کی بادشاہت اور قیصر وکسریٰ کی حکومت میں کیا فرق ہوا‘‘۔
یہی وہ اصول ہے جس پر کاربند رہنے پر مسلمان شرق تا غرب پھیلے ۔ اسلامی
جمہوریہ پاکستان کا رہنماء اصول تو ایک ہی ہے کہ
گر تُو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جزبہ قُرآن زیستن
اگر قُرآن ہی ہماری زندگی کی راہیں متعین کرتا ہے تو پھر ججوں اور جرنیلوں
کا احتساب کیوں نہیں؟۔ سنا تو یہی تھاکہ نیا نظامِ احتساب سب کے لیے ہوگا
لیکن پھر پتہ نہیں کس خوف کے پیشِ نظر ججز اور جرنیل اِس سے مبّرا قرار دے
دیئے گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ اِن کا اپنا اندرونی نظامِ احتساب ہے ۔ انصاف تو
وہ جو ہوتا ہوا نظر آئے لیکن اِن کا اندرونی نظامِ احتساب سات پردوں میں
چھپا ہوا، اوپن ٹرائل کی سرے سے گنجائش ہی نہیں۔
جن منصفوں نے عوام الناس کو انصاف مہیا کرنا ہے ،خود اُن کی تاریخِ انصاف
نہ تو قابلِ تقلید اور نہ ہی قابلِ ستائش۔ 11 نومبر 1954ء کو مولوی
تمیزالدین کیس دائر ہوا ،جس کا 10 مئی 1955ء کو جسٹس منیر نے فیصلہ دیا کہ
’’جو عام حالات میں غیرقانونی ہوتا ہے ،اُسے ضرورت کے تحت قانونی قرار دیا
جا سکتا ہے‘‘۔ اِس قسم کے شرمناک فیصلے کی نظیر اقوامِ عالم کی تاریخِ عدل
میں کہیں نہیں ملتی۔ یہی وہ نظریہ ٔ ضرورت ہے جو ہماری تاریخِ عدل کا جزوِ
لاینفک بن چکا ہے ۔ اسی نظریۂ ضرورت کے تحت ملک پر لگ بھگ چھتیس سالوں تک
آمریت کے سائے مسلط رہے۔یہی وہ نظریٔہ ضرورت تھا جس کے تحت 1999ء کو ظفر
علی شاہ کیس میں آمر پرویز مشرف کو تین سال کے لیے حقِ حکمرانی بخشا گیااور
آئینی حکمران کو سات سالوں کے لیے جَلاوطن ہونا پڑا۔ البتہ جب اپنے پاؤں
جلنے لگے تو پھر وہی آمر پرویز مشرف قابلِ گردن زَنی ٹھہرا۔ وجہ صرف یہ کہ
1999ء میں جمہوریت بمقابلہ آمریت تھی جبکہ 2007ء میں آمریت بمقابلہ عدلیہ۔
تب بھی قوم نے عدلیہ کا ساتھ دیا ،آمریت کا نہیں۔ اگر قوم سڑکوں پر نہ
نکلتی تو عدلیہ بحالی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا۔ عدلیہ بحالی کے بعد 31
جولائی 2009ء کو سپریم کورٹ نے کہا’’نظریۂ ضرورت ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا‘‘۔
یہ اُس چیف جسٹس نے فیصلہ دیا جو خود د2 مرتبہ عبوری آئینی حکم (نظریٔہ
ضرورت) کے تحت 2 مرتبہ حلف اُٹھا چکے تھے۔ آج بھی یہ نظریۂ ضرورت دفن نہیں
ہوا بلکہ بھیس بدل کر ’’اقامے‘‘ کی صورت میں زندہ ہے۔ ہمیں میاں نوازشریف
اور اُن کے خاندان کے احتساب پر قطعاََ کوئی اعتراض نہیں۔ اگر وہ لوگ مجرم
ثابت ہوتے ہیں تو اُنہیں نشانِ عبرت بنا دینا چاہیے ۔ ہمارا اعتراض تو یہ
ہے کہ دینِ مبیں کے عین مطابق ججز کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیوں نہیں
کیا جاتا؟۔ اُن کے لیے احتساب کا نظام الگ کیوں؟۔ وہ تو ’’خود ہی تماشا اور
خود ہی تماشائی‘‘ کے مصداق اپنا احتساب خود ہی کرتے ہیں اور وہ بھی سات
پردوں میں چھپ کر ۔
ایوبی دَور میں وطنِ عزیز پر آمریت کے سائے مسلط ہوئے اور پھر آمروں کا جب
جی چاہا ،جمہوریت کو کان سے پکڑ کر گھر بھیجتے رہے۔ اِن 70 سالوں میں قوم
نے آدھا وقت آمریتوں کی چھتر چھاؤں میں گزارا اور باقی ماندہ آدھے وقت میں
ٹوٹی پھوٹی جمہوریت۔ دنیا کی تاریخ میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کے 18
میں سے کسی ایک وزیرِاعظم کو بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی
۔اِس کے ذمہ دار یا تو آمر تھے یا پھر عدلیہ، جو اِن آمروں کو حقِ حکمرانی
بخشتی اور خالصتاََ غیرآئینی اقدام کو آئینی قرار دیتی رہی۔ آئین سے
وفاداری کا حلف تو سبھی اُٹھاتے ہیں لیکن زورآور جب جی چاہے اُس آئین کو
100 صفحے کی فضول سی کتاب قرار دے کر رَدی کی ٹوکری میں پھینک دیتے
ہیں۔حیرت ہے کہ ایوب خاں سے پرویز مشرف تک کسی بھی آمر کا کوئی کچھ نہیں
بگاڑ سکا۔ آئین میں آرٹیکل 6 تو درج ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی
اُس آرٹیکل پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ ایوب اور یحیٰی تو طبعی موت مرے ،ضیاء
الحق کو فضاؤں نے نِگل لیا لیکن پرویز مشرف تو زندہ سلامت دندناتا پھرتا
ہے۔ اُس کا آئینی حکومت کچھ بگاڑ سکی نہ عدلیہ۔ کیا اِسی کو انصاف کہتے
ہیں؟۔
چلیں تسلیم کر لیاکہ ججوں اور جرنیلوں کا اندرونی نظامِ احتساب ہے ۔ یہ بھی
مان لیا کہ یہ نظامِ احتساب کڑا ،شفاف اور غلطیوں سے پاک ہے۔ اگر ایسا ہی
ہے تو پھر اِس سے بھی کہیں کڑا اندرونی نظامِ احتساب سیاستدانوں کا بھی ہے۔
اُنہیں بھی ہر پانچ سال بعد الیکشن کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ بانیٔ
پاکستان قائدِاعظمؒ نے 21 مئی 1947ء کو رائٹر کے نامہ نگار ڈون کیمپ بل کو
انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ’’پاکستان کی حکومت مقبول، نمائندہ اور جمہوری ہی
ہو سکتی ہے۔ اِس کی کابینہ اور پارلیمنٹ حتمی طور پر رائے دہندگان اور عوام
کے سامنے جوابدہ ہوں گی۔ عوام قطعی اور حتمی حاکم ہوں گے‘‘۔ قائدِاعظمؒ کے
اِس فرمان کو مدِنظر رکھتے ہوئے تو سیاستدانوں کا یہ ایسا کڑا نظامِ احتساب
ہے جس سے بچ کر کوئی بھی نہیں جا سکتا۔ اِس لحاظ سے سیاستدانوں کو بھی کھلی
چھٹی دے دینی چاہیے کیونکہ اُن کا بھی اپنا اندرونی نظامِ احتساب ہے لیکن
زمینی حقائق کے مطابق ایک ایسا نظامِ احتساب بھی ضروری ہے جس سے سیاستدانوں
،ججوں اورجرنیلوں سمیت کوئی بھی مبرا نہ ہو مگر ہم نے تو انصاف کو بھی
ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے، زور آوروں کے لیے اور ،مجبوروں مقہوروں کے لیے
کوئی اور نظامِ انصاف۔ |