بھارت میں کوئی بھی پارٹی اقتداریاحزبِ اختلاف میں ہو،وہ
چانکیہ کوہی اپناسیاسی گرومانتی ہیں کہ چانکیہ نے سیاست میں دھوکے کے وہ
اصول رائج اور جائزقراردیئے ہیں جن پرعمل پیراہونے سے اپنے مقابل کومات دی
جاسکتی ہے۔اب یہی بھارت کی چانکیائی پالیسی امریکی وزیرخارجہ کے دورۂ
پربھی کام آئی اورمہمان کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کیلئے کارگر ثابت
ہوئی۔ٹلرسن کادورۂ جنوبی ا یشیاکاشیڈول سامنے آتے ہی مودی سرکارکے
چانکیائی ذہن کے حامل بزرجمہران نے چال چلی اور کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات
کاناٹک رچانے کیلئے ایک مذاکرات نامزدکرڈالا تاکہ امریکاپریہ واضح کیاجاسکے
کہ ''ہم تومائل کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں''۔ مودی سرکارنے ساڑھے تین سال
بعدآئی بی کے سابق سربراہ دنیشور شرما باضابطہ مذاکرات کیلئے اپنانمائندہ
مقرر کرکے بات چیت کیلئے کشمیرروانہ کر دیاجہاں وہ وادی ٔ کشمیرمیں چاردن
مختلف جماعتوں اورحکومتی نمائندوں سے ملاقاتوں کے بعداب جموں روانہ ہو گئے
ہیں۔ ۲۰۰۲ء کے بعدشرمادہلی کی جانب سے اب تک کے بولتے مذاکرات کارہیں جنہیں
نامزدکیاگیا۔ سب سے پہلے کے سی پنتھ کو نامزدکیاگیاتھا،اس کے بعد مقبوضہ
ریاست جموں وکشمیرکے موجودہ گورنراین این ووہرا،ان کے بعدسابق بھارتی نائب
صدرایم ایم انصاری اور دلیپ پڈگاؤنکرتھے۔
۲۳/اکتوبر ۲۰۱۷ء کوبھارتی وزیرخارجہ راج ناتھ سنگھ نے نئی دہلی میں ایک
پریس کانفرنس میں کہاکہ دہلی نے کشمیرپر جامع مذاکرات کاسلسلہ شروع کرنے
کافیصلہ کیاہے اوراس سلسلے میں آئی بی کے سابق سربراہ دنیشورشرماکو مرکزی
سرکار کانمائندہ مقررکیاگیاہے۔جب ان سے یہ سوال پوچھاگیاکہ کیا وہ علیحدگی
پسندوں سے بھی مذاکرات کریں گے ؟تو وزیر داخلہ نے جواب دیاکہ انہیں کسی کے
ساتھ بھی تبادلہ خیال کااختیارحاصل ہوگا جس کافیصلہ وہ خود کریں گے۔دنیشور
کاکہناتھاکہ کشمیرجاناان کیلئے ایساہی ہے جیساوہ اپنے گھرجا رہے ہوں۔یہ بہت
بڑی ذمہ داری ہے اوروہ مودی سرکار کے اعتماد پرپورااترنے کی کوشش کریں
گے۔کشمیرمیں قیام امن بہت بڑاکام ہے اوروہ جموں وکشمیرکا دورۂ کرنے کے
دوران صورتحال کاجائزہ لیکرایک منصوبہ تیارکریں گے اور آگے چل کراس منصوبے
پرعمل ہوگااورتوجہ امن کے قیام اورمستقل حل پر مرکوزہوگی۔
دنیشورشرما۱۹۷۶ءبیچ کے کیرالہ کیڈرسے وابستہ آئی پی آفیسرہیں جوتقریباً دو
دہائیوں تک دہلی میں آئی بی سے وابستہ رہے۔وہ ۱۹۹۱ءمیں آئی بی سے منسلک
ہوئے ۔اس دوران انہوں نے کشمیرکے علاوہ شمال مشرقی ریاستوں اورلکھنومیں بھی
ڈیوٹی سرانجام دی۔۹۰ء کی دہائی میں رضاکارانہ طورپر مقبوضہ کشمیرمیں کام
کرنے کی خواہش ظاہرکی اور۱۹۹۹ءکی کارگل جنگ کے بعدتشکیل دیئے گئے انٹیلی
جنس کے مشترکہ ٹاسک فورس کے سربراہ بن گئے۔دنیشورشرما یکم جنوری ۲۰۱۴ء
کوآئی بی چیف بننے سے قبل ادارے میں کئی اہم عہدوں پر رہے اور۳۱دسمبر۲۰۱۶ء
کوادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائرہوئے۔انہیں بھارت کی اندرونی سلامتی
سے وابستہ معاملات کاماہرتصورکیاجاتاہے۔
دنیشورشرما سے کسی بھی طرح کی کوئی مثبت امیدوابستہ نہیں کی جاسکتی کیونکہ
ماضی میں کئی مذاکرات کارنامزدکئے گئے، مذاکرات کاروں کے کئی گروپ بنائے
گئے لیکن مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے ان سے کچھ نہیں ہوسکا۔ان کی سفارشات ردّی
کی ٹوکری کی نذرہوگئیں اوریہی وجہ ہے کہ بھارت کی طرف سے مذاکرات کاروں کی
نامزدگی کشمیریوں کیلئے ہمیشہ ایک تلخ تجربہ ہی رہی اوردھوکہ دہی کی
وارداتوں کے سوااس کواورکوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔اسی لئے ضرورت اس امرکی
تھی کہ ماضی کی تمام سفارشات ہی نافذکی جائیں تاکہ نت نئے مذاکرات کاروں کی
فضول مشق کی نوبت ہی نہ آئے۔ کشمیریوں کی حالت دن بدن بسے بدتربلکہ بدترین
شکل اختیارکرچکی ہے۔کشمیری عوام بھارتی فوج کے بہیمانہ مظالم کاشکارہیں اور
مظالم کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا۔ستم بالائے ستم ان مظالم کی تعدادکے
ساتھ تنوع میں بھی اضافہ ہورہاہے۔
یہ امرقابل ذکرہے کہ کشمیرمیں۲۰۱۰ءکے ایجی ٹیشن کے بعدکانگرس کی سربراہی
والی یوپی سرکارنے مقبوضہ جموں وکشمیر میں زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ
لوگوں کے ساتھ دلیپ پڈگاؤنکرکی سربراہی میں تین مذاکرات کاروں کی تقرری کی
تھی۔انہوں نے ریاست کے درجنوں دورے کئے اور انہوں نے مفصل رپورٹ بھارتی
وزارتِ داخلہ کوپیش کی لیکن اس رپورٹ کوعملی جامہ پہنانے کے حوالے سے کوئی
ٹھوس قدم نہیں اٹھایاگیا۔تازہ مذاکرات کی نامزدگی کاایک پہلویہ بھی ہے کہ
مودی سرکارنے کشمیرکے متعلق اپنے جارحانہ طرزفکر اورطرزِ عمل کی شکست تسلیم
کرلی ہے اوربالآخر مودی سرکارنے یہ تسلیم کرلیاہے کہ کشمیرمیں اس کی
ظالمانہ طاقت کی پالیسی بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔مودی سرکاراب اس ڈگرپرآ گئی
ہے کہ مسئلہ کشمیر کوپرامن طورپرہی حل کیاجاسکتاہے نہ کہ فوجی تسلط
وجبراورمتشددانہ سلوک کے تسلسل سے۔مودی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ
مذاکرات کاسلسلہ شروع کرنے کیلئے مذاکرات کارکی نامزدگی سے ایک چیزواضح
ہوچکی ہے کہ مودی سرکارکوآخرکار تنازعۂ کشمیرکی حساس نوعیت کااعتراف
کرناہی پڑا۔یہ اعتراف مودی اوراس کے چیلے چانٹوں کی واضح پسپائی ہے جوصرف
اور صرف طاقت کے استعمال ہی پرایمان رکھتے تھے ۔بہرحال اب تمام امن پسند
حلقوں کی نظریں مذاکرات کاروں پرہیں۔وہ دیکھناچاہتے ہیں کہ وہ کس نوعیت کی
بات چیت شروع کرتے ہیں۔
مودی سرکارکی طرف سے مذاکرات کارکی نامزدگی کوکشمیری عوام دھوکہ اور فریب
پرمبنی نیاناٹک سمجھتے ہیں۔ان کاخیال ہے کہ بھارت عالمی رائے عامہ کو گمراہ
کرنے کیلئے سابق انٹیلی جنس افسرکومذاکرات کے نام پربھیج کراپنے حاشیہ
برداروں سے ملاقاتیں کرکے بیرونی دنیاکوباورکرانے کی کوشش کررہا ہے کہ
کشمیرمیں اس کے حاشیہ بردارہی اصل اورحقیقی لیڈر شپ ہے جبکہ کشمیرکابھارت
نوازٹولہ بیرونی دنیاکویہ باورکراتاہے کہ وہ کشمیرمیں قیام امن کیلئے تن من
دھن سے مصروف ہے۔دہلی سے سرینگرتک یہ سب مل کردنیاکویہ سمجھانے کی کوشش
کرتے ہیں کہ مشکل حالات کو سنبھالا دینے میں بھارت نوازوں کی خدمات
اورسرگرمیاں قابل قدرہیں۔بدقسمتی ہے کہ حلات کے جبرکی وجہ سے دنیامسئلہ
کشمیرکے حل کی بجائے کشمیرمیں نام نہادامن قائم کرنے کی خواہشمندہے اوردہلی
میں بیٹھے دنیابھرکے سفراء کشمیرکے بھارت نوازوں کو امن کی فاختائیں سمجھتے
ہیںلیکن اب صورتحال یکسربدل چکی ہے اورکشمیرکی موجودہ صورتحال نے اس طرح کے
راگ الاپنے والوں کی ہوااکھاڑدی ہے۔
پچھلے دنوں اللہ کی دی ہوئی توفیق سے میں عمرہ کی غرض سے کعبتہ اللہ کے صحن
میں موجودتھاکہ اچانک فون کی گھنٹی نے متوجہ کیاتو سرینگرسے میرے ایک
انتہائی عزیزالطاف حسین ندوی نے مجھے جناب سیدعلی گیلانی صاحب سے جوفون پر
موجودتھے،بات کرنے کوکہاتویقین آگیا کہ یہاں دعائیں کس سرعت کے ساتھ قبول
ہوتی ہیں ۔ جناب گیلانی صاحب پربھارتی نارواپابندیوں کی بناء پرکئی ہفتوں
سے ان سے بات نہیں ہو پائی تھی جس کادل کو انتہائی قلق اور تشویش بھی تھی
۔قرونِ اولیٰ کی ان نشانیوں سے جہاں ایمان میں تازگی کی حلاوت میسرآتی ہے
وہاں اس عمر میں ان کی عزیمت کودیکھ کر ارادوں کوایک نئی جہت اور طاقت کی
منزل کاسراغ ملتاہے۔بقول جناب سید علی گیلانی کہ کشمیری عوام اورحریت پسند
رہنماؤں نے مذاکرات کے بھارتی ڈھونگ اوراس مقصدکیلئے نئے مذاکرات کارکے
تعین کوحقارت کے ساتھ مسترد کر دیاہے اور دنیشورشرماکاحشر بھی راج ناتھ
سنگھ جیساہی ہونے کو ہے۔قارئین کویادہوگاکہ چندماہ قبل بھارتی وزیر داخلہ
راج ناتھ کی قیادت میں بھارتی پارلیمانی وفدکو سرینگرسے بے نیل ومرام واپس
لوٹناپڑاتھاکیونکہ اس وفدسے سرینگر میں کوئی نہیں ملاتھااس بناء پرکہ اس
وفدکے ارکان کیلئے کشمیرمیں قیادت کے دروازے مقفل پڑے تھے۔ مذاکرات ہمیشہ
اورہرفریق کی طرف سے خوش آئندسمجھے جاتے ہیں مگران کے آغازسے قبل کشمیری
قیادت کے مقفل دروازوں کو کھولنا ہوگا،نظربندیاں ختم کرناہوں گی اورقیدوبند
کی صعوبتوں سے نجات کی شروعات کرنی ہوں گی۔بھارت کی موجودہ حکومت اور
سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کویہ تلخ حقیقت تسلیم کرنے سے تکلیف ہوتی ہے کہ تنازع
کشمیر محض دہلی اورسرینگر کے مابین نہیں بلکہ اس کے حل کیلئے پاکستان سے
مذاکرات بھی ضروری ہیں جواس مسئلے کاایک اہم فریق ہے اور ستر برسوں سے ایک
لمحے کیلئے کشمیراورکشمیریوں سے الگ نہیں ہوا۔اس حقیقت کاادراک کرتے ہوئے
فاروق عبداللہ کی طرح سنیئربھارتی سیاستدان بھی دہلی کو مشورہ دے رہے ہیں
کہ وہ پاکستان کوفوری مذاکراتی عمل میں شامل کرے۔
کشمیرکی موجودہ فضاء مذاکرات کیلئے سازگارنہیں اس لیئے کشمیرکے اندرتمام
فریقوں نے بھارت کے تازہ ناٹک کومسترد کردیاہے مگربعض معتدل درمیانہ رواہل
فکرونظرکی یہ سوچ سامنے آئی ہے کہ درپیش صورتحال کے باوجود کشمیری قیادت کو
اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے حکمت عملی مرتب کرنی چاہئے۔ظاہرہے کہ دہلی
اورسرینگرکے درمیان اعتماد کا شدید بحران پایاجاتاہے اوراسی طرح اسلام
آباداوردہلی کے مابین بھی ماحول کشیدہ ہے لیکن اس کے باوجودمذاکراتی عمل سے
کلی طورپر احتراز اور گریز مفید نہیں ہے۔ اس صورت میں تو بھارت نوازقیادت
اس عمل میں شریک ہو کر پرانی رام کہانی کا ہی اعادہ کرتی رہے گی۔ اگرحریت
کانفرنس یاآزادی پسند قیادت مذاکراتی عمل کے اس مرحلے پرمذاکرات کاحصہ نہیں
بنتی یااسے دور رکھنے کاسامان کیاجاتاہے توپھربھی کشمیرکے ممتازلوگوں کواس
عمل میں شرکت کرلے اپنانقطہ نظر پیش کرناچاہئے۔
توقع کی جانی چاہئے کہ یہ نقطہ نظربھی کشمیری عوام کی امنگوں اوراقوام
متحدہ کی ان قراردادوں کے مطابق ہواوراس سلسلے میں ممتازکشمیریوں سمیت حریت
کانفرنس کے رہنماؤں بالخصوص جناب سیدعلی گیلانی کے وجودکوایک نعمت سمجھتے
ہوئے اس نیت سے مثبت بات چیت کاآغازکیاجائے کہ اس خطے کومکمل تباہی سے
بچانے کیلئے ہمارے پاس یہ آخری موقع ہے۔دنیشور شرما اگر واقعی اس معاملے
میں اگرکوئی تایخی کردارسرانجام دینے کیلئے سنجیدہ ہیں تو انہیں فی الفورسب
سے پہلے حریت کے تمام رہنماؤں پرلگائی ہوئی پابندیاں ختم کرکے انہیں مل
بیٹھنے کاموقع فراہم کریں اورکشمیر سے سیکورٹی فورسزکی موجودگی کوعملی
طورپرواپسی کاباقاعدہ ٹائم ٹیبل کااعلان کرناچاہئے،جونہی سیکورٹی
فورسزکاانخلاء شروع ہوگا تو اس کے بعدحریت کانفرنس اورمجاہدین سے مذاکرات
کی کامیابی کاسفرشروع ہوسکتاہے وگرنہ''ڈھاک کے وہی تین پات ''کی طرح ناکامی
ونامرادی پھرسے ان مذاکرات کامقدرہوگی اورکشمیریوں کے اعتمادکودھوکہ دینے
کانیاحربہ سمجھ کر اس عمل کوبھی مستردکردیاجائے گا اور پوری دنیاپرواضح
ہوجائے گاکہ اہلیانِ کشمیرمذاکرات سے یکسرگریزاں نہیں ہیں ۔بھارتی سرکارنے
عالمی برادری کے سامنے کشمیریوں کورجعت پسنداور مذاکرات مخالف ثابت کرنے
کیلئے جو پروپیگنڈہ کررکھاہے وہ نہ صرف بھارتی سرکارکواقوام عالم میں
تنہاکردے گا بلکہ پوری دنیاپریہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے گی
کہ مودی سرکارکے ترکش میں جتنے بھی تیرہیں وہ تیربہ ہدف کامصداق ہوہی نہیں
سکتے۔یادرہے کہ ماضی کے اس طرح کے تجربات خوشگوارنہیں رہے اورکانگرس کی
حکومت نے ڈاکٹررادھاکماراوردو ممتازبھارتیوں کو کشمیر کیلئے مذاکرات
کارمقررکیالیکن انہوں نے جورپورٹ مرتب کی اوراس پر سفارشات پیش کیں ،ان
پرآج تک عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟ اقوام عالم کوان حقائق کے بارے میں بھی
مطلع کرناضروری ہے۔ |