کسی بھی سیاسی جماعت کا بنیادی مقصد ملک میں اقتدار کا
حصول اور حکمرانی ہوتی ہے۔یہ دوسری بات ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو عوام کی
فلاح و بہبود کا غم کھائے جاتا ہے ،وہ اپنے منشور میں تعلیم، صحت، روزگار،
بنیادی سہولیات، یہاں تک کہ روٹی ، کپڑا اور مکان جیسی سہولیات فراہم کرنے
جیسی جاذب نظر باتیں شامل کرتی ہیں، کوئی اسلامی نظام اور کوئی لبرلز اور
کوئی اشتراکیت کی جانب مائل ہوتا ہے ۔ اگر ایسا نہ کریں اور صاف صاف کہہ
دیں جو ان کے دل میں ہوتا ہے کہ ہمارا مقصد تو ملک میں حکومت کرنا ہے،
اقتدار حاصل کرنا ہے، حکمراں بننا ہے ، دولت کمانا ہے، بنک بیلنس بنانا ہے،
لندن میں فلیٹس ، سرے محل اور آفشور کمپنیاں بنانا ہے تو عوام انہیں کیسے
منہ لگائیں گے۔ سچ بات یہ ہے کہ ملک میں ایک سیاسی پارٹی(جماعت اسلامی) کے
سوا ہر پارٹی اپنے بانی یا قائد کے گرد گھومتی ہے یا پھر مَورُوثیت چل رہی
ہوتی ہے ۔ بھٹو کے بعدبے نظیر، زرداری ، بلاول۔ ولی خان کے بعداسفند یار
ولی ، مولانا مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، نواز شریف کا حال سب
کے سامنے ہے ، نااہلی کو اپنی اکثریت سے کس طرح قانون تبدیل کرایا تاکہ
پارٹی سربراہ رہ سکیں ) واضح مثالیں ہیں۔ سیاسی جماعت کو اگر مقبولیت حاصل
ہوجاتی ہے تو جماعت کا لیڈر اپنے آپ کو مضبوط سے مضبوط تر بنا تا چلا جاتا
ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اسے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اس کی جماعت اُس
کے بغیر نہیں چل سکتی، وہ اس کا مالک و مختار کل ہے۔خواہ لوگ اُسے پسند نہ
بھی کریں ، عدالت اُسے تاحیات نا اہل قرار ہی کیوں نہ دیدے۔ پارٹی کے لوگ
اُسے پارٹی سے بے دخل ہی کیوں نہ کردیں۔ وہ تمام طرح کے حربے استعمال کر کے
جماعت کا سربراہ رہنا لازمی تصورکرتا ہے۔ بعض جماعتیں اتنی طاقت ور نہیں بن
پاتیں کہ وہ تن تنہا اقتدار حاصل کر پائیں ،وہ اتحاد میں شامل ہوکر اقتدار
میں شراکت کی کوشش کرتی ہیں ۔جیسے مرکز میں مولانا فضل الرحمٰن ، خیبر
پختون خواہ میں جماعت اسلامی اتحادی کی حیثیت سے اقتدار کے مزے لے رہی ہیں۔
مختصر یہ کے سیاسی اتحاد انتخابات سے قبل حصول اقتدار کے لیے، انتخابات کے
بعد اقتدار پر براجمان حکمراں جماعت کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے معرض
وجود میں آتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ سیاسی اتحاد وں سے بھری پڑی ہے۔
اپنی یاد داشت کو پیچھے کی جانب جہاں تک میں لے جا سکتا ہوں تو مجھے جنرل
ایوب خان کی حکمرانی کا دور یاد ہے۔ یہ میرے ا سکول کا زمانہ تھا، میں پی
اے ایف ماری پور جو اب بیس مسرور کہلاتا ہے کے سرکاری اسکول واقع کیمپ نمبر
2میں پڑھا کرتا تھا۔ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ایوب خان نے 1964میں
صدارتی انتخابات منعقد کرائے۔ مقابلے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی
ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔ ایوب خان کے
مقابلے میں ’’متحدہ اپوزیشن‘‘ کے نام سے سیاسی اتحاد قائم ہوا۔ مقابلہ ایوب
خان کے گلاب کے پھول اور محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابی نشان لالٹین کے
درمیان ہوا، اہل کراچی نے تو ایوب خان کے گلاب کے پھول کو اپنے سینے پر سجا
نے سے صاف انکار کردیا اور لالٹین کی مدھم روشنی کو ہی دل و جان سمجھا لیکن
فوجی حکمران کے سامنے بھلا لالٹین کی مدھم روشنی کہا روشن رہ سکتی تھی ایوب
خان کا گلاب کا پھول وقتی طور پر تو اقتدار کے ماتھے کا جھومر بن گیا پھر
رفتہ رفتہ پتی پتی ہوا اورخاک میں مل گیا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم
لالٹین والا بیج لگا کر ، جلسے اور جلوسوں میں مادر ملت کے نام کے نعرے لگا
یا کرتے تھے۔اس دورکے معروف نعروں میں ’’ایک شمع جلی جل جانے کو ، ایک پھول
کھلا مرجھانے کو‘‘ اور ’’ملت کا محبوب ۔ ایوب ایوب‘‘تھے۔ سیاسی اتحاد اس سے
پہلے بھی بنے تھے۔ ان کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے جیسے 1952میں دو سیاسی
پارٹیوں کے بیچ اتحاد بنا، 1953میں چار پارٹیوں کا اتحاد ’’دی یونائیٹڈ
فرنٹ‘‘ بنا جو مسلم لیگ کے خلاف بنا تھا، یہ وہ دور تھا جب پاکستان دو حصوں
مشرقی اور مغربی پاکستان پر مشتمل تھا۔ نواب زادہ نصراللہ خان سیاست میں
اچھی شہرت کے مالک سیاست دانوں کو ملانے اور اتحاد قائم کرنے میں شہرت
رکھتے تھے۔ ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ کے نام سے ایک اتحاد 30 اپریل
1967میں قائم ہوا۔ سیاست آگے بڑھی ،1971میں ملک دو لخت ہوا، بھٹو صاحب
اقتدار میں آئے ، 1977ء کے انتخابات میں بھٹو صاحب کے مقابلے میں 9ستارے
میدان میں آگئے ، یہ نو ستارے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا جو
’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ پی این اے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس اتحاد کا
مقصد ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا تھا۔ بھٹو صاحب نے ان نو ستاروں کو
شکست دی،یہاں بھی اہل کراچی نے پی این اے کے انتخابی نشان ’چابی‘ کو سینے
سے لگایا۔یہ دور ہماری جوانی کا دور تھا ، پی پی سے شروع دن سے ہی رغبت
نہیں تھی ، چنانچہ نو ستاروں کے ساتھ تھے، آئے گا بأی آئے گا اسلامی نظام
آئے گا جیسے نعرے، چابی جنگ کا تالا کھولے گی،اس کے جواب میں پیپلز پارٹی
کا نعرہ تھا ’’روٹی کپڑا اور مکان، اسلام ہمارا مذہب، جمہوریت ہماری سیاست،
سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سر چشمہ عوام‘‘ ہو کرتا تھا۔ اس دور میں
حبیب جالب کی نظمیں بہت مشہور ہوئیں، پی این اے بھٹو صاحب کے اقتدار کو
سرنگوں کرنے میں عمل پیرا رہی ، یہاں تک کے پھر ملک میں فوجی انقلاب آگیا
اور جنرل ضیاء الحق ملک کے سربراہ بن گئے۔ضیاء الحق کے لیے ان کے نام لیوا
یہ نعرہ بلند کیا کرتے تھے ’’مرد مومن مرد حق ضیاء الحق ضیاء الحق‘‘۔ ملک
میں جمہوری قوتیں بدستور متحرک رہیں 1981ء میں ’’ایم آر ڈی‘‘ قائم ہوئی، اس
میں 10جماعتیں شامل تھیں۔ اب ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ بنا، 1988کے انتخابات
سے قبل ’’اسلامی جمہوری اتحاد ‘‘ آئی جی آئی معرض وجود میں آیا ۔1990ء میں
جو انتخابات ہوئے ان میں دو اتحاد آمنے سامنے تھے ایک’’ آئی جے آئی ‘‘ جس
کی قیادت نواز شریف کے ہاتھ میں تھی اور ’’پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس‘‘ جس کی
قیادت بے نظیر کے پاس تھی۔ پھر 1997ء میں نواب زادہ نصراللہ خان کی قیادت
میں ’’گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ‘‘ تشکیل پاتا ہے ، یہ نواز شریف کو گرانے
کے لیے تھا۔ اب پرویز مشرف کا دور شروع ہوتا ہے ۔ جمہوریت کی بحالی کے لیے
’’تحریک بحالی جمہوریت‘‘ یعنی اے آرڈی کا قیام عمل میں آیا، 2002ء کے
انتخابات میں ’’متحدہ مجلس عمل ‘‘ ایم ایم اے قائم ہوئی جو انتخابات کے بعد
پسِ پردہ چلی گئی تھی، اب پھر سے اس نے سانسیں لینا شروع کردی ہیں۔ پرویز
مشرف نے جو الیکشن کرائے اور اس کے بعد کے سیاسی دور میں کوئی سیاسی اتحاد
نہیں بنا۔ موجودہ حالات میں جب کے نواز شریف تا حیات نا ا ہل ہوچکے، زرداری
صاحب کی پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے، عمران خان
کی تحریک انصاف ملک میں سیاسی جوہر دکھارہی ہے۔ کراچی کی دو سیاسی جماعتوں
نے اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی یا ان کا اتحاد کرانے کے احکامات جاری ہوئے
، بد قسمتی سے یہ اتحاد ایک رات ہی چل سکا صبح ہوتے ہی وم توڑ گیا۔
پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف بیرون ملک رہتے ہوئے اور غداری کے
مقدمے کا سامنا کرتے ہوئے اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ
فارم سے ایک سیاسی اتحاد بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ 23جماعتی اتحاد کا اعلان
ہوا ۔طوالت کے پیش نظر میں نے ماضی میں بننے والے اتحادوں کی سیاسی فتوحات
یا ناکامیوں کا ذکر نہیں کیا۔ ہلکی سے ایک جہلک سیاسی اتحادوں کی دکھانے کی
کوشش کی ہے۔ برلن میں مقیم فیس بک کے دوست سرور غزالی کی یہ طنز یہ تحریر
پڑھیے جو مزاحیہ ادب کے ساتھ ساتھ طنزکا بہترین نمونہ ہے۔سر ور غزالی لکھتے
ہیں ’’نوشین تم سیاسی پلاؤ پکارہی ہو ذرا دھان سے کُل 23مصالحے ڈالنا۔ امی
نے نوشین کو یاد دہانی کرائی ۔ مگر امی مصالحے تئیس عدد تو ہیں نہیں۔ نوشین
بولی میں نے تمام پھینک کر مارنے والے اجزا ء مثلاً آلو، گوبھی، ٹنڈے،
ٹماٹر، انڈے، اخروٹ، سب ہی کچھ تو ڈال دیا ہے ۔ اب ثابت ناریل ہی باقی بچا
ہے کہیں تو وہ بھی ڈال دوں مگر کہیں سیاسی پلاؤ کی تقسیم کے دوران ناریل
سروں پر نہ لگیں ایسا ہوا تو پھر بڑا سرپھٹول ہوگا‘‘۔ (۱۱نومبر۲۰۱۷ء) ۔
واقعی کچھ ایسا ہونے کے ہی آثار ہیں ، آج ہی ان 23میں سے دو جماعتوں نے
اعلان کردیا ہے کہ ہمیں تو معلوم بھی نہیں ، نہ ہی ہمارا کوئی نمائندہ اس
اجلاس میں شریک ہوا۔یہ تو معمول کی بات ہے، دو نکلے ہیں تو کراچی سے دو کے
شامل ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ اس طرح کے اتحادوں میں آمد جامد تو لگی رہے
گی۔ سوچیں کہ جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتے اقتدار کے لیے
قائم ہونے والے اتحاد میں چوڑے ہوکر ساتھ ساتھ بیٹھ جاتے ہیں ، ساتھ ساتھ
چلتے ہیں۔ دوسری جانب متحدہ مجلس عمل میں نئی روح پھوکنے کی کوششیں شروع
کردی گئیں ہیں۔ باوجود اس کے کہ دونوں سیاسی جماعتیں اقتدار میں شامل ہیں ۔
23جماعتی اتحاد کے سربراہ جنرل پرویز مشرف، اسی جماعت کے سیکریٹری جنرل
ڈاکٹر امجد کوآرڈینیٹر اورمسلم لیگ (جونیجو) کے سربراہ اقبال ڈار کو اتحاد
کا سیکریٹری جنرل مقرر کیا گیا ہے۔دیکھتے ہیں کہ اس اتحاد میں کون کون
سیاسی رستم شامل ہیں اور ان کی سیاست میں کیا کارکردگی رہی ہے ، کیا مقام
رہا، آج تک وہ جماعتیں کتنی سیٹیں حاصل کرتی رہی ہیں۔اتحاد میں جو جماعتیں
شامل ہیں ان میںآل پاکستان مسلم لیگ ، مسلم لیگ (جونیجو) ،پاکستان سنی
تحریک ،مجلس وحدت المسلمین،سنی اتحاد،مسلم کانفرنس، کشمیر،پاکستان عوامی
تحریک،پاکستان مسلم لیگ کونسل،پاکستان مسلم لیگ نیشنل،عوامی لیگ،پاکستان
مسلم الائنس،پاکستان مزدور محاذ،کنزرویٹو پارٹی،،مہاجر اتحاد تحریک،پاکستان
انسانی حقوق پارٹی ،ملت پارٹی،جمعیت علما پاکستان (نیازی گروپ)،عام لوگ
پارٹی،عام آدمی پارٹی،پاکستان مساوات پارٹی،پاکستان منیارٹی پارٹی،جمعیت
مشائخ پاکستان اورسوشل جسٹس ڈیمو کریٹک پارٹی شامل ہے۔
اس فہرست میں شامل سیاسی جماعتوں میں کوئی ایسی جماعت نظر نہیں آتی جس نے
سیاست میں کوئی دھماکا کیا ہو، اکثریت صفر پر آوٹ ہونے والے جماعتیں ہی ہیں
لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کپتان یا کمانڈر اپنی ٹیم کو فتح سے
ہمکنار کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔لمح�ۂ موجود میں سیاسی طور پر نواز شریف
کی جماعت کا مستقبل تاریکی میں جاتا نظر آرہا ہے، زرداری صاحب نے اعلان کیا
ہے کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ ملکر انتخابی مہم چلائیں گے، رہ گیا
کپتان تو وہ اس وقت ایسا واحد سیاسی لیڈر نظر آرہا ہے جو تن تنہا سیاست کے
سمندر میں بہادری اور جرت سے تیرتا ہوا چلا جارہا ہے۔ البتہ اِسے کراچی میں
اچھی ٹیم میسر نہیں آئی، لفاظی سے کام نہیں چلتا ، کوئی کہہ رہا تھا کہ
کراچی سے جو سیٹ تحریک انصاف کو ملی ، اس سیٹ پر جو لیڈربہادر کامیاب ہوئے
انہوں نے پلٹ کر اس حلقے کے عوام کی جانب نہیں دیکھا کہ وہ کس حال میں ہیں۔
نظر یہ آرہا ہے کہ جیسے جیسے 2018ء کے انتخابات قریب آئیں گے ملک میں سیاسی
اتحاد مزیدقائم ہوں گے۔ متحدہ مجلس عمل نے حالات کو بھانپتے ہوئے سوئے ہوئے
گھوڑے کو جگانا شروع کردیا ہے، پیپلز پارٹی بھی کسی اتحاد کے بغیر اچھا
نتیجہ حاصل نہیں کرسکے گی، یا تو وہ خود کوئی اتحاد تشکیل دے گی یا پھر کسی
اتحاد کا حصہ بن جائے گی، نواز لیگ کو کوئی اتحاد اپنے ساتھ شریک کرنے کا
رسک نہیں لے گا۔ کپتان کی یہی کوشش ہوگی کہ وہ تن تنہا سیاسی ریس میں سر
فہرست رہے جو بظاہر مشکل نظر آرہا ہے۔ کراچی کی سیاسی قوتوں کو مجبور کردیا
جائے گا کہ وہ کسی اتحاد کا حصہ بن جائیں اور بنیں گے۔ سندھ کی کچھ چھوٹی
جماعتیں بھی ماضی کی طرح اتحاد تشکیل دیں گی لیکن وہ صرف سیاست میں زندہ
رہنے کے لیے ، انہیں انتخابات میں کامیابی حاصل نہ ہوئی ہے نہ ہوگی۔ آخر
میں23رکنی سیاسی اتحاد کے لیے نیک خواہشات کہ وہ قائم رہے، سیاسی عمل کا
حصہ بنے۔ البتہ اس اتحاد میں سر پھٹول کی نوبت نہ آئے۔ اس کا کمانڈر اگر
فعال رہا تو وہ اپنی ٹیم کو جس میں مختلف رنگ و نسل، زبان، عقیدہ کے سیاست
داں شامل ہیں ساتھ لے کر چلنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ سیاست ہونی چاہیے
کراچی میں ماضی کی مانند قتل و غارت گری نہیں ہونی چاہیے۔ سیاسی عمل سے ملک
میں استحکام آتا ہے، عوام میں سیاسی شعور اجاگر ہوتا ہے، لوگ خوش حال ہوتے
ہیں۔سیاسی رہنما ؤں کو اس بات پر پختہ یقین رکھنا چاہیے کہ اقتدار دائمی
نہیں ہوتا یہ آنی جانی چیزیں ہیں۔ دنیا کے طاقت ور سیاست داں آج کہاں ہیں؟
پاکستان میں حکومت کرنے والے کہاں گئے۔ اقتدار کے لیے ملک کو نقصان پہچانے
، عوام کو غلط راہ پر ڈالنے کی ہر کوشش کی نفی کرنی چاہیے۔ (12 نومبر 2017) |