صوبہ پنجاب کے بیشتر علاقے ان دنوں سموگ کا شکار ہیں، جو
انگریزی کے دو الفاظ سموک (دھواں) اور فاگ (دھند) سے مل کر بنا ہے۔ سموگ سے
صرف لاہور، پشاور اور پاکستان کے شہر ہی نہیں، بلکہ ہمسایہ ممالک کے شہر
بیجنگ، کابل، تہران اور دلی سمیت دیگر شہر بھی دوچار ہیں۔ ماہرین کے مطابق
اِس موسم کے دوران جب دھند بنتی ہے تو یہ فضا میں پہلے سے موجود آلودگی کے
ساتھ مِل کر ایک سموگ بنا دیتی ہے۔ اِس دھویں میں کاربن مونو آکسائیڈ،
نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے زہریلے مواد شامل
ہوتے ہیں۔ اگر بارش نہ ہو تو فضا میں سموگ بڑھ جاتی اوراسموگ کی وجہ سے
اوزون کی تہہ میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوجاتا ہے، جو انسانی صحت کے لیے
نقصان دہ ہے۔ سموگ کی وجہ سے شہری مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، جن
میں سانس لینے میں دشواری، گلے میں تکلیف اورآنکھوں کے امراض جیسے آنکھوں
کا سوجنا، جلنا اورآنکھوں سے پانی نکلنا وغیرہ شامل ہیں۔فضا میں چھائی سموگ
نے اپنے اثرات کھل کر دکھانے شروع کر دیے ہیں۔ شہری سانس، گلے کی تکلیف،
نمونیا اور دمے میں مبتلا ہو کر ہسپتالوں میں پہنچنے لگے ہیں، تاہم
ہسپتالوں میں مریضوں کی بڑی تعداد سے اس کے اثرات کا اندازہ لگانا مشکل
نہیں۔ سانس لینے میں دشواری، کھانسی، گلے اور سینے میں جلن ہو تی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سموگ سے بچنے کے لیے جہاں حکومت کو آلودگی کے خاتمہ
میں سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، وہاں ماحول دوست ایندھن کا استعمال
نہایت ضروری ہوچکا ہے۔سموگ نہ صرف انسانوں، بلکہ جانوروں، پودوں اور فطرت
کی ہر چیز کو نقصان پہنچاتی ہے۔ سموگ سے زیادہ منفی اثرات بچوں اور جوانوں
پر پڑتے ہیں تاہم یہ کسی نہ کسی درجے میں تمام عمر کے افراد کو متاثر کرتی
ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ چھوٹے بچے ، کھلے مقامات پر کام کرنے والے
لوگ، حاملہ خواتین اور سانس کی بیماری میں مبتلا مریض متاثر ہوتے ہیں۔
ماہرین نے عوام کو اس تمام صورتحال میں خبردار کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر
اختیار کرنے کی تلقین کی ہے کہ اپنے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں کے شیشے بند
رکھیں۔ جب تک آلودہ دھوئیں والا موسم ختم نہیں ہو جاتا تب تک کھلی فضا میں
جانے سے گریز کیا جائے۔ خاص کر سانس کی تکلیف میں مبتلا افراد ایسے موسم
میں ہرگز باہر نہ نکلیں۔ ایسے موسم میں جسمانی ورزش کرنے سے بھی دریغ کیا
جائے اور اپنی گاڑیوں کو کھڑے رکھنے کی پوزیشن کے دوران انجن کو چلتا مت
چھوڑیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کے مریض گھر وں میں رہ کر اسٹیم لیں،
ٹھنڈے مشروبات اور کھانے پینے کی کھٹی ترش اشیاء سے پرہیز کیا جائے۔ ماسک
پہن کر گھروں سے نکلیں،پنکھے نہ چلائیں۔ سیکرٹری صحت ڈاکٹر مسعود کا کہنا
ہے کہ سموگ سے بچنے کے لیے آنکھوں میں پانی کے چھینٹے ماریں، اسموگ کے باعث
الرجی اور آنکھ، ناک سے پانی جاری ہوسکتا ہے، آنکھوں کو صاف کرنے کے لیے
ڈراپس بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ سرجیکل یا دیگر اقسام کے فیس ماسک
استعمال کریں۔ کانٹیکٹ لینسز نکال دیں اور عینک استعمال کریں۔ سگریٹ نوشی
نہ کریں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم کر دیں۔ پانی اور گرم چائے کا زیادہ
استعمال کریں۔ باقاعدگی کے ساتھ ناک صاف کریں۔ باہر سے گھر لوٹنے پر ہر بار
اپنے ہاتھ، چہرہ اور جسم کے دیگر کھلے حصوں کو دھو لیں۔ بلا ضرورت باہر
جانے سے گریز کریں۔ گھر میں موجود ہوا دانوں، کھڑکیوں اور دیگر کھلے حصوں
کو ماسکنگ ٹیپ کے ساتھ بند کردیں یا پھر انہیں گیلے تولیے یا کسی کپڑے کے
ساتھ ڈھانپ دیں۔ ہوا صاف کرنے والے ایئر پیوریفائرز کا استعمال کریں۔ گھر
سے باہر ہیں تو اگر دھند کے باعث آپ کوکچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہو تو سڑک پر
قطعی طور پر کھڑے نہ ہوں، بلکہ ٹریفک سے فاصلے پر ایک سائیڈ پر گاڑی کو
کھڑا کر دیں۔ آہستہ ڈرائیونگ کریں۔ فوگ لائٹ کا استعمال کریں۔ گاڑی چلاتے
وقت ہائی بیم لائٹس (تیز چمک والی روشنی) استعمال نہ کریں۔ رش والے علاقوں،
خاص طور پر جہاں زیادہ تر ٹریفک جام رہتا ہے، میں جانے سے گریز کریں۔
سموگ کے باعث موٹروے اور نیشنل ہائی وے پر ٹریفک کی آمدورفت متاثر رہی۔
دھند اور سموگ سے ائرپورٹس پر مسائل ہی مسائل نظر آئے، لاہور، فیصل آباد
اور ملتان میں کئی پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔ صوبے بھر کی فضا میں گزشتہ
دنوں سے پھیلی سموگ جانے کا نام ہی نہیں لے رہی، جس سے ذرائع آمدو رفت بھی
متاثر ہونے لگے ہیں۔ موٹروے پولیس کے مطابق قومی شاہراہوں پر دھند کی وجہ
سے حد نگاہ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ موٹروے پر بھی سموگ کی وجہ سے حد نگاہ کم
ہوگئی۔ صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت پنجاب کے بیشتر شہروں میں اتوار کو
بھی دھند اور سموگ کی وجہ سے حد نگاہ کم ہونے سے شہریوں کو سفری مشکلات کا
سامنا کرنا پڑا۔ اتوار کے روز ٹریفک حادثات میں خاتون سمیت 27 افراد جاں
بحق اور 133 زخمی ہو گئے، جبکہ پیر کے روز مزید 6افراد جاں بحق اور طالبات
سمیت 46سے زاید افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ سموگ کی وجہ سے 17 پاور اسٹیشن خراب
ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے اس وقت بیشتر علاقوں میں 12 گھنٹے سے زاید لوڈ
شیڈنگ ہو رہی ہے۔گڈو تھرمل پاور سٹیشن کی تمام ٹرانسمیشن لائنیں ٹرپ ہونے
سے لاڑکانہ، حیدرآباد، سکھر، رحیم یارخان اور جعفرآباد سمیت سندھ، پنجاب
اور بلوچستان کے مختلف شہروں میں 12 گھنٹے بجلی کی فراہمی معطل رہی۔ تیل سے
چلنے والے 13 پاور اسٹیشنوں کی بندش سے5500 میگاواٹ اور گیس کی بندش سے
1205 میگاواٹ بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی۔ این ٹی ڈی سی کا سسٹم بار بار
ٹرپ ہونے کے باعث چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کے چاروں یونٹ بند کردیے گئے
تھے۔ پاور پلانٹس بند ہوتے ہی لاہور، فیصل آباد اورملتان ریجن میں بدترین
لوڈشیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ پنجاب میں ہر ایک گھنٹے بعد ایک گھنٹے کی
لوڈشیڈنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ وزارت پانی و بجلی نے مظفر گڑھ جام شورو
میں چاروں تھرمل پاورپلانٹس سمیت کئی دوسرے پاورپلانٹس بھی بند کر دیے۔
فرنس آئل اور ڈیزل پرچلنے والے پاور پلانٹس بند ہونے سے 4 ہزار250 میگاواٹ
بجلی سسٹم میں کم ہوگئی اور پانی کے کم اخراج سے بھی بجلی کی پیداوار7 ہزار
کی بجائے صرف 2700 میگاواٹ رہ گئی۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے سموگ کی روک تھام کے لیے
موثر اقدامات نہ کرنے پر برہمی اظہار کیا۔ سیکرٹری ماحولیات نے عدالت کو
بتایا کہ انڈیا کی ریاست ہریانہ میں چاول کی فصل کے فضلے کو آگ لگائی گئی
جس کا دھواں پاکستانی پنجاب میں دھند میں شامل ہوکر سموگ کی شکل اختیار کر
گیا ہے۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے سیکرٹری ماحولیات کے بیان پر حیرت ظاہر کی
اور کہا کہ انڈیا کی بات چھوڑیں، یہ بتائیں اس کے تدارک کے لیے کیا اقدامات
کیے ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے سموگ کی روک تھام
کے لیے موثر اقدامات نہ کرنے پر برہمی اظہار کیا اور کہا کہ عملی اقدامات
کے بارے میں بتائیں کیونکہ ہوا میں باتیں کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ دوسری
جانب وزیراعلیٰ شہبازشریف نے بھی سموگ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بروقت
احتیاطی و حفاظتی اقدامات نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور اس ضمن
میں تاخیر پر متعلقہ حکام کی سخت سرزنش کی۔ وزیراعلی نے متعلقہ حکام سے
استفسار کیا کہ ایک بر س گزرگیا، محکمہ ماحولیات سمیت دیگرمتعلقہ محکموں نے
سموگ کے مسئلے کے حوالے سے کیا اقدامات کیے؟ اب سر پر پڑی ہے تو جاگ اٹھے
ہیں۔کیا سرکاری فرائض کی انجام دہی کا یہ طریقہ ہے؟ متعلقہ محکموں اور
اداروں کو پیشگی اقدامات کرنا چاہیے۔ سموگ کے آنے سے قبل احتیاطی تدابیر کے
بارے عوام کی آگاہی کے لیے بھرپور مہم چلائی جاتی۔ افسوس کا مقام ہے کہ
متعلقہ حکام اس ضمن میں ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکے۔ صنعتوں میں قوانین کے
اطلاق کے حوالے سے متعلقہ چیمبر آف کامرس کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے
تھا۔ مصیبت گلے پڑی ہے تو سال ضایع کر کے اب کارکردگی دکھائی جا رہی ہے،
لیکن کام اس طرح نہیں چلے گا۔
سموگ کی موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے بہتر منصوبہ بندی کے تحت تمام
متعلقہ اداروں کی مربوط منظم جدوجہد جاری ہے اور محکمہ تحفظ ماحول پنجاب کی
جانب سے آلودگی کے باعث بننے والے 236 صنعتی یونٹس سیل کیے جاچکے ہیں۔
پنجاب بھرمیں سموگ کے باعث بڑھتے ہوئے حادثات کی روک تھام کے لیے دھواں
چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کاحکم دے دیاگیا ہے۔ دوسری جانب
صوبے بھر میں جاری سموگ کی شدت اور سموگ سے پھیلنے والی بیماریوں کے تدارک
اور مختلف ٹریفک حادثات میں انسانی جانوں کے ضیاع پر مختلف علما کرام نے
سموگ کو آسمانی آفت قرار دے دیا ہے اور عوام کو فوری طور پر توبہ استغفار
اور نماز استسقا ادا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ علما کرام کے مطابق سموگ سے
بچنے کا واحد حل اپنے رب کے حضور توبہ و استغفار ہے۔ علما کرام کا کہنا ہے
کہ جس ملک میں اسلامی نظام کا مذاق اڑایا جائے وہاں اس طرح کی آفات کا وارد
ہونا کوئی بڑی بات نہیں، قوم کواپنے اعمال درست کر کے سچی توبہ کرنی چاہیے،
علما کرام کے مطابق اگرچہ آئندہ کئی روز تک بارش کا کوئی امکان نہیں، لیکن
نماز استسقا اور توبہ سے بڑی بڑی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں اور اس عمل کی بدولت
اﷲ کی رحمت سے بارش بھی ہو سکتی ہے اور قوم کو درپیش مسائل سے بھی چھٹکارا
مل سکتا ہے۔
پاکستان میں سموگ کی وجہ بننے والی ماحولیاتی آلودگی آج جس سطح پر نظر آ
رہی ہے، ماضی میں ایسی صورتحال نہیں تھی۔ زیرزمین پانی بھی وافر تھا،
جنگلات اور جنگلی حیات کی رنگا رنگی بھی موجود تھی۔ پھر اس ملک کے جو وارث
بنے، ان کی کارکردگی اور ذہانت کا اندازہ ملک کی حالت دیکھ کر لگایا جاسکتا
ہے۔ پنجاب سموگ کی لپیٹ میں ہے۔ یہ ماحولیاتی آلودگی کی ایک بھیانک اور
خطرناک شکل ہے۔ اس حوالے سے حکومت کا اپنا ایک زاویہ نگاہ ہے اور سائنسی
ماہرین کی اپنی رائے ہے، لیکن اگر ماحولیاتی مسائل کو وسیع تناظر میں دیکھا
جائے تو اس میں پاکستان کے اقتدار پر فائز ہونے والی مختلف حکومتوں اور اس
کے کارپردازوں کی ملک دشمن پالیسیوں، انتظامی نااہلی، غفلت، لاپروائی، ذہنی
اور علمی کمی کا زیادہ حصہ نظر آئے گا۔ جن حکمرانوں اور سرکاری اداروں کے
افسروں نے اس ملک کے لیے پالیسیاں تشکیل دیں، ان کے کارناموں کی زہریلی فصل
آج پورا ملک کاٹ رہا ہے۔ سیاستدانوں کو تو پتہ ہی نہیں ہے کہ ماحولیات بھی
کوئی اہم ایشو ہے۔ ٹمبر مافیا نے جنگلات کاٹ ڈالے، شہروں میں جدید حکمرانوں
نے درختوں کا صفایا کرا دیا۔ یہاں تک کہ گندے نالوں اور برساتی نالوں کے
اردگرد درخت بھی کاٹ کر وہاں آبادیاں بنا دی گئی ہیں۔ رہی سہی کسر ہاؤسنگ
سوسائٹیوں نے پوری کر دی ہے۔ زراعت کے لیے زرخیز زمین ویران کر دی گئی ہے۔
اس وقت پنجاب کے بیشتر علاقوں میں سموگ کی صورت میں جو زہر انسانی زندگیوں
کو تلخ اور مشکل بنا رہا ہے، اس کے لیے مقامی اسباب پر غور کرنے اور بہتری
کے لیے خود کردار ادا کرنے کی بجائے صنعتی ملکوں کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے
عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں اور ہمسایہ ملک بھارت میں فصلوں کی باقیات کو
جلانے کو عذر بنا کر کندھے اچکانے اور خود کچھ نہ کرنے کا ناقابل فہم رویہ
اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس طرز عمل کا نقصان صرف پاکستان کے لوگوں، ان کی
صحت اور قوت پیداوار کو پہنچے گا۔ پاکستانی سیاستدانوں اور ماہرین کا یہ
رویہ افسوسناک حد تک قابل مذمت ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ مشرقی
اور مغربی پنجاب کے کاشتکار روایتی طور پر نئی فصل کاشت کرنے سے پہلے پرانی
فصلوں کے باقیات کو آگ لگا دیتے ہیں، جس سے دھواں پیدا ہوتا ہے، جس کے کچھ
اثرات پاکستان پر بھی پڑے ہوں گے، لیکن پاکستانی حکومت نے اس سے بچاؤ کے
لیے فی الوقت کوئی اقدام نہیں کیے۔ کیا یہ دھند، کہر یا اسموگ زلزلے یا
آندھی طوفان جیسی کوئی ایسی آسمانی آفت ہے جو اچانک ٹوٹ پڑتی ہو، جس کے
باعث اس کی آمد سے پہلے کوئی حفاظتی بندوبست ممکن نہ ہو۔ نومبر دسمبر کے
مہینے ہر سال دھند، کہر یا اسموگ کو اپنے جلو میں لے کر آتے ہیں۔ محکمہ
موسمیات کے اعلانات سے پتہ چلتا ہے کہ ان مہینوں میں بارش اور تیزہواؤں کی
عدم موجودگی کی وجہ سے گہری دھند چھائے رہنے کے امکانات ہرسال ہوتے ہیں۔
بلاشبہ اب وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی اسموگ پر قابوپانے کے لیے ایکشن پلان پر
عمل درآمد کا حکم دیا ہے، لیکن یہ اقدامات اسی قبیل کے ہیں جن کا مشاہدہ
پاکستان کے شہری بالعموم سیلابوں کی آمد کے بعد بند اور پشتے مضبوط کرنے کی
ہدایات کے اجراء کی شکل میں عشرو ں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔
ملک میں بڑے تعمیراتی و مواصلاتی منصوبوں کے لیے کثیر تعداد میں درختوں کو
کاٹنا اور شجر کاری کی کسی باقاعدہ مہم کی غیر موجودگی بھی فضائی آلودگی
میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ ملک کی صنعتیں مسلسل ماحولیاتی کثافت میں اضافہ
کرتی ہیں اور زہریلا مواد نہروں اور نالوں کے ذریعے عام شہریوں تک پہنچنے
والے پانی میں ملاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کاروں، رکشہ، موٹر سائیکل وغیرہ کی
تعداد میں اضافہ سے بھی فضائی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑھتی
ہوئی آبادی کے ساتھ کثافت پیدا کرنے والے لوگوں کی تعداد بھی بڑھتی ہے۔
پاکستان میں سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے عوامی اور
سرکاری سطح پر فوری اور موثر تحریک کی ضرورت ہے۔ میڈیا اور رائے عامہ بنانے
والے دیگر اداروں کو شہریوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے اور
حکومت کو ماحولیات دشمن منصوبوں کا حصہ بننے کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی
کرنی چاہیے۔ |