ٹرمپ کو صدارتی الیکشن جتوانے کیلئے مبینہ روسی مداخلت کی تحقیقات کا انجام کیا ہو گا؟

9نومبر2016 کا سورج حیران کن نتائج لئے طلوع ہوا ،سب حیران رہ گئے اورڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 45ویں صدر منتخب ہو گئے ۔جی ہاں یہ وہی ٹرمپ تھے،جن کے بد تہذیب اور انتشار پسند انہ رویے کا اعتراف دوران الیکشن مہم امریکی میڈیا بھی کرتا رہا اور ہیلری کی کامیابی کا یقین دلاتا رہا ۔یہی وجہ تھی کہ نتائج سے قبل ہر طرف ہیلری کی فتح اور ٹرمپ کی ناکامی کے چرچے تھے اور تمام تجزیئے اور خبریں اسی کے گرد گھوم رہی تھیں مگر حیران کن نتائج اور سیاسی اپ سیٹ نے ساری صورتحال کو پل بھر میں بدل کے رکھ دیا اور ہر طرف ایک ہی حیران کن سوال گردش کر نے لگاکہ آخر ٹرمپ کیسے ہیلری کی شکست کا باعث بنے؟امریکہ کی تاریخ میں ایسا پہلی بار دیکھنے کو ملا تھا کہ ایک صدر کے منتخب ہونے کے بعد امریکی عوام سڑکوں پرنکل آئے ہوں بلکہ مشتعل افراد نے امریکی پرچم بھی نذر آتش کئے ۔ مظاہرین نے’ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے صدر نہیں‘ کا نعرہ بھی لگا یا تھاجو ایک طرح سے سول نافرمانی ہی تھی ۔ اب ایک سال گزرنے کے باوجود ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں موجودگی کو قبول نہیں کیا جا رہا اور آج بھی ان کے صدر بننے اور ہیلری کی شکست کے معاملے کو زیر بحث لایا جا رہا ہے۔سی آئی اے سمیت بعض امریکی خفیہ ایجنسیوں نے نتائج کے فوراً بعد روسی انٹیلی جنس کی مبینہ مداخلت اور نتائج تبدیل کرنے جیسے الزامات لگائے جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹر پر اپنی ہی خفیہ ایجنسیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔

حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکشن جتوانے کیلئے روسی مداخلت کی تحقیقات میں تیزی آ گئی۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم کی ٹیم کے تین ارکان پر فردِ جرم عائد کر دی گئی جن میں مہم کے سابق ڈائریکٹر پال مینافورٹ شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ان کو نظر بند کردیا گیا ہے ۔اسی طرح انتخابی مہم کی ٹیم کے سابق رکن جارج بیباڈوبولوس پر بھی فرد جرم عائد کی گئی ہے جو پہلے ہی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے امریکی ایف بی آئی کے تحقیق کاروں سے غلط بیانی کی تھی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری صورتحال شروع کیسے ہوئی اور نوبت یہاں تک کیسے پہنچ گئی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو سوالیہ نشان بنایا گیا ۔اصل میں کچھ عرصہ قبل نیویارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہیلری کلنٹن نے صدارتی انتخابات میں اپنی شکست کا ذمہ دار روس اور ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کو ٹھہرایا تھا ۔انہوں نے انتخابی نتائج پر مبینہ روسی ہیکنگ کو امریکہ پر حملہ قرار دیا تھا۔ہیلری کے امریکی انتخابی عمل پر شک کے گہرے سا ئے کئی سوالات جنم دینے میں کامیاب ہوئے۔ان میں یہ سوال سر فہرست ہے کہ کیا روس نے امریکی انتخابات چرائے یا ڈونلڈ ٹرمپ کے نعروں نے ہی اسے فتح دلادی؟

اس سب کے بعد انتخابات میں روسی ہیکرز کی مداخلت اور نتائج پر اثراندازی کی حقیقت جاننے کیلئے امریکی صدر نے جائزہ رپورٹ بنانے کا حکم دیا۔ایک طرف تو امریکی میڈیا میں اِن سوالات کی بازگشت ہے کہ جائزہ رپورٹ میں روس کی مداخلت ثابت ہونے پر کیا انتخابات کالعدم قرار دئیے جائیں گے؟ اگرٹرمپ نے روسی مداخلت سے ووٹ حاصل کئے تھے تو کیا ٹرمپ کا صدارتی مستقبل خطرے سے دوچار ہوگا؟ الزامات ثابت ہوجانے پر کیا امریکہ روس پر انصاف کی عالمی عدالت میں مقدمہ دائر کرے گا؟کیا امریکہ اور روس میں سفارتی تعلقات منقطع ہوجائیں گے؟۔ دوسری طرف دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ اپنے آپ کو سپر پاور کہنا والا امریکہ اندر سے کتنی بے یقینی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ سابق امریکی صدر بارک اوباما نے بھی صدارتی انتخابات میں مداخلت پر روس کے خلاف کارروائی کرنے کا عندیہ دیا تھا۔اس کے برعکس روس کا کہنا ہے کہ امریکہ روسی ہیکنگ کے ثبوث سامنے لائیں ورنہ خاموش ہو جائیں۔روسی صدر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی انتخابات کے حوالے سے روسی مداخلت کے دعوے انتہائی نازیباہیں۔
واضح رہے کہ ٹرمپ کی مہم کے چیئرمین پال مینا فورٹ اورپال کے بزنس پارٹنر رک گیٹس پر عائد الزامات میں منی لانڈرنگ اوریوکرائن کی سابق روسی حمایت یافتہ حکومت کا ایجنٹ ہونے کے الزامات شامل ہیں تاہم دونوں نے خود پر الزامات سے انکار کیا ہے۔فرد جرم میں ٹرمپ یا ان کی مہم کا کہیں ذکر نہیں ، اسی بات کو بنیاد بناکر ترجمان وائٹ ہاوس نے کہا کہ فرد جرم سے ٹرمپ اور روس کی ملی بھگت کا کوئی ثبوت ظاہر نہیں ہوتا۔امریکی خفیہ اداروں نے الزام عائد کیا تھا کہ روس نے انتخابی مہم کے دوران ہیلری کلنٹن کی ایسی ای میلز ہیک کرکے افشا کیں اور سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کیا جس سے ڈیموکریٹ امیدوار کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ یقینا اس ساری صورتحال نے ایک ڈرامائی موڑ اختیار کر لیا ہے۔

’’پال مینافرٹ‘‘ پچھلے سال جون سے اگست کے دوران صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سربراہ تھے،جولائی کے آخر میں انہیں بتا دیا گیا تھا کہ انہیں مقدمے میں نامزد کیا جا سکتا ہے۔پال مینافرٹ اس وقت مستعفی ہوگئے تھے جب ان کے خلاف یہ خبریں منظر عام پر آئی تھیں کہ ان کے مبینہ طور پر یوکرائن کی روس نواز سیاسی جماعتوں سے قریبی تعلقات ہیں۔رک گیٹس بھی صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں کئی ذمہ داریوں پر فائز رہے تھے لیکن ان دونوں افراد پر پیر کو عائد کی جانے والی فردِ جرم میں شامل الزامات کا بظاہر صدر ٹرمپ کی مہم کے د وران ان کی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں۔

اس مقدمے کی پیروی خصوصی کونسلر رابرٹ ملر کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ ملر نے مئی میں مقدمے کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا تھا جس کے بعد تحقیقات تیزی سے آگے بڑھیں تاہم ملر کو جو ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر بھی ہیں، واشنگٹن کے حلقوں میں ایک غیر سیاسی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ مینافرٹ کے خلاف الزامات عائد کئے گئے ہیں جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی انتخابی مہم کے روس کے ساتھ تعلق کا الزام جھوٹ اور بے بنیاد ہے جسے ڈیموکریٹ اپنے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم اور روسی مداخلت کے ممکنہ تعلق پر ملر کی تحقیقات کے علاوہ کانگریس کی جانب سے بھی الگ سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔صدر ٹرمپ کی قانونی ٹیم کے ایک رکن ٹائی کاب نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے تبصروں کا ملر کی تحقیقات کی پیش رفت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس کے علاوہ ملر اس بارے میں بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا صدر ٹرمپ نے مئی میں اس وقت کے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو برطرف کرتے وقت انصاف کے تقاضے پورے کئے تھے جو ملر کے چارج سنبھالنے سے پہلے روس سے متعلق مقدمے کی تحقیقات کر رہے تھے۔

یہ بھی سننے کو آ رہا ہے کہ انٹیلی جنس کے امریکی حلقے 2017 کے اوائل میں اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے امریکی جمہوریت کی اہمیت کو متاثر کرنے اور ٹرمپ کی جیت میں مدد دینے کیلئے ذاتی طور پر ایک خصوصی مہم کی ہدایت کی تھی جبکہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف کااس حوالے سے کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ماسکو نے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی۔منگل کے روز ایک پریس کانفرنس میں لاؤروف نے کہا کہ ’’ہم پر بنا کسی ثبوت کے انتخابات میں مداخلت کا الزام عائد کیا جا رہا ہے ، نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر ممالک میں بھی۔ موجودہ امریکی انتظامیہ کے بعض تصرفات جن کے بارے میں بعض مرتبہ کوئی قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی انہوں نے ’سنگین اندیشے‘پیدا کر دئیے ہیں‘‘۔وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈرز نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں پاپاڈوپلس کو صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ایک ایسا ’’ادنیٰ رضاکار‘‘ قرار دیا ۔فردِ جرم کی کارروائی سے صدر کا کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی جن الزامات کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی ہے ان کا صدر کی انتخابی مہم یا اس دوران ہونے والی کسی سرگرمی سے کوئی تعلق ہے۔ وائٹ ہاؤس پہلے دن سے کہہ رہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے روس کے ساتھ مبینہ گٹھ جوڑ کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور عائد کی جانے والی فردِ جرم سے بھی یہی موقف درست ثابت ہوا ہے، وائٹ ہاؤس کو یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کے بارے میں رابرٹ ملر کی جاری تحقیقات جلدختم ہونے والی ہیں۔

پال مینافرٹ کے وکیل کیون ڈاؤننگ نے بھی پیر کو عدالتی کارروائی کے بعد جاری کئے جانے والے اپنے ایک بیان میں واضح کیاکہ’’ ان کے موکل کے خلاف پیش کی جانے والی فردِ جرم میں صدر ٹرمپ، روس یا ٹرمپ کی انتخابی مہم کے روس کے ساتھ گٹھ جوڑ سے متعلق کچھ نہیں کہا گیا۔ اب سب پر واضح ہوگیا ہے کہ اس معاملے میں صدر ٹرمپ کا موقف درست تھا کہ پال مینافرٹ یا صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے روسی حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ کا کوئی ثبوت نہیں‘‘۔

اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب دنیا انتخابی مہم سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو روس کے مسئلے سے منسلک کرنے والی ایک باضابطہ قسم کی کارروائی دیکھ رہے ہیں۔اب جبکہ ملر کی تفتیش ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس کو اب ایک بہت بڑے سیاسی مسئلے کا سامنا ہے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور ہم نہیں جانتے کہ یہ حالات کو کس نہج پر لے کر جائے گا۔

Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 70 Articles with 92527 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.