جب سے سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم کو نااہل قرار دیا تب
سے پروٹوکول اور سکیورٹی دونوں میں غیرمعمولی اضافہ نظر آتا ہے۔ اس ملک کا
سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ قانون کی پاسداری نہیں کی جاتی بلکہ اشرافیہ
اور غریب کیلئے الگ الگ قوانین رائج کئے جاتے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ جس
معاشرے میں قوانین کے دوہرے معیارات ہوں وہ معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا
ہے۔ہر طرف سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ نواز شریف کو کس حیثیت سے اتنا بڑا
مقام حاصل ہے۔ اگر یہ پروٹوکول سابق وزیراعظم کی حیثیت سے ہے تو اور جتنے
سابق وزرائے اعظم ہیں کیا انہیں بھی ایسا مقام حاصل ہے۔ احتساب عدالت میں
ریفرنسوں کی سماعت کے بعد شریف فیملی کے فیصلوں میں مسلسل تبدیلی آرہی ہے۔
کبھی نواز شریف کی پیشی کا فیصلہ ہوتا ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ عدالت
جائیں گے۔ اسی طرح ان کے دونوں بیٹے بھی اشتہاری قرار پانے والے ہیں۔ مختلف
خبریں آنے کے بعد نواز شریف ایک بار پھر واپس آگئے ہیں۔نواز شریف 5 اکتوبر
کو لندن روانہ ہوئے تھے جہاں کلثوم نواز، گلے کے کینسر کے علاج کیلئے ایک
ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔تقریباً 3ہفتے تک اپنی اہلیہ کی تیمار داری کیلئے
لندن قیام کرنے والے سابق وزیراعظم نواز شریف وطن واپس لوٹے توان کااستقبال
اور56گاڑیوں کا شاہانہ سکواڈ دیکھ کر حیرانگی ہوئی ۔حیرانگی بے وجہ نہیں
تھی کیونکہ ایک ایسا شخص،جسے پاکستان کی عدالت عظمی نااہل اور مجرم قرار دے
چکی ہو، اسے نہ صرف ائیر پورٹ پر شاہانہ پروٹوکول دیا گیابلکہ احتساب عدالت
میں پیش ہونے سے قبل ان پر اور ان کی بیٹی اور دامادپر گل پاشی کی گئی۔نواز
شریف 2نومبر کو لندن سے قومی ائیر لائن کی پرواز پی کے786کے ذریعے اسلام
آباد پہنچے تو ان کے استقبال کیلئے چیدہ چیدہ مسلم لیگی رہنماہی ائیر پورٹ
پر موجود تھے ۔ کارکنوں کا تو کوئی وجود تک نظر نہیں آرہا تھا۔نواز شریف اس
کے بعد پنجاب ہاؤس پہنچے اور پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کی۔اجلاس میں ملکی
سیاسی صورتحال اور آئندہ حکمت عملی طے کی گئی۔
لندن سے روانگی سے قبل نوازشریف نے میڈیاسے جو گفتگو کی اس کا خلاصہ یہ تھا
کہ جو احتساب کیا جا رہا ہے اس کا مقصد انصاف کا بول بالا کرنا نہیں بلکہ
سیاسی انتقام ہے مگر پھر بھی عدالت میں پیش ہونے کیلئے پاکستان جا رہا
ہوں۔بعد ازاں وہ 3نومبر کو اپنی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر
کے ہمراہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے ۔جہاں وفاقی دارالحکومت میں واقع
احتساب عدالت نے ان سب کے خلاف دائر ریفرنسز کی سماعت 7نومبر2017تک ملتوی
کر دی ۔واضح رہے کہ 19اکتوبر کو نواز شریف کی غیر موجودگی میں اسلام آباد
کی احتساب عدالت نے ان پر اور ان کی بیٹی اور داماد پر ایون فیلڈ ریفرنس
میں فرد ِجرم عائد کی تھی جبکہ اسی روز کچھ دیر بعد ہی نواز شریف کے خلاف
العزیزیہ سٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر نیب ریفرنسز
میں بھی فرد جرم عائد کی تھی۔نواز شریف پر فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز
بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ
شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔خیال رہے کہ اسلام
آباد کی احتساب عدالت نے 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف
کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف
عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابل ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابل ضمانت
وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو انہیں،
ان کی بیٹی اور داماد کوسخت سکیورٹی فراہم کی گئی جوہوسکتا ہے کہ ضروری بھی
ہو۔لیکن سکیورٹی اور پروٹوکول میں فرق ہوتا ہے اور اس فرق کو ختم کرنے کا
مطلب قانون کی دھجیاں اڑانا ہے ۔
خیر سابق وزیراعظم کے وطن واپس پہنچنے کے بعد وہ تمام قیا س آرائیاں دم توڑ
گئی کہ اب وہ طویل عرصہ تک واپس نہیں آئیں گے اور مائنس نواز شریف فارمولا
پرعملدرآمد ہونے سے شہباز شریف پارٹی کی کمان سنبھالیں گے اور اگلے
وزیراعظم بھی ہوں گے۔ یہ سب افواہیں بظاہر دم توڑ گئی ہیں لیکن ایک بات
ابھی تک واضح ہے کہ شریف فیملی شدید طور پر اندرونی اختلافات کا شکار
ہے۔ذرائع کے مطابق نوبت قطع کلامی تک بھی جاپہنچی ہے۔ اب رہی بات یہ کہ
نواز شریف کے واپسی کے بعد آئندہ کس لائحہ عمل پر کام کریں گے اور ان سیاسی
کشمکشوں کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا،ویسے تو نواز شریف نے عدالت میں پیش
ہو کر ثابت کر دیا کہ وہ واقعی بھاگنے والوں میں سے نہیں ہیں مگر کس حد تک
وہ اپنے موقف کا دفاع کر پائیں گے کہ یہ سب الزامات ان پر بے بنیاد ہیں اور
ان کو سیاسی انتقام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔اس
سب سے قطع نظر نواز شریف اور ان کے پارٹی دوست اور ماہر قانون بہت اچھی طرح
جانتے ہیں کہ ان پر جو ریفرنسز دائر کئے گئے ہیں وہ بہت جاندار ہیں ،نیز
موثر ثبوتوں اور دلائل دیے بنا اس سے چھٹکارا ناممکن ہے۔ ایک اور اہم پہلو
یہ ہے کہ جیسے ہی نواز شریف وطن واپس آئیں ہیں ویسے ہی آصف علی زرداری دبئی
روانہ ہو گئے ہیں اور یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ نواز شریف
نے آصف علی زرداری کی حد درجہ تنقید کے باوجود ان کے خلاف ایک لفظ نہیں
بولا۔جہاں انہوں نے آصف علی زرداری کا اتنا خیال رکھا ہے اگر وہ عدلیہ اور
ججوں اور اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں منفی تاثرات کا اظہار نہیں کریں
گے تو اس سے ان کا سیاسی قد کاٹھ کم ہونے کی بجائے زیادہ بڑھے گا اور ان کی
مشکلات میں کمی آئے گی۔ |