پھر میں نے پڑھائی چھوڑ کر بابا کا ساتھ دینے کا سوچا۔ ان
دنوں ایک ٹھیکدار نے میرے بابا کو ڈیڑھ روپیہ دن کی مزدوری پر رکھ لیا۔ مگر
کام بہت دور تھا۔ میں بہت چھوٹا تھا ان دنوں میں تقریبا پندرہ کلو میٹر
پیدل چل کر اپنے بابا کو روٹی دینے جایا کرتا تھا۔ یہ کافی مشکل کام تھا پر
میں ہمت نہیں ہارتا تھا۔
ہم چھ بہنیں اور تین بھائی تھے۔ایک بہں اور بھائی جڑواں تھے۔ میرا ایک
بھائی اور بہن چھ یا ساتھ سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔
ایک دن میں بابا کو کھانا دینے گیا تو مجھے ٹھیکیدار نے پوچھا،،،،،
“ کس کے ساتھ لایا ہے روٹی ؟ “ اسنے پوچھا۔
“ ساگ ساتھ ۔ “ مٰیں نے معصومیت سے جواب دیا۔
“ ہممم ساگ میں بھی کھاؤ گا۔ “ ٹھیکیدار نے کہا میرے بابا اور وہ دونوں
کھانے لگے،،اسنے ایک ہی نوالہ لے کر کھانا چھوڑ دیا۔ میں چھوٹا ضرور تھا
مگر بہت غور و فکر کرنے والوں میں سے تھا۔ بابا نے بھی اسے دوبارہ کھانے کے
لئے نہیں کہا میں چپ چاپ گھر آگیا۔
“ اماں ساگ کو تڑکا نہیں لگایا تھا ؟“ میں نے گھر آتے ہی اپنی اماں سے سوال
کیا۔
“ لگایا تھا۔ پر سرسوں کے تیل کا کیوں ؟ “ اماں نے الٹا سوال پوچھا۔
“ اسی لئے ٹھیکیدار نے بس ایک نوالہ لیا۔ “ میں منہ میں بربرایا۔
“ کیا کہا،،،، “ اماں نے پوچھا
“ کچھ نہیں اماں گھی کا کیوں نہیں لگایا ؟ “ میں نے پھر سوال کیا،
“ بیٹا غریب کے گھروں میں گھی کے تڑکے نہیں لگتے سرسوں کے تیل کے لگتے ہیں
یہ گھی وغیرہ سب امیروں کے چونچلے ہیں غریبوں کے نہیں۔ “ اماں نے روٹی
پکاتے ہوئے جواب دیا۔
میں بہٹ پریشان ہوا سوچا پڑھائی چھوڑ دو اور کام کر کے بابا کا ساتھ دوں۔
میں نے پڑھائی کو خیر باد کہا اور کام پر لگ گیا۔ انہی دنوں میرے بھائی
لیاقت کی اچانک موت ہو گئی جو جڑواں میں سے تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ
بھائی کو کیا ہوا تھا بس ایک دن گھر آیا تو گھر میں بہت سارے لوگ تھے جو رو
رہے تھے۔ میں آگے بڑھا اور جس منظر پر میری نظر پڑی وہ آج تک نہیں بھولا
میرا بھائی لیاقت چارپائی پر مردہ حالت میں پڑا تھا سب رو رہے تھے، میں بھی
بہٹ رویا،،،،، کام پر بھی روتا رہتا تھا اور سوچا کرتا تھا پتہ نہیں بھائی
نے کچھ کھایا کہ نہیں ،،،، اسکے پاس پیسے بھی ہے کہ نہیں ؟،،،،،اسے بھوک
لگی ہوگی،،،ان دنوں میری عجیب ہی حالت ہوئی تھی۔ (جاری ہے ) |