مصطفی کمال اور فاروق ستار دونوں نے سیاسی اتحاد کا اعلان
تو گرم جوشی سے کیا لیکن فاروق ستار اس اتحاد سے قطعی ناخوش نظر آئے ۔ کسی
نامعلوم نرسری کی کھادپر پلنے والی پی ایس پی ایم کیو ایم کا نام ختم کرکے
اپنی سیاسی بقاء چاہتی ہے ۔فاروق ستار نے کس کے کہنے پر رابطہ کمیٹی کے
ممبران کو اعتماد میں لیکر پی ایس پی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کی اور
ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم، جھنڈے اور نام تک کو ختم کرنے پر تیار ہوگئے ؟
پھرجب علی رضا عابدی ، عامر خان سمیت مختلف سینئر رہنماؤں کی جانب سے سخت
سے سخت اقدام اٹھانا کا کہا گیاتو پھر فاروق ستارکو پارٹی کے مردہ گھوڑے
میں جان ڈالنے اور خود کو پارٹی کا تاوقت ثانی قائد منوانے کا سنہری موقع
مل گیا جس کا پی ایس پی کو انداز نہ تھا۔ بس پھر کیا تھا کہ الطافی روح
فاروق ستار کے تن بدن میں دوڑ گئی اور ایسا ڈراما رچایا کہ قوم کو ایک بار
الطاف یاد آگئے لیکن وہاں موجود رمتحدہ رہنماؤں اور کارکنوں نے اس ڈرامائی
اندازتکلم کو دل و جان سے قبول کیا اور جذباتی انداز میں ـ ’’ـفاروق تیر
ایک اشارہ: حاضر ہے لہوہماراـ‘ـ‘ کے نعرے بھی گونجے ۔فاروق ستار نے مزید
سسپنس کے لیے سیاست اور پارٹی سے دستبرداری کا اعلان کیا اور اپنے گھر چلے
گئے اور اپنی والد ہ کے کہنے پر واپس آکر ایم کیو ایم اور کراچی کے وسیع تر
مفاد میں اپنا فیصلہ واپس لیااور تمام اداروں کو یہ پیغام دیا کہ مہاجر کو
سائیڈ لائن نہیں کیا جاسکتا۔ایم کیو ایم کا مکمل استحقاق ہے کہ وہ جمہوریت
کا حصہ بنے۔
ہم بحیثیت ادارہ یہ سوچنا ہوگا کہ مجرموں کے خلاف کاروائی شفاف ہو جوکہ
بدقسمتی سے نہیں ہے ۔ مقصود ایم کیو ایم کو کھڈے لائن لگانا تھا اوران کے
چند بندے بندے پکڑ کر کامیاب آپریشن کاواویلا کرناتھا تومعذرت سے یہ کراچی
میں پائیدار امن کی جانب عارضی قدم سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔پاکستا ن کے عوام
انتہائی تذبذب اور مخمصمے کا شکار ہیں کہ کراچی میں وقتی جرائم کی شرح میں
کمی تو آئی ہے لیکن کیا ظالموں کا احتساب ہوا اور مظلوموں کو انصاف مل سکا
ہے!! خیر، فاروق ستار نے خود کو مالی احتساب کے لیے پیش کر دیا ہے اور
مطالبہ کیا کہ باقی جماعتوں کے سربراہان بھی خود کو احتساب کے لیے پیش
کریں۔فاروق ستار کی پریس کانفرنس کامیاب حکمت عملی کا نتیجہ تھی اور وہ اب
خود کو پارٹی کا قائد منوانے اور اپنا وقار بنانا میں کامیا ب ہو چکے ہیں۔
انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی طرف بلاواسطہ اشارہ کرتے ہوئے کہا Engineerd
Politics اور Scripted Politics نہیں چلے گی۔ فاروق ستار کا اخلاقی طور پر
خود کو پیش کرنا اورباقیو ں کے احتساب کا مطالبہ کرنا قابل تعریف عمل ہے
لیکن انہیں خود کو مکمل احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے اب یہ کام اداروں کا
ہے کہ سانحہ بلدیہ سمیت سب گناہوں کا پتہ لگائیں۔
کرپشن کے ملزمان کی ناپ تول کا پیمانہ ایک ہی ہونا چاہیے اور برابری کی سطح
کا ہوناچاہیے ۔نیب افسروں نے کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث وزارت صحت کے
ایک افسر کو مردہ قرار دیکر سزا سے بچا لیاتھا۔ مشرف دور میں وفاقی وزارت
ہیلتھ سروسز کے افسر شیخ اختر حسین کو مردہ قراردے کر کیس خارج کرد یا گیا
حالانکہ یہ شخص آج بھی زندہ ہے۔ حیرت ہے کہ جب کرپشن کے بے تاج بادشاہ آصف
علی زرداری ، قوم کے پیسہ لوٹنے والے ڈکٹیٹر مشرف اور ان کے ق لیگی رفقاء
اور عمران خان کی پارٹی مین موجود کروڑوں اور اربوں پتی جب کرپشن اور منی
لانڈرنگ پر درس دیتے ہیں اور عدلیہ، نیب اور فوج کے پیچھے کھڑے ہونے کے
فضول دعوئے کرتے ہیں توپھر اے این پی، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کو
پارسائی کے منصب پر فائز سمجھتا ہوں۔لگتا معاملہ بدنیتی پر مشتمل ہے تبھی
باقی تمام پارٹیوں کھلا معافی نامہ تھمایا جارہاہے۔آئینی تقاضے پورے ہوسکتے
ہیں کہ جب بغیر کسی این آر او کے ن لیگ اور پی آئی ٹی کے متوقع نا اہل
حضرات کو بغیر کسی نظریہ ضرورت کے جبری گھر بھیجا جائے اور زرداری جیسے
عوام دشمن شخص کے مقدمات دوبارہ کھولے جائیں۔ جہاں تک نواز شریف کی کرپشن
پر صدر ممنون کی معافی کا سوال ہے تو ہاں صدر کو1973ء کے آئین کے آرٹیکل45
کے تحت کسی بھی ٹریبیونل ، عدالت یا کسی دوسری اتھارٹی کے تحت دی گئی سزا
کو معاف، ، تبدیل یا ملتوی کرنے کا صوابدیدی اختیارحاصل ہے۔ رحمان ملک سمیت
دنیا بھر میں ایسے سینکڑوں کیسز ہیں جس میں صدور ہائے مملکت نے عام معافی
کا اعلان کیا جبکہ بیسیوں ایسے بھی ہیں جہا ں معافی نامے ماننے سے انکار
بھی ہوا۔ایک کرپشن یہ بھی ہے کہ زیر عتاب 65 کاالعدم تنظیموں اور جماعۃ
الدعوۃ سمیت 6 دوسری مذہبی جماعتوں کوبھی لگا م ڈالی جائے۔ مختلف فسادی اور
انتشاری آؤٹ فٹس بھیس بدل بدل کر برسوں سے سامنے آرہے ہیں اور یہی تماشہ لب
بام ہم حلقہ 120 اور پشاور کے این اے چار میں دیکھ چکے ہیں۔
ہم سب کو ماننا ہوگا کہ پارلیمنٹ اﷲ وحدہ لاشریک کی ذات کے بعد سب سے سپریم
ہے ۔ عدلیہ ، مقننہ،انتظامیہ، فوج ایجنسیوں اور فوج سب کو پارلیمنٹ (جو
عوام کے ووٹوں کی طاقت اور چاہت سے منتخب ہوتی ہے) کے مینڈیٹ کو تسلیم کر
کے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
پارلیمنٹ کو مضبوط کیسے کیا جائے اورخود پارلیمنٹ کے ممبران کو رول آف لاء
اور آئین و قانون کے تابع کیسے کیا جائے؟ اس کا جواب سادہ سا ہے کہ
پارلیمنٹ کی عزت ووقار کو کبھی مجروح نہ کیا جائے اور کسی تیسری طاقت
یابیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر پارلیمنٹ کے چادروچاردیواری کے تقدس کو
پامال نہ کیا جائے ۔ اور جہاں تک سوال ہے کے پارلیمنٹ کے خود منصف ہونے یا
عمل کرنے کا تو اس کا جواب بھی واضح ہے کہ جب بھی ہم حق رائے دہی کا
استعمال کریں تو حکومتی ایوانوں میں بیٹھنے کے لیے ایسے شخص کو ووٹ دیں جو
خداترسی اور انسانیت پر یقین رکھنے ولا ہو۔ سوچیے! ہمارا ووٹ کسی مالی ،
اخلاقی یا سوشل کرپٹ بندے کو نہیں جانا چاہیے ۔ اگر ہم اپنا ووٹ نسبتاََ
بہتر شخص کو دیں گے تو پھر ہم حق کے لئے لڑنے کی طاقت بھی جمع رکھیں گے اور
عدل وانصاف کے حصول کے لیے پارلیمنٹ کو مجبور بھی کرسکیں گے۔ |