کرپشن ،بدیانتی اوررشوت ستانی قوموں کوتباہ اورمعاشروں
کوکھوکھلاکردیتی ہے۔کرپشن گہن ہے جومعاشروں کوچاٹ جاتی اورتباہ کردیتی
ہے۔کسی بھی ملک کی تعمیروترقی اورقوم کی فلاح وبہبودکے لئے کرپشن کاازالہ
ازحدضروری ہے۔کرپشن کے متضادالفاظ ہیں دیانتداری وایمانداری۔اسلام نے
دیانتداری اورایمانداری کے وصف پربہت زوردیاہے۔سچے اورایماندارتاجرقیامت کو
دن انبیاء کا ساتھ نصیب ہوگا۔اس سے معلوم ہواکہ کاروباری ،ملکی
اورگھریلومعاملات میں دیانتداری جہاں انبیاء کاوصف ہے وہاں یہ عبادت لبھی
ہے۔رسول ﷺ نے ساڑھے چودہ سوسال پیشترمدینہ کی بستی میں جو معاشرہ اورنظام
حکومت قائم کیااس کی بنیادسچائی،ایمانداری اوردیانتداری پر تھی۔خودرسول
مقبول ﷺ نے اس ضمن میں ایسی اعلی اورشاندارمثالیں قائم کیں کہ دنیاان کی
نظیرپیش کرنے سے قاصرہے۔فریاماکہ اگرمیری بیٹی لخت جگرفاطمہ رضی اﷲ عنہابھی
کسی کاحق غصب کرے تومیں محمدﷺ اس کاہاتھ کاٹ دوں۔تاریخ شاہدہے کہ مسلمان جب
تک دیانتداری وایمانداری کے ان اوصاف پرقائم رہے سربلندوسرفرازکامیاب
وکامران رہے۔اورجب مسلمان ان اوصاف سے عاری ہوئے توآسمان نے ان کوزمین پردے
مارا۔ 18ویں صدی کے وسط میں محمدبن سعودنے اپنے وقت کے عظیم مصلح محمدبن
عبدالواب کے تعاون سے درعیہ نامی بستی میں ایک ایسا ہی معاشرہ قائم کیاجس
کی بنیاددین محمدی،سچائی،ایمانداری اورخوف خداپرتھی۔ایک وقت آیاجب یہ
معاشرہ پھلتاپھولتاہواایک حکومت کی شکل اختیارکرگیا۔اس کے بعداس حکومت نے
کئی مدوجزردیکھے آج یہ معاشرہ مملکت سعودی عرب کے نام سے دنیاکے نقشے
پرقائم ہے۔یہ بات طے ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ قوموں میں خرابیاں درآتی ہیں
ان خرابیوں کی اصلاح ضروری ہوتی ہے۔جیساکہ سعودی عرب اس وقت ایک خاص حالات
سے گزررہاہے۔کچھ خرابیاں تھیں جن کاآپریشنضروری تھاسوسعودی ولیعہدمحمدبن
سلمان نے اس مقصد کی خاطرجرأتمندانہ قدم اٹھایاہے۔اس سلسلہ میں سعودی عرب
کے اٹارنی جنرل شیخ سعود المجیب کا کہنا ہے کہ مملکت میں حالیہ کچھ عشروں
کے دوران ایک کھرب ڈالر کی کرپشن کی گئی ہے جس کی بنا پر انسدادِ بدعنوانی
مہم کے تحت 201 افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ شیخ سعود
المجیب نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ انسدادِ بد عنوانی مہم کے تحت کی جانے
والی گرفتاریوں کے باعث سعودی عرب میں عام کاروباری سرگرمیاں اثرانداز نہیں
ہوئیں ، مہم کے تحت صرف گرفتار افراد کے ذاتی اکاونٹس ہی منجمد کیے گئے ہیں۔
شیخ سعود المجیب نے کہا کہ حال ہی میں قائم کی جانے والی انسدادِ بدعنوانی
کمیٹی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سربراہی میں بہت متحرک ہے۔ کمیٹی کے
پاس اگلی تحقیقات کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہے اور اس نے منگل کے روز بعض
بینک اکاوئنٹ منجمد کر دیے ہیں۔اس کمیٹی میں اب تک 208 افراد کو تفتیش کے
لیے بلایا گیاجن میں سے 7 کو چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ 201 افراد کو حراست میں
لے کر تفتیش کی جا رہی ہے۔سعودی عرب میں جاری حالیہ انسدادبدعنوانی مہم شاہ
سلمان بن عبدالعزیزکی ایماپرشروع کی گئی ہے انہوں نے اینٹی کرپشن کمیٹی بنا
کر ملک میں کرپشن کے خلاف تاریخی کریک ڈاؤن کیا ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن
سلمان کو اینٹی کرپشن کمیٹی کا سربراہ مقرر کرنے کے ساتھ ہی انتہائی اہم
شخصیات کی گرفتاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ برطرف کی گئی شخصیات میں نیشنل
گارڈز کے سربراہ شہزادہ متعب بن عبداﷲ بھی شامل ہیں۔ سابق بادشاہ عبداﷲ کے
بیٹے کی جگہ شہزادہ خالد ایاف کو نیشنل گارڈز کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا
ہے۔ وزیر معیشت عادل فقیہہ کو بھی برطرف کر کے التویجری کو قلمدان سونپ دیا
گیا ہے۔ معمر التویجری وزیر معیشت کے نائب اور حالیہ مالیاتی پالیسی کی
تشکیل میں اہم کردار کے حامل تھے۔ سعودی بحریہ کے کمانڈر عبداﷲ السلطان کو
بھی عہدے سے ہٹا کر وائس ایڈمرل فہد الفاضیلی کا ایڈمرل کی حیثیت سے تقرر
کر دیا گیا ہے۔ شاہی خاندان کے گرفتار تین افراد میں سے ایک شہزادے کو
اسلحہ کی غیرقانونی تجارت کرنے، دوسرے کو منی لانڈرنگ اور تیسرے شہزادے کو
جعلی ٹینڈر اور مالی خوردبرد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ سعودی
بادشاہ نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سربراہی میں کمیٹی بنائی ہے جو
ملزموں کی نشاندہی اور جرائم کی تحقیقات کرے گی۔ شاہی فرمان کے مطابق کرپشن
کو جڑ سے نہ اکھاڑا گیا اور کرپٹ عناصر کا احتساب نہ ہوا تو مادر وطن نہیں
رہے گا۔ اینٹی کرپشن کمیٹی کو ملزمان کی گرفتاری کے احکامات جاری کرنے کا
بھی اختیار حاصل ہے جبکہ ملزموں کے اثاثے منجمد اور ان کے بیرون ملک سفر پر
پابندی بھی عائد کی جا سکے گی۔ شاہی فرمان کے مطابق کمیٹی بعض افراد کی
جانب سے ذاتی مفادات کو فوقیت دینے اور عوامی فنڈ چوری کرنے کے سبب بنائی
گئی۔ سعودی وزارت اطلاعات و نشریات کے مطابق مملکت کی تاریخ میں بے نظیر
انسداد بدعنوانی مہم کے تحت 11شہزادوں ، 4موجودہ وزراء اور دسیوں سابق
وزراء نیز سرمایہ کاروں کو حراست میں لیا گیاہے۔ خادم حرمین شریفین شاہ
سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے انسداد بدعنوانی اعلیٰ کمیٹی کی تشکیل کے
چند گھنٹے بعد ہی بدعنوانی میں ملوث شخصیات کو حراست میں لے لیا گیا۔ کمیٹی
کا سربراہ ولی عہد شہزاد ہ محمد بن سلمان کو بنایا گیا ہے۔ انسداد بدعنوانی
مہم کے تحت 11شہزادے اور 38موجودہ اور سابق وزراء اور نائبین حراست میں لئے
گئے۔ اس اقدام نے بدعنوانی اور رشوت کا لین دین کرنے والے مافیا کے ایوانوں
کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ شاہ سلمان کے اس اعلان نے کہ وہ بدعنوانی کی بیخ
کنی اصلاح کی تلوار سے کرینگے اور انکے اس عزم نے کہ ’’ہم اﷲ کے معاملے میں
کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہیں لائیں گے اوریہ کام غیر
متزلزل عزم اور پختہ ارادے کے ساتھ انجام دینگے‘‘۔ معاشرے میں اطمینان کی
لہر دوڑا دی۔ حراست میں لی جانے والی مندرجہ ذیل شخصیات کے نام سامنے آچکے
ہیں ان میں شہزادہ ولید بن طلال،شہزادہ متعب بن عبداﷲ،شہزادہ ترکی بن عبداﷲ(سابق
گورنر ریاض)،شہزادہ ترکی بن ناصر (سابق سربراہ محکمہ موسمیات)،شہزادہ فہد
بن عبداﷲ بن محمد (سابق نائب وزیر دفاع)،خالد التویجری(سابق سربراہ ایوان
شاہی)،محمد الطبیشی(سابق سربراہ ایوان شاہی)،عمرو الدباغ (سابق گورنر
ساجیا)،سعود الدویش (سابق سربراہ ایس ٹی سی)،صالح کامل اور انکے بیٹے عبداﷲ
و محی الدین،الولید البراہیم (این بی سی گروپ کے مالک)،عادل فقیہ(سابق وزیر
اقتصاد و منصوبہ بندی)،ابراہیم العساف (سابق وزیر خزانہ)،عبداﷲ السلطان (بحریہ
کے سبکدوش کمانڈر)،خالد الملحم (السعودیہ کے سابق ڈائریکٹر)،بکر بن
لادن(چیئرمین بن لادن گروپ)اور سرمایہ کار محمد العمودی شامل ہیں۔سعودی عرب
ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے اور حقیقی ترقی لانے کیلئے وقت پر
سبقت لیجانے کی کوشش کرنے لگا۔ سعودی عرب کو احساس ہے کہ جب تک بدعنوانی کا
خاتمہ نہیں ہوگا تب تک نہ اسکے یہاں حقیقی ترقی ہوگی اورنہ ہی وہ ترقی
یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگا۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن
عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنی تمام تر توجہ کا محور
بدعنوانی کے انسداد اور اسکے خاتمے کو بنالیا۔ دونوں نے یہ نصب العین اس
وجہ سے اپنایا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ بدعنوانی سیاسی ، اقتصادی،
سماجی اور سلامتی کے نظام کیلئے خطرناک ہے۔ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے
ہمیشہ دو ٹوک لہجے میں یہ بات کہی کہ وہ بدعنوانی کے انسداد اور بدعنوانوں
کے تعاقب کے سلسلے میں سخت فیصلہ کن اقدامات کے حامی ہیں۔شہزادہ محمد بن
سلمان کے زیر صدارت اعلیٰ کمیٹی برائے انسداد بدعنوانی کی تشکیل سے متعلق
شاہی فرامین کے بموجب احتساب سے اب کوئی شخص بھی نہیں بچے گا۔ جس کیخلاف
بھی بدعنوانی کا جرم ثابت ہوگاوہ شہزادہ ہو یا وزیر ہو یا اعلیٰ عہدیدار ہو
اْسے اپنے کئے کی سزا ملے گی۔ سعودی عرب مذہبی قیادت و سیادت کا پابند ہے
او راسلام بدعنوانی کو اصلاح کے منافی سمجھتا ہے۔ اسلام میں بدعنوانی حرام
ہے۔ عدالتی اعتبار سے جرم ہے۔ بدعنوانی کا انسداد سماجی انصاف کی بنیادی
ضرورت ہے۔ بدعنوانی کا انسداد ضروری ہے اسلام نے قومی مفاد کیلئے اس کاحکم
دیا ہے۔اسلام نے بدعنوانی کے خاتمے اور اسکے انسداد کی تاکید کی ہے۔
بدعنوانی کا انسداد دہشتگردی کے انسداد سے کم اہم نہیں۔سعودی عرب کے ادارہ
امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے انسداد بدعنوانی کیلئے اعلیٰ کمیٹی کے
قیام کے شاہی فرمان کا خیرمقدم کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس سے عدالت کی
بنیادی راسخ ہونگی اور حق کو حق ثابت کرنے کا نظام مضبوط ہوگا۔ ادارہ کے
ڈائریکٹر جنرل شیخ ڈاکٹر ترکی الشلیل نے توجہ دلائی کہ ہماری قیادت سعودی
عرب کو بدعنوانی اور بدعنوانوں کیخلاف فیصلہ کن جنگ کرنے والی ریاستوں میں
سرفہرست لانے کیلئے کوشاں ہے۔ ہماری قیادت بدعنوانوں کیخلاف بے رحم
کارروائی اور ان کی جڑیں کاٹنے کا عزم کرچکی ہے۔ شاہی فرمان کی بدولت
عنوانی کے سوتے خشک ہونگے ، قومی مفاد حاصل ہوگا ، سرکاری خزانے کی حفاظت
ہوگی۔ آئندہ کسی بھی عہدیدار کو اپنے اختیارات غلط طریقے سے استعمال کرنے
کی ہمت نہیں ہوگی۔ سعودی اٹارنی جنرل شیخ سعود المعجب نے واضح کیا ہے کہ
بدعنوانی کے مقدمات میں زیر حراست کسی بھی شخص کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی
رعایت نہیں ہوگی۔ عہدہ یا سماجی حیثیت کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی
معاملہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ جو لوگ بدعنوانی کے الزام
میں زیر حراست ہیں ان کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو دیگر افراد کو دیئے جاتے
ہیں۔ ایک عام سعودی شہری ، شہزادے ، وزیر اور اعلیٰ عہدیدار کے حقوق میں
کوئی فرق نہیں۔ولیعہدمحمدبن سلمان نے کرپشن کے خلاف جومہم شروع کی ہے اس سے
امیدکی جاسکتی ہے کہ سعودی معاشرہ ایک بارپھرتعمیروترقی کی راہ پرگامزن
ہوجائے گا۔ |