پا کستان تحریک انصاف کی صوبائی حکو مت او لین روز
سے تعلیم و صحت با رے میں ایمر جنسی کی با تیں کر رہی ہے۔اس سلسلے میں
متعدد بل صو با ئی اسمبلی سے منظو ر ہو چکے ہیں ۔ جن میں ایک نجی تعلیمی
اداروں کو لگام دینے کے لئے ریگولیٹری بل 2017 ء ہے۔جس کی اصلیت کا اندازہ
گزشتہ روزنجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافہ کے خلاف پشاور ہائی کورٹ
میں دائر رٹ پیٹشن پر ہونے والی کاروائی سے لگایا جاسکتا ہے جس میں فاضل
عدالت نے چیئرمین پشاور بورڈ سے نجی تعلیمی اداروں کے خلاف کاروائی کا
ریکارڈ مانگ لیا ہے۔اس کے علاوہ خیبر پختون خوا حکومت ہر فو رم پر تعلیم و
صحت میں اصلا حا ت کے بلندوبا نگ دعوے بھی کر تی آرہی ہے لیکن حقیقت اس کے
بر عکس ہے۔ راقم الحروف کا تعلق اگر چہ شعبہ صحت سے نہیں ہے لیکن اس کا
واسطہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے پڑتا رہتا ہے۔جہا ں تبدیلی نام کی کو ئی شے
اپنا وجود نہیں رکھتی ہے۔یعنی جن تکالیف سے مریض پہلے گزرتے تھے،آج بھی وہی
سرکاری ہسپتالوں میں ہیں۔ البتہ با قی محکموں یا اداروں کی طر ح ایک حا ضر
ی لگا نے کے لئے مشین ضرورنظر آتی ہے ۔یعنی اَب حاضری اگر چہ اس بائیو
میٹرک مشین کی وجہ سے قدرے بہتر ہو ئی ہے لیکن اداروں کی کارکردگی میں
بہتری آنکھوں سے اوجھل ہے۔جن کی کئی ایک وجوہا ت ہو سکتی ہیں۔راقم الحروف
کی نظر میں اَب ملازمین کا مقصد صرف’’ حاضری لگاؤ‘‘ بن چکا ہے۔جہا ں تک
تعلیم کی بات ہے۔بیانات کی حد تک ہم سب اس کے معترف ہیں کہ قوموں کی ترقی
کا راز تعلیم میں پنہاں ہے۔ جب بھی کسی وزیر یا مشیر یا منتحب عوامی
نمائندے کے بیانات اور تقریریں سنیں تو وہ تعلیم کی اہمیت کا راگ ہی الاپتے
نظرآتے رہتے ہیں اور مغرب کی ترقی کا راز بھی تعلیم بتاتے ہیں۔بد قسمتی سے
یہا ں الٹی گنگا بہتی ہے۔تعلیم کے حوالے سے ہمارے قول و فعل میں تضادات
موجود ہیں۔ہما رے نظام تعلیم میں خرابیوں نے اپنی جڑیں مضبوطی سے گاڑھ لی
ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں دیگر اقوام سے پیچھے نظر آتے ہیں۔
ان خرابیوں میں ایک وجہ شفاف بھرتیوں کا فقدان ہے اور اس کے ساتھ بھرتیوں
میں سستی کا نظام بھی پایاجاتا ہے اور کسی بھی حکومت کے پاس بھرتیوں کا
کوئی یکساں نظام بھی اپنا وجود نہیں رکھتا۔یاد رہے کہ کالج اساتذہ کی
بھرتیاں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتی ہیں لیکن سست روی کا یہ عالم ہے کہ
ایک لیکچرر کی بھرتی میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ یہ وہ دورانیہ ہوتا ہے جس
میں برسرِاقتدار جماعت وقتی ازالے کے نام پر مختلف طریقوں سے کالج اساتذہ
کی کنٹریکٹ ، ایڈہاک اور عارضی بنیادوں پر بھرتیاں کرواتی ہیں۔ اور یہیں سے
تعلیمی زوال کی ابتدا ء شروع ہوجاتی ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ اساتذہ کی اس
خانہ پرُی سے بچوں کاتعلیمی سال ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ لیکن جاب سیفٹی
نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ سے صد فیصد کارکردگی کی اُمید رکھنا محال ہے کیوں
کہ اُن کے سروں پر ہر وقت ملازمت سے نکلوائے جانے کا ڈر سوار رہتا ہے۔اس
طرح بھرتیوں کی مثالیں اسّی کی دہائی سے ملتی ہیں۔ لیکن گزشتہ پندرہ برس
میں ان میں بے تہاشہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں کالج
اساتذہ کو کنٹریکٹ یا ایڈہاک بنیادوں پر بھرتی کیا گیا اور پھر اُن کی
مستقلی عمل میں لائی گئی۔ ایم ایم اے کی حکومت نے 2005 ء میں ایڈہاک کی
بنیاد پر ساڑھے تین سو سے زائد لیکچرر ز کی تعیناتی کی ، جن کو بعد میں آنے
والی اے این پی حکومت نے صوبائی اسمبلی ایکٹ کے ذریعے مستقل کیا۔ اے این پی
حکومت نے مزید لیکچررز کو ایڈہاک پر بھرتی کیا جن کو موجودہ حکومت نے 2014
ء میں مستقل کیا۔ تبدیلی کے نام پر ووٹ لینے والی جماعت نے ایڈہاک کا نام
’’تبدیل‘‘ کرکے ٹیچنگ اسسٹنس کے نام سے آٹھ سو سے زائد افراد کو ایٹا کے
ذریعے سلیکشن کروا کے صوبہ بھر کے کالجوں میں تعینات کیا۔گزشتہ دنوں صوبائی
اسمبلی ایکٹ سے ان ٹیچنگ اسسٹنس کو بحیثیت لیکچرر مستقلی کا بل پاس کروالیا
ہے۔ ان تمام حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں نظام تعلیم میں بھرتیوں کا
کوئی یکساں نظام موجود نہیں ہے۔ اگر ہے تو وہ سست روی کا شکار ہے۔اگر حکومت
تعلیم کے شعبہ میں بہتری کے لئے واقعی سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے بھرتیوں کے
نظام میں تیزی کے ساتھ یکسانیت بھی لانی پرے گی جس سے شفافیت میں اضافہ اور
میرٹ کی بالادستی قائم ہوگی اور یوں معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
|