شہداے منگ اور شہدائے کشمیرکا خون رائیگان نہیں جائے گا۔
دیکھنا یہ ہے کہ آج کون شہداء کے مشن پر چلنے کا عزم رکھتا ہے۔کون کسی لالچ
اور حرص کے بغیر مخلصانہ طور اس قافلے میں شامل ہوتا ہے۔شہداء کو زبردست
خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ ہو گا کہ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق
تحریک آزادی کشمیر میں حصہ لے۔ انفرادی سے بڑھ کر اجتماعی کوششیں زیادہ
نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہیں۔ اﷲ شہدائے منگ سردار شمس خان، سردارملی خان،
سردارسبز علی خان، سردارمستانہ خان، سردارباز خان، سرداربنگش خان، سردار
محمد یار خان، سردار مرید خان، سردار راجولی خان، سردارملکوں خان سمیت تمام
شہداء کی قربانیاں قبول فرمائے۔
کل پر اپنا آج قربان کرنے والوں کویاد رکھنے اور ان کے مشن پر چلنے والی
قومیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ مگر یہ قوم اپنے شہداء کو یاد نہ کر سکی اور نہ
ہی ان کی قربانیوں کا ذکر کیا جا سکا۔ شہداء کے مشن کے یہ دعویدار تحریک کے
نام پر سیر و تفریح اور عیش و عشرت کی زندگی پر ہی یقین رکھتے ہیں۔ اس کا
اندازی یوں لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس 14نومبر گزرکیا۔ مگرآزاد
کشمیرمیں تحریک آزادی کے لئے سب کچھ نچھاور کر دینے والوں کو کسی نے یاد نہ
کیا۔ کسی جگہ سے شہداء کی یاد میں کسی تقریب کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
اس بارے میں کوئی بیان بھی نظر سے نہیں گزرا۔ کشمیر کے اخبارات بیانات سے
بھرے ہوتے ہیں۔ یہاں انوسٹی گیشن کے بجائے شہ سرخیاں بھی بیانات پر مبنی
ہوتی ہیں۔ کوئی ایک اپنی پسند یا مفاد کی خبر جاری کرے تو تمام اخبارات
اپنے کریڈٹ سے نکتہ بہ نکتہ وہی خبر شائع کر دیتے ہیں۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ
یہ خبر کس کی اختراع ہے اور کہاں سے جاری ہوئی۔یہاں کے عوام بلا شبہ ہمدرد
اور مخلص ہیں۔ مگر انہیں فکر معاش میں پھنسا دیا گیا ہے۔ فیکٹری، صنعت ،
پیداواری یونٹس کا فقدان ہے۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ جو کھیتی باڑی کر سکتے
ہیں، وہ اپنی زمینیں بنجر چھوڑ کر راجہ بازار میں بار برداری کو ترجیح دیتے
ہیں۔ ایسے میں شہدائے منگ جیسے ایام آتے ہیں اور نکل جاتے ہیں لیکن کسی کو
خبر تک نہیں ہوتی۔باغ میں سی ایم ایچ کے قیام کا اعلان اچھی خبر ہے۔
اٹھمقام میں بھی سی ایم ایچ کی ضرورت ہے۔امید ہے اس طرف بھی توجہ دی جائے
گی۔
14نومبر1832کو سکھوؤں کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں کی منگ میں
زندہ کھالیں کھنچوائی گئیں۔ پونچھ کے لوگ شروع سے بہادر اور جفاکش گزرے ہیں۔
کبھی یہ لوگ بھی دیگر کی طرح آزادی پسند اور دلیر تھے۔ کبھی یہ غلامی کو
قبول نہ کرنے کا عزم رکھتے تھے۔ سکھوؤں کے مظالم کے خلاف یہ سینہ سپر ہو
گئے۔ اس تحریک کی کمان اس وقت شمس الدین مجاہد کے ہاتھ میں تھی۔ وہ کسی کی
فنڈنگ کے انتظار میں نہیں رہے اور نہ ہی کیس این جی او کا سہارالیا۔ انھوں
نے چندے بھی وصول نہیں کئے۔ وہ سکھوؤں کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنے
کی آڑ میں سیر و تفریح اور شاپنگ کے لئے بھی نہیں نکلے۔نہ ہی زکام کے علاج
کے لئے سرکاری خزانے کے خرچ پر بیرون ممالک گئے۔ بلکہ وہ مخلص مجاہد تھے۔
گھر سے کھایا، زاد راہ لیا اور اﷲ کی رضا کے لئے نکل پڑے۔ کسی پر احسان
نہیں جتایا۔ قربانی کا صلہ بھی نہیں مانگا۔ کریڈٹ بھی نہیں لیا۔یہ تھے شہید
ملی خان اور سبز علی خان جیسے عظیم فرزندان کشمیر۔ جن کے ورثاء نے
اپنیشہداء کے نام پر بچوں کو ڈاکٹرانجینئر بھی نہیں بنوایا۔کبھی یہ فہرست
بھی منظر عام پر آئے گی تو دنیا کو پتہ چلے گا کہ اس بہتی گنگا میں کس کس
نے کیسے ہاتھ صاف کئے اور لاوارث مستحقین کو کن بہانوں سے نظر انداز کر دیا۔
جب کشمیری رنجیت سنگھ کے خلاف میدان میں آئے تو اس وقت بھی ضمیر فروش موجود
تھے۔ لیکن ان کی تعداد کم تھی۔ گلاب سنگھ کو اس جدوجہد کو کچلنے کا ٹاسک
ملا۔ وہ رنجیت سنگھ کی فوج میں جنرل تھا۔ گلاب سنگھ کی فوج نے پونچھی عوام
کا قتل عام شروع کر دیا جس طرح آج بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی میں
مصروف ہے۔ اسے کشمیریوں کو ختم کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ گلاب سنگھ نے
نوجوانوں کو پکڑ کر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے۔ گردنیں اڑا دیں۔ سر قلم کر
کے لٹکا دیئے۔گھر جلا دیئے۔ لوٹ مار کی۔ لیکن بدترین مظالم کے باوجود وہ
جدوجہد کو کچلنے میں ناکام ہو گیا۔ منگ میں سردار ملی خان اور سبز علی خان
کی زندہ کھالیں کھینچ لیں۔ یہ دردناک منظر تھے، کھالیں کھینچنے کے بعد
ڈوگرہ اور سکھ فوج نے ان نوجوانوں کی لاشیں لٹکا دیں۔ کہتے ہیں وہ درخت آج
بھی موجود ہے۔ یہاں پر اب یادگار تعمیر کی گئی ہے۔
راولپنڈی سازش کیس میں منگ کے ہی کرنل خان محمد خان کا نام لیا جاتا ہے
جنھوں نے تحریک آزادی کی جنگ لڑی، عالمی جنگ دوم میں بھی شرکت کی۔ بعد ازاں
دوسرے راستے پر چل پڑے۔ افسوس ہے کہ پونچھ کے حکمران سردار شمس خان نے سکھ
راج اور مظالم کے خلاف بغاوت کی تو کہتے ہیں سردار نور خان نے غداری کرتے
ہوئے انہیں مہاراجہ کے حوالے کر دیا۔ تحریک میں سدھن اور ملدیال ہی نہیں
بلکہ ہر کسی نے قربانیاں پیش کیں۔ آج ان عظیم شہداء کے مشن پر چلنے کا وقت
ہے مگر یہاں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لوگوں کو علاقوں اور برادریوں میں
تقسیم کیا گیا ہے۔ لوگ ظاہری اور باطنی طور پر متصادم ہیں۔ ایک کشمکش ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ دنیا داری کے لئے لوگ آپس میں سلا دعا کرتے ہیں۔ ورنہ دن
بدن ان میں نفرتیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ سب کا مقصدایک ہی ہے۔ زاتی مفاد،
کرسی، اقتدار، مراعات۔ وہ بھی تھے جنھوں نے آزادی کے لئے، اتحاد اور اتفاق
کے لئے خود کو قربان کر دیا۔ ہم آج سب کو اپنے مفاد پر قربان کر رہے ہیں۔
نئی نسل تعلیم یافتہ ہے۔ اس سے توقع ہے کہ یہ زات، برداری، قبیلوں، علاقوں
اور ان ازموں کے بت پاش پاش کر دے گی۔ جو زمانہ جاہلیت کی یادگاریں اور
نشانیا ں ہیں۔ اسلاف اور بزرگوں کی اعلیٰ خدمات اور قربانیوں پر فخر کرنے
یا اکڑنے کے بجائے وہ قومیں تاریخ میں نام پیدا کرتی ہیں جو ہر وقت کچھ
مثبت کر گزرنے اور تاریخ کو رقم کرنے میں یقین رکھتی ہیں۔ |