ایک خبر! صحت کے حوالے سے ساری دنیا کا حال بُرا ہے

صرف پاکستان میں نہیں....دنیا بھرمیں ایک ارب افراد صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں

چلو! ملک میں صحت عامہ کے مسئلے سے حکمرانوں کی جان تو چھوٹی جو دنیا کو دکھاوے کے لئے ہی صحیح مگر اِن کے لئے کسی حد تک ضرور دردِ سر بنا ہوا تھا اور مجھے یہاں کہنے دیجئے! کہ اَب ہمارے حکمرانوں کو اپنے عوام کے لئے صحت عامہ کی سہولیات باہم پہنچانے کے لئے کسی قسم کی فکر میں مبتلا ہونے کی کوئی خاص ضرورت نہیں بلکہ اَب تو اِنہیں اپنے سینے چوڑے کر کے یہ کہنا چاہئے کہ صحت عامہ کا مسئلہ صرف پاکستان اور پاکستانی عوام ہی کا نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ تو اَب عالمی شکل اختیار کر گیا ہے اِس لحاظ سے ہمارے حکمرانوں کو یہ حوالہ بھی ضرور دینا چاہئے کہ ایک تازہ ترین خبر ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ اُو)کے ڈائریکٹر برائے ہیلتھ سسٹم ڈیوڈایوین نے ڈبلیو ایچ اُو کی فنانشل ہیلتھ سسٹم پر اپنی ایک عالمی رپورٹ جاری کی ہے جس میں اِن کا واضح اور برملا کہنا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک سے وابستہ لگ بھگ 35فیصد افراد کی آمدنی انتہائی قلیل(کم)اور عوام غریب ہے جو کسی بھی لحاظ سے مہنگے ہی کیا ....بلکہ سستے ترین بھی طبی اخراجات قطعاََ برداشت نہیں کرسکتے یا اُن ممالک کا ہیلتھ بجٹ اپنے دیگر ضروری اخراجات کے مقابلے میں انتہائی محدود ہے اِسی وجہ سے دنیا کے میں تقریباً ایک ارب افراد بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہیں اِن کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے ایسے ممالک کے نادار مریضوں کو فوری طور پر بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے عالمی سطح پر نہ صرف فنڈز ریزنگ کرنا ہوگی بلکہ اِس سلسلہ میں حائل مالیاتی تمام رکاوٹوں کے خاتمے کے لئے بھی ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے بھی ناگزیر ہیں اِس طرح ہم دنیا بھر کے مریضوں کو بروقت طبی امداد اور ہیلتھ سروس مہیا کرسکیں گے یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِن ساری باتوں کے علاوہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ اُو) کے ڈائر یکٹر برائے ہیلتھ سسٹم ڈیوڈ ایوین کا اپنی اِس رپورٹ میں یہ کہنا انتہائی حیران کُن اور تعجب انگیز تھا کہ”دنیا بھر میں چاہے امیر ممالک ہوں یا غریب اِن میں مقیم تقریباً ایک ارب یا اِس سے زائد افراد ایسے ضرور موجود ہیں جو غربت کے باعث صحت کے حوالے سے آنے والے سستے اخراجات کو بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں اور اِنہوں نے اپنی رپورٹ میں عالمی برادری کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں مریضوں کو بہتر اور سستی ترین طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے ٹھوس طبی اقدامات کا کیا جانا بہت ضروری ہے اِس کے علاوہ ہم اِن مریضوں کو موت کے منہ میں جانے اور قبر کی آغوش میں سونے سے نہیں روک سکتے اور اُنہوں نے اپنی اِس رپورٹ میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے دوسرے غریب اور ترقی پزیر ممالک کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک اپنے دیگر اخراجات کو کم کر کے اپنے عوام کے لئے بہتر اور سستے ترین طبی سہولیات کے لئے اپنے صحت کے بجٹ میں اضافہ کریں تو ممکن ہے کہ دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں موجود اِن صحت کی سہولتوں سے محروم مریضوں کی تعداد کسی حد تک کم ہوسکے۔

اَب اِس خبر کے بعد ہم آتے ہیں اپنے ملک پاکستان کی طرف جہاں کے عوام اپنے دیگر بنیادی حقوق سے محروم ہیں تو وہیں ہمارے عوام صحت و معالجہ کی بنیادی سہولتوں سے بھی کنگال نظر آتے ہیں اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم کرنے اور رکھنے کا یہ عمل کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ گزشتہ 62یا63سالوں کے دوران ہر دورِحکومت میں حکمرانوں نے دانستہ طور پر اپنے عوام کو صحت، تعلیم، خوراک اور توانائی سمیت دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم رکھ کر، ناصرف اپنے عوام کو ہی دھوکہ دیا ہے بلکہ ہر دورِ میں آنے والے ایک سے ایک تونگر حکمران نے عالمی برادری کو بھی اپنے عوام کے بنیادی حقوق دینے کے خاطر اِس سے اربوں اور کھربوں کی امداد اور قرضے مانگ کر اِسے بھی خُوب بیوقوف بنایا اور اِسے دھوکہ دیا ہے تو کوئی غلط نہ ہوگا اور اِس کے ساتھ ہی مجھے یہاں یہ بھی کہنے دیجئے کہ یہ سلسلہ ابھی یہیں ختم نہیں ہوگیا ہے بلکہ ہنوز جاری ہے اور اِتفاق سے آج کے حکمرانوں نے بھی عالمی برادری کو اِس حوالے سے چکمہ دینے اور اِنہیں بے وقوف بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور آج یہی وجہ ہے کہ ملکِ خداداد ِ پاکستان کے غریب اور محنت کش سترہ کروڑ عوام اپنے حکمرانوں کی ہیرا پھیری اور سازشی ذہانت کی وجہ سے اپنی صحت، تعلیم، خوراک اور توانائی سمیت بہت سی بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔اور اِن حالات میں آج جب پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں سے یہ سوال کرتی ہے کہ آخر کب تک ہم کسمپرسی اور اپنے حقوق کے بغیر اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور رہیں گے....؟اور کب ہمیں ہمارے بنیادی حقوق دیئے جائیں گے ....؟تو حکمرانوں کے پاس اِس کا نہ تو کوئی مناسب جواب ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ٹائم فریم کہ وہ اِس سے اپنے اِن مجبور اور بےکس و مفلوک الحال عوام کو کسی بھی طرح سے مطمئین کرسکتے ہیں اور نہ اِن کے پاس اَب تک کوئی ایسا منصوبہ ہے کہ جس سے یہ اپنے عوام میں ذرا سی اُمید کی کوئی کرن پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔

اگرچہ دوسری طرف یہ بھی ایک کُھلی حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں اِس سارے عرصے کے دوران اِتفاق سے کوئی بہتر حکومت اپنے اچھے( عوامی فلاح وبہبود اور عوام کے بنیادی حقوق صحت ،تعلیم ، خوراک اور توانائی سمیت )اور بہت سے دوسرے منصوبوں کے ساتھ کبھی آبھی گئی تھی تو اِسے بھی سیاسی اور ذاتی چپقلش کی وجہ سے اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اِس کی مثال یہ ہے کہ کبھی کسی طاقتور آمر نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث اِس حکومت کی دُکان جلد سمیٹ دی تو کبھی اِسے خُود اپنی ہی اپوزیشن اور اپنے اردگرد منڈلاتے سازشی سیاستدانوں کی سازشوں کی نذر ہونا پڑا اور یوں وہ اپنے تمام منصوبوں کو بغل میں دبا کر رفو چکر ہوگئی۔

جس پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ
خُود نہ ہو جب تک حکومت تندُرست
تندُرستی قوم کی دشوار ہے

ہم سے بیماروں کی کیا ہوگی شِفا؟
شُعبہ صحت ہی خُود بیمار ہے

بہرحال! پاکستان میں تو روز اول ہی سے ہر دورِ حکومت میں شُعبہ صحت بیمار رہا ہے تو یہ اپنے عوام کی صحت و تندُرستی کا کیا خیال رکھتا اور موجودہ حکومت میں اِس شعبے کے حالات بھی کچھ اچھے دکھائی نہیں دے رہے ہیں تو یہ شُعبہ اپنے عوام کے لئے کیا خدمات انجام دے گا۔ سِوائے اِس کے کہ اَب ہمارے حکمران بھی اِس خوش فہمی میں مبتلا ہوجائیں کہ صحت عامہ کا مسئلہ صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا ایک عظیم مسئلہ بن چکا ہے اور ہم اپنے عوام کے لئے اِس حوالے سے کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 982783 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.