وظیفہ اور صدقہ؛
مولانا طارق جمیل نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے جاتی عمرا میں ملاقات
کی ۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ ملاقات میاں صاحب کی خواہش پر ہوئی۔ دیگر معاملات
کے علاوہ خبر میں بتایا گیا ہے کہ مولانا طارق جمیل نے سابق خاتون اول بیگم
کلثوم نواز کی خیریت دریافت کی، انکی صحت یابی کے لئے دعا کی، اور سب سے
اہم یہ کہ میاں صاحب کو مشکلات سے نکلنے کے لئے وظیفہ بتایا اور صدقہ کے
بارے میں ترغیب دی۔ ایک زمانہ مولانا کا معتقد ہے، اگرچہ مخالفین بھی بہت
ہیں، مگر حامی بہرحال زیادہ ہیں۔ مولانا کی باتیں دلوں کو چھوتی اور بہت
جلدی اثرانداز ہوتی ہیں۔ جاتی عمرا چونکہ رائے ونڈ کے ساتھ ہی ہے، اور ویسے
بھی میاں صاحب کے چھوٹے بھائی میاں عباس شریف سیاست کی بجائے تبلیغی جماعت
کے رکن تھے، اس لئے مولانا سے میاں نواز شریف کی ملاقاتیں تو یقینا پہلے
بھی بہت سی ہوں گی، یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ میاں صاحب اُن سے
متاثر بھی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس مشکل وقت میں مولانا کو یاد کیا گیا۔
میاں نواز شریف کو مولانا نے کیا وظیفہ بتایا یہ خبر کا موضوع نہیں، نہ ہی
کسی صحافی بھائی کی اس منزل تک رسائی ہو سکی، ورنہ قوم کو اس وظیفے کے بارے
میں بھی بتا دیا جاتا۔ اب یقینا میاں صاحب اس بتائے ہوئے وظیفہ پر عمل کریں
گے، یہ بات بھی یقینی ہے کہ یہ وظیفہ معمول سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہوگا،
برکت اور رحمت کے لئے کچھ چیزیں پڑھنے کے لئے دی گئی ہوں گی۔ ایک وظیفہ
مولانا طارق جمیل پوری قوم کو بھی دیتے ہیں، دلچسپ بات یہ کہ ان کی گفتگو
کا محور وہی وظیفہ رہتا ہے، عام مجالس میں اس کا ذکر لازمی کرتے ہیں۔ وہ
وظیفہ ہے دوسروں کو معاف کردینے کا، وہ معافی پر بہت زور دیتے ہیں، اس سے
ملتے جلتے معاملہ یعنی برداشت کے بارے میں بھی وہ بہت تاکید کرتے ہیں۔ میاں
صاحب کو معاف کردینے اور برداشت کرنے کے دونوں وظائف بھی لازمی دیئے گئے
ہوں گے۔ دیکھیں میاں صاحب ان پر کہاں تک عمل کرتے ہیں، قرآنی آیات یا
سورتیں وغیرہ تو وہ پڑھ لیں گے، مگر معافی اور برداشت کے معاملات ذرا مشکل
ہیں، کیونکہ ان کی اپنی پارٹی کے دو تین افراد انہیں برداشت وغیرہ کا درس
دینے کی کوشش کرتے ہیں، جو انہیں اور ان کے جذباتی ساتھیوں کو ایک آنکھ
نہیں بھاتا۔ ان میں میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان نمایاں ہیں۔
دوسری طرف برداشت اور معافی کی مخالفت کرنے والوں کی ن لیگ میں اکثریت ہے،
نواز شریف انہیں اپنے زیادہ مخلص تصور کرتے ہیں۔
دوسری طرف میاں صاحب کو صدقے کے بارے میں بھی کہا گیا ہے، اس ضمن میں میاں
صاحب پر اﷲ تعالیٰ کا بہت فضل وکرم ہے، وہ جتنا صدقہ چاہیں کر سکتے ہیں، وہ
کیا ان کے چاہنے والے بھی اپنے قائد کے لئے صدقہ دینے کے لئے تیار رہتے
ہیں، حتیٰ کے بہت سے لوگ تو خود قربان ہونے کے لئے بھی تیار رہتے ہیں، اب
دیکھنا یہ ہے کہ میاں صاحب کس کا صدقہ کرتے ہیں، اور کس طرح اپنی اوپرنازل
ہونے والی بلاؤں کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایم کیوایم میں ہنگامہ؛
گزشتہ دو روز سے ایم کیوایم میں ہنگامہ آارائی شروع ہے، فاروق ستار کی
مصطفےٰ کمال سے ملاقات اور دونوں جماعتوں کا ایک نشان اور ایک نام سے
الیکشن لڑنے کا اعلان سب لوگوں کے لئے اچانک تھا۔ مگر بات زیادہ دیر تک
قائم نہ رہ سکی، اور فاروق ستار نے اپنی پریس کانفرنس میں بہت سے مختلف
باتیں کیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا پس منظر بیان کیا، مگر جو بات سب
سے اہم تھی وہ یہ ہے کہ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قومی الیکشن سے قبل کم از
کم تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے مالی معاملات کا حساب ضرور قوم کے
سامنے آنا چاہیے، الیکشن کمیشن یہ کام کر سکتا ہے۔ اگرچہ انہوں نے یہ
مطالبہ مصطفےٰ کمال کی مخالفت میں کیا، مگر اس موقع پر یہ مطالبہ برمحل ہے،
الیکشن قریب ہے، تمام سیاستدانوں کی کہانی پھر سہی ،تب تک صرف پارٹی
سربراہوں کا حساب ہو جائے تو بہت کچھ سامنے آسکتا ہے۔
|