مشرف سے بتیس سوال، ایک اور ٹوپی ڈرامہ

جہاں موجودہ حکومت اپنی روز مرہ کی عوام دشمن کاروائیوں سے پاکستان کے عوام کو ہمہ وقت پریشان اور دل گرفتگی میں مشغول رکھتی ہے وہیں وہ کبھی کبھی کوئی مزاحیہ کام بھی کر جاتی ہے، جسے دیکھ کر عوام ہنسنے اور مسکرانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اس طرح کچھ دیر کے لئے اپنے غموں اور مصیبتوں کو بھولنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ آپ نے اکثر فلموں اور ڈراموں میں دیکھا ہوگا کہ بڑا سنجیدہ ماحول ہوتا ہے اور اچانک ایک مزاحیہ اداکار روتے ہوئے لوگوں کو ہنسا دیتا ہے یا کم از کم انہیں مسکرانے پر ضرور مجبور کردیتا ہے، محترمہ بینظیر کا قتل حالانکہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا اور یقیناً بہت بڑا نقصان بھی تھا لیکن جب سے ان کے شوہر نامدار کی پارٹی پر گرفت مضبوط ہوئی ہے اور ان کا ایک گروپ حکومت پاکستان پر ”قابض“ ہوا ہے، عوام اچانک روتے روتے کسی وقت ہنس بھی پڑتے ہیں، جیسے کہ نعرہ بھی لگایا جاتا ہے کہ ”اک زرداری.... سب پہ بھاری“! محترمہ کے قتل کی تفتیش سب سے پہلے ملکی ایجنسیوں نے کی، پھر سکاٹ لینڈ یارڈ والے آئے اور اس کے بعد اقوام متحدہ نے بھی لمبی چوڑی تفتیش کے بعد ایک رپورٹ بنا ڈالی، موجودہ حکومت جو بلا شبہ بینظیر بھٹو کی وجہ سے براجمان ہے، نے پہلے اسی رپورٹ پر اکتفا کیا جو بریگیڈئر جاوید چیمہ نے مرتب کی تھی، بعد ازاں اس میں کافی ساری قلابازیاں کھائیں اور بالآخر جب چالان مکمل ہوگیا، ملزمان پر فرد جرم کا موقع آگیا تو حکومت نے ایک مزاحیہ شوشہ چھوڑ دیا کہ اب پرویز مشرف سے بتیس سوال پوچھے جائیں گے۔ ان بتیس سوالوں میں کیا چیز نئی ہے، یہ تو رحمان ملک صاحب بہتر طور پر بتا سکتے ہیں لیکن بتیس سوالوں سے کچھ اور سوالات بھی جنم لیتے ہیں جو موجودہ حکومت میں شامل اعلیٰ ترین شخصیت اور اس کے ”رتنوں“ سے کئے جانے ضروری تھے۔ پہلے ہم بتیس سوالوں میں سے کچھ کا تذکرہ کرتے ہیں۔

اخباری خبروں کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف کو بھیجے گئے سوال نامے میں پوچھا گیا ہے کہ بینظیر بھٹو نے آنے سے قبل خط لکھ کر اپنی زندگی کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا تھا تو آپ نے اس حوالے سے کیا اقدامات کئے، کراچی میں سانحہ کارساز کے بعد بینظیر بھٹو القاعدہ اور طالبان کا نشانہ تھیں تو انہیں کیوں فول پروف سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی؟ تفتیشی سوالات میں مزید پوچھا گیا ہے کہ دو سابق وزرائے اعظم شوکت عزیز اور چوہدری شجاعت جیسی فول پروف سیکورٹی بینظیر بھٹو کو کیوں فراہم نہیں کی گئی اور واقعہ کے فوری بعد پریس کانفرنس کیوں کرائی گئی اور چند گھنٹوں میں ذمہ داروں کا تعین کیسے ہوا۔ سوال نامے میں بینظیر کو لاحق خطرات میں عالمی اداروں کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات پر ایکشن نہ لینے کی وجوہات پوچھی گئی ہیں۔ ایک سوال میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں نے بھی بینظیر بھٹو کو قتل کئے جانے کے خدشات کی واضح رپورٹس دی تھیں تو اس پر کیا سیکیورٹی انتظامات کئے گئے۔

اس کے علاوہ بھی کچھ اہم اور غیر اہم سوالات مشرف سے پوچھے گئے ہیں، مشرف سے پوچھے گئے سوالنامے کے بارے میں عوام کی اکثریت کا کہنا ہے حکومت کو یہ سب کچھ اس وقت کیوں یاد نہ آیا تھا جب مشرف کو گارڈ آف آنر دیا جارہا تھا اور یہ بھی کہ ابھی تک مشرف کو تمام ممالک میں پاکستانی ایمبیسی سے پورا پروٹوکول کیوں ملتا ہے، اگر مشرف بینظیر قتل سازش میں شریک ہے تو اسے یوں آزاد کیوں چھوڑ دیا گیا تھا، اس کے علاوہ کیا پیپلز پارٹی کے ان نادر روزگار وزراء سے بھی پوچھ گچھ ہوگی، کوئی سوالنامے دئے جائیں گے جو محترمہ کی اندرونی سکیورٹی پر مامور تھے؟محترمہ کا موبائل فون کہاں گیا؟ ان سے آخری بار کس نے بات کی؟ ان کو گاڑی سے نکلنے کے لئے کس نے کہا؟ کس کے کہنے پر ان کا پوسٹ مارٹم نہیں کرایا گیا تھا؟ رحمان ملک اور بابر اعوان کے کردار بارے اور خود زرداری صاحب کے کردار بارے سوالات کب اٹھیں گے؟ قاتل لیگ سے دوستی کی پینگیں کیوں بڑھائی جارہی ہیں؟ کیا ان لوگوں سے بھی پوچھا جائے گا جن کو محترمہ نے خود نامزد کیا تھا؟ کیا خالد شہنشاہ کے کردار اور اس کے قتل بارے بھی کسی سے سوالات پوچھے جائیں گے؟کیا راولپنڈی کے اس وقت کے متعلقہ بیوروکریٹس، پولیس افسران اور حادثے کی جگہ کو دھونے والے سارے لوگوں سے سوال ہوگئے ہیں اور ان کے تسلی بخش جوابات مل چکے ہیں؟ چلیں محترمہ کے پوسٹ مارٹم سے تو ان کے کسی ”بڑے“ یا ”قریبی“ نے روک دیا تھا لیکن جو باقی لوگ اپنی جانوں سے گئے ان کے پوسٹ مارٹم سے کس نے روکا تھا، یہ سوال کسی سے کیا گیا؟اب تو پیپلز پارٹی، بینظیر کی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، ان کے خاوند صدر پاکستان کے عہدے پر ایک شان بے نیازی سے بیٹھے ہیں، تو کیا سانحہ کارساز کی تحقیقات ہوچکیں؟ اس کا کیا نتیجہ نکلا؟

رہی بات پرویز مشرف کی، تو وہ کیوں کسی سوال کا جواب دیں گے؟ کیا وہ آجکل پاکستانی حکومت کی عملداری کے اندر رہائش پذیر ہیں؟خلق خدا تو ان بتیس سوالات کو حق مہر کی طرح ہی سمجھ رہی ہے بس آدھے سوال کی کسر باقی ہے کہ اکثر علاقوں میں نکاح کے وقت ساڑھے بتیس روپے حق مہر مقرر کیا جاتا ہے، مشرف کے کسی سوال کے جواب کا سوال اس لئے بھی پیدا نہیں ہوتا کہ مشرف اور زرداری، دونوں کے گارنٹر بھی ایک ہیں اور مالک بھی ایک، وہ مشرف جو ملک کو لوٹنے اور کھسوٹنے کے بعد دربدر ہوچکا ہے، جو کبھی انگلینڈ، کبھی امریکہ اور کبھی کینیڈا میں پاکستانیوں سے خطاب کا شوق پورا کر رہا ہے، اگر کبھی بھول کر پاکستان آ بھی گیا تو نواب اکبر بگٹی کے وارث بعد میں اس تک پہنچیں گے، پہلے کوئی نہ کوئی جیالا اس تک پہنچ جائے گا، کیونکہ جیالے بھی کچھ نہ کچھ سوجھ بوجھ تو رکھتے ہیں سارے معاملات کی، اگر مشرف اس وجہ سے اپنے خلاف احتجاج کرنے اور نعرے لگانے والوں کو ”چھتر“ نہیں لگواتا کہ وہاں قانون اس کی اجازت نہیں دیتا تو اسے جان لینا چاہئے کہ اصلی جیالے بھی اسی لئے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اللہ کرے بھگوڑا پاکستان واپس آجائے اور اصلی جیالوں کو سب جانتے ہیں کہ وہ کیا کچھ کرسکتے ہیں، ابھی تو کچھ مصلحتوں نے ان کا راستہ روک رکھا ہے، بھٹو کا نام ان کے لئے دیوار بنا ہوا ہے ورنہ وہ اپنی قائد کے خون کا بدلہ لینے کے لئے قصر صدارت تک بھی پہنچ سکتے ہیں اور کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ صدر زرداری کے ساتھ ساتھ رحمان ملکوں اور بابر اعوانوں کو بھی یہ بات ابھی سے سمجھ لینی چاہئے کیونکہ جب ان کو سمجھ آئے گی تو پھر کچھ سمجھ نہیں آئے گا۔ حکومت کو بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اور مقدمہ کو کھیل بنانے کی بجائے اب یہ اعلان کردینا چاہئے کہ قاتل نہیں پکڑے جاسکتے، کیوں خود بھی تماشہ بنتی ہے اور پاکستانیوں کے جذبات کا خون بھی کرتی ہے جو اچھے بھلے غمزدہ، مسکین شکلیں بنائے ہوئے ہوتے ہیں اور کوئی نیا ٹوپی ڈرامہ شروع کردیا جاتا ہے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207326 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.