اسرائیل ایک ناجائز،غاصب اور سفاک صہیونی ریاست ہے جس کی
بنیاد نہتےفلسطینیوں کی خاک و خون میں تڑپتی لاشوں پر استوار کی گئی ہے ،اور
اسرائیلی حکومت غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر میں ہر گزرتے دن سے ساتھ
تیزی دیکھا رہی ہے جب کہ مشرق وسطی میں گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے عالمی
طاقتیں ہر اعتبار سے اس کی پشت پناہی کررہی ہیں یہی وجہ ہے اسرائیل کے قیام
کی بنیاد بننے والے اعلان بالفور کے سو سال مکمل ہونے پر برطانیہ میں جشن
منایا گیا ،اس موقع پر منعقد کی گئی تقریبات کے مہمان خصوصی اسرائیلی وزیر
اعظم بنجمن نیتن یاہو تھے ، اسی حوالے سے اسرائیلی وزیراعظم نے برطانیہ کے
صدر مقام ’شیتم ہاؤس‘ میں منعقد کی گئی ایک تقریب میں 80 منٹ طویل خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسی فلسطینی ریاست کو قبول کرسکتے ہیں جس کی کوئی
متعین سرحدیں نہ ہوں۔ وہ مکمل آزاد اور خود مختار نہ ہو۔ اس کی گذرگاہیں
اور فضاء اسرائیل کے کنٹرول میں ہو۔ ان کے ساتھ ساتھ اس فلسطینی ریاست میں
قائم کی گئی یہودی کالونیاں اپنی جگہ موجود رہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم کا غیر معقول اور زمینی حقائق کے برعکس بیان ان سے متعلق
کرپشن کیسز سے عوام توجہ ہٹانے کے لیے تو مؤثر ثابت ہوسکتا ہے مگر عالمی
توجہ حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام کوشش ہے ،جب کہ فلسطین عوام سمیت
مسلم دنیا بے دست وپا فلسطینی ریاست کا تصورکو مکمل طور پر مسترد کرچکی
ہے،کیونکہ متعین سرحدوں کے بغیر فلسطینی ریاست کا تصور اور وہ بھی یہودی
کالونیوں کو ختم کئے بغیر،یہ منصوبہ یہودی انتہا پسندوں کے مفاد میں تو
ہوسکتا ہے مگر فلسطینی قوم کے مفاد میں نہیں۔اگر مسئلہ فلسطین کے حل
کےحوالے سے تاریخی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو اسرائیل کے قیام سے ایک سال
قبل 1947 میں اقوام متحدہ نے برطانیہ کے زیر انتظام فلسطینی علاقے میں
یہودی ریاست کے قیام کے حق میں فیصلہ دیاتھا جس کے مطابق فلسطین کے
علاقےمیں دو ریاستوں ،یعنی یہودی اور عرب ریاست کا قیام عمل میں لایاجانا
تھا،مگر کمال عیاری سے یہودی ریاست اسرائیل کا نہ صرف قیام کیا گیا بلکہ
اسے عالمی طاقتوں کی طرف سے تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط بھی کیا گیا جب
کہ فسلطین کی سرزمین ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیلی عفریت کی نذر ہوتی چلی
جارہی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم کا حالیہ بیان امریکی کی دو
ریاستی فلسطینی مسئلہ کے حل سے انحراف کا تسلسل ہے جس کے بارے میں رواں سال
کی ابتداء میں وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ضروری
نہیں کہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کا واحد دو ریاستوں کا قیام ہی ہو۔جب
کہ اسی موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل اور
فلسطین کے درمیان جاری تنازع کے اختتام کیلئے دو ریاستی حل کے بین الاقوامی
وعدے سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی ایک ریاست کا ساتھ دے
سکتے ہیں اگر یہ امن کے لیے ہو۔دوسری جانب مرکز اطاعات فلسطین کے مطابق
فلسطین کے صدر محمود عباس کے خارجہ امور اور عالمی تعلقات کے امور کے ذمہ
دار نبیل شاس نے یونان کےدارالجکومت ایتھنز میں منعقدہ عرب ۔یورپی سربراہی
اجلاس کے دوران ان کے پیغام کو پڑھ کر سنایا ،جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل
دو مملکتی حل کو ختم کرنے اور عالمی قوانین کے برخلاف یہودی بستیاں تعمیر
کر تے ہوئے فلسطینی مملکت کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے ۔
فلسطینی عوام کو اپنے حق خود ارادیت استعمال کرنے، دارلحکومت القدس رکھنے
والی فلسطینی مملکت قائم کرنے اور اسرائیل کے قبضے کو ختم کروانے کا حق
حاصل ہے ۔
بلاشبہ یہ پورا منظر نامہ فلسطینی عوام کی امنگوں کا عکاس او ر یہود و
نصریٰ کے باہمی گٹھ جوڑ اور آپس کے تانے بانوں کو واضح کرتا ہے جس سے مسلم
دنیا کو سبق سیکھتے ہوئے اپنے مسائل کو خود انحصاری کے ساتھ حل کرنے کی
کوشش کرنا ہوگی کیونکہ فلسطین ہو یا کشمیر ،برما ہو شام ہر جگہ ظلم ہوتا ہے
تو مسلمان پر ،گھر جلتا ہے تو مسلمان کا ،بیٹی لٹتی ہے تو ایمان والے کی
،عدم استحکام ہے تو اسلامی ملک میں ،جب تک ہم اپنے اپنے مسائل کو حل کرنے
کے لیے سنجیدہ نہیں ہوں گے پٹنا ہمارا مقدر ہی رہے گا۔
|