جمہوری نظام میں عوام کی رائے اور اس کا احترام ہی
جمہوریت کا دروازہ ہے ، عوام اپنی رائے کا اظہار ووٹ کی طاقت سے کرتی ہے
جبکہ ووٹ کی طاقت سے منتخب ہونے کے بعد عوامی نمائندے ایوانوں میں جا کر
اپنی عوام کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں ، ان کی بہتری کے لئے نئے قوانین اور
فلاحی منصوبے تشکیل دیتے ہیں۔ اسی طر ح جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لئے
بروقت الیکشن کا انعقاد کروانا انتہائی ضروری ہے جو جمہوریت کا ایندھن
سمجھا جاتا ہے اور یہ ایندھن بروقت ملنا انتہائی اہم ہے۔ پاکستان میں
موجودہ حکومت مئی 2013 کے الیکشن میں عوامی ووٹ سے منتخب ہو کر آئی تھی جس
کی مدت خدا خدا کرکے پوری ہونے کو ہے الیکشن کے بعد سے لے کر تاحال سیاسی
کشمکش جارہی ہے کبھی چار حلقوں کا مسئلہ تو کبھی دھندلی ،دھرنہ، پانامہ ،اقامہ
، نیب ،نااہلی ، حاضری اور غیر حاضری جیسے معاملات کی گتھیوں میں الجھی
حکومت ان کو سلجھاتے سلجھاتے ایک وزیراعظم کی تبدیلی کے بعد بالاآخر اپنے
پانچ سال کی مدت پوری کرنے کو ہے۔
آئندہ الیکشن 2018 میں ہونے جارہے ہیں جمہوریت کی مضبوطی کے لئے بروقت
الیکشن کا ہونا نہایت ضروری ہے۔اسمبلی میں انتخابی اصلاحات پر تھوڑا بہت
کام کیا گیا ہے پر مکمل اصلاحات پر کام 2018 کے الیکشن تک مکمل ہوتا ہوا
نظر نہیں آ رہا ہے ، سینٹ میں مردم شماری کے عبوری نتائج کی روشنی میں نئی
حلقہ بندیاں کی گئی ہیں جس پر سیاسی جماعتیں اعتراضات اٹھا رہی ہیں۔ دوسری
طرف سندھ کی سیاسی جماعتیں مردم شماری کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتی ہیں جس
پر ان کا اعتراض ہے کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم کردیا گیا ہے۔
کچھ جماعتیں پرانی مردم شماری پر حلقہ بندیاں کروانے پر زور دے رہی ہیں
جبکہ ایک اور سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ نئے نتائج کی روشنی میں حلقہ
بندیاں کی جائیں، مردم شماری کی جاری ہونے والی رپورٹ کے نتائج کو مدنظر
رکھتے ہو ئے نئی حلقہ بندیاں تو کی گئی ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کا اس پر
ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ حلقہ بندیوں پر اٹھنے والے اعتراضات کو مدنظر رکھا جائے
تو یہ کب تک چلتا ہے لیکن ان عتراضات کی وجہ سے الیکشن لیٹ بھی ہو سکتے ہیں
کہیں ایسا تو نہیں جو قبل از وقت الیکشن کی بات کر رہے ہیں کہ ان کو کسی
بات کا خد شہ ہے کہ الیکشن دیر سے ہو ں گے یا کو ئی اور اقدمات کا ان کو
خطر ہ ہے ۔ اس کے علاوہ مردم شماری کی حتمی رپورٹ جارہی ہونے کے امکانات
اپریل 2018 تک ہیں۔اگر عبوری نتائج کو دیکھا جائے تو پاکستان کی کل آبادی
بیس کروڑ سے زیادہ ہے یوں پاکستان کی آبادی میں 1998 سے لے کر 2017 تک 57
فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کچھ پہلے تک یہی کہا جاتا رہا ہے کہ نئی حلقہ بندیاں نہ
ہوئیں تو الیکشن میں شکوک و شبہات پائے جائیں گے، جن پر سیاسی جماعتیں
اعتراضات اٹھاتے ہوئے 2013 کی طرح احتجاج شروع کر دیں گی۔ جبکہ مردم شماری
کوبھی ایسے ہی لیٹ کیا گیا ہے ۔ مردم شماری بھی سپریم کورٹ کے حکم سے ہو
پائی ہے، ورنہ سیاست دان اس کے حق میں بھی نہیں تھے۔
الیکشن 2018 کے لئے 2013 کی نسبت سوا کروڑ نئے ووٹرز کا آضافہ ہو چکا ہے،
جس کے بعد ملک میں ووٹرز کی کل تعداد دس کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ موجود ووٹرز
کی تعداد میں ہونے والے آضافے کا جائزہ لیا جائے تو یہ 18 سے 25 سال کے
نوجوان ووٹرز ہیں۔ان نئے سوا کروڑ ووٹرز کی وجہ سے آئندہ الیکشن میں ٹران
آوٹ زیادہ رہے گا۔اگر سابقہ الیکشن کے اعدادوشما ر کو دیکھا جا ئے تو 2008
کے الیکشن میں ٹرن آوٹ 44 فیصد رہا اوراسی طر ح 2013 کے الیکشن میں 55 فیصد
رہا اس مرتبہ مزید اس میں دس فیصد تک آضافہ ہوسکتا ہے جس کے لئے تیاری
ہنگامی بنیادوں پر کرنے کی اشد ضرورت ہے
2018ء کے الیکشن کے لئے 2013 کے الیکشن کی نسبت بیلٹ پیپرز ، پولنگ عملہ
،دیگر سامان اور آخراجات زیادہ درکار ہوں گے۔ دس کروڑ ووٹرز کے لئے دوقسم
کے بیلٹ پیپرز صوبائی اور قومی حلقوں کے لئے کل بیس کروڑ ضرورت ہوں گے۔ جن
کی چھپائی کرنے والے سیکورٹی پرنٹنگ پریس کی تعداد کم ہے، اگر بیلٹ پیپر
پرائیویٹ فرم سے پرنٹ کروائے گئے تو پھر کوئی اور سیاسی جماعت اس پر
اعتراضات اٹھائیں گی۔اسی طرح آئندہ الیکشن کے لئے سات لاکھ عملہ درکار ہو
گا۔ جس میں دیگر عملے کے ساتھ سیکورٹی سٹاف بھی شامل ہیں۔ الیکشن 2018 سے
قبل سینٹ کا الیکشن ہونے جا رہا ہے جبکہ آئین کی روح سے اسمبلی الیکشن سے
دو ماہ قبل تحلیل ہوجانی چاہیے،اور 60 دونوں کا عبوری سیٹ آپ بناکر الیکشن
کا انقعاد کروایا جانا چاہیے۔اسمبلیوں میں موجود عوامی نمائندے اس بات پر
زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتے کہ انتخابی اصلاحات کے بل پر کام کر کے اس پر
بروقت قانون سازی کی جائے لیکن ان چار سالوں میں اسمبلی کے اجلاس میں کورم
پورا نہیں ہوتا تھا انتخابی اصلاحات بل کی کمیٹی کے ارکان بھی اسمبلی سے
زیادہ تر وقت باہر رہے۔جمہوریت کی گاڑی کو آگے چلانے کے لئے بروقت الیکشن
کے انتظامات مکمل کروا کے ان انقعاد کروانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ
جمہوریت کا ایندھن بروقت اور شفاف الیکشن ہی ہیں۔ |