جو لوگ بہت مصروف ہیں اور اُن کے پاس پورا کالم پڑھنے کا
وقت نہیں ہے اُن کے لئے صرف اتنا عرض ہے کہ ضمنی الیکشن حلقہ پی پی 20 میں
اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے چوہدری سلطان حیدر علی (یہ
درست نام ہے) کو اگر ٹکٹ دے دیا تو پھر ان کی کامیابی یقینی ہے۔ چونکہ ان
کا الیکشن سردار غلام عباس اور ایم این اے میجر (ر) طاہر اقبال نے لڑنا ہے
اور پھر چوہدری لیاقت (مرحوم) کی وفات کی وجہ سے ہمدردی کا ووٹ بھی ان کو
ملے گا۔ حلقہ پی پی 20 میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 2 لاکھ 50 ہزار 385 ہے
جبکہ گذشتہ 2013ء کے عام انتخابات میں 1 لاکھ 58 ہزار 446 ووٹ پول ہوئے جس
میں سے 8 ہزار 130 ووٹ مسترد کر دئیے گئے جبکہ کامیاب اُمیدوار چوہدری
لیاقت (مرحوم) پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 62 ہزار 88 ووٹ لئے جبکہ دُوسرے
نمبر پر چوہدری اعجاز حسین فرحت تھے جو آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے تھے
انہوں نے 35 ہزار 570 ووٹ لئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری
علی ناصر بھٹی نے 32 ہزار 827 ووٹ لئے۔ اب موجودہ ضمنی الیکشن حلقہ پی پی
20 میں دیکھنا یہ ہے کہ چوہدری سلطان حیدر علی کے مدمقابل کون آتا ہے۔ اگر
انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں تو پھر پاکستان تحریک انصاف کے چوہدری علی
ناصر بھٹی کو ٹکٹ ملنا چاہئے۔ انہوں نے گذشتہ الیکشن میں بھرپور محنت کی
تھی اور وہ واقعتا تحریک انصاف کے ساتھ مخلصانہ چل رہے ہیں اور اُن کے پاس
شہر میں بڑا ووٹ بنک موجود ہے اور اُن کے پاس الیکشن لڑنے کا بھی وسیع
تجربہ موجود ہے۔ چونکہ اُن کے والد چوہدری امیر خان بھٹی نے ساری زندگی
سیاست میں گذاری ہے۔ اگرچہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف میں
نئے چہرے بھی سامنے آگئے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی مقبولیت کا گراف
مقامی اخبارات یا پھر واٹس ایپ گروپ تک ہی محدود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چوہدری
علی ناصر بھٹی کو ہی میدان میں اُتارا جائے گا اور یہ ضمنی الیکشن ان کو
شاید نہ چاہتے ہوئے بھی لڑنا پڑے گا۔ چونکہ اس ضمنی الیکشن کے بعد عام
انتخابات میں وقت بہت کم رہ جائے گا اور ایسی بھی خبریں عام ہیں کہ قبل از
وقت انتخابات کرا دئیے جائیں تو ایسی صورت حال میں کوئی بھی نہیں چاہتا کہ
اس طرح کی خواہ مخواہ غیر ضروری مشق کرنی پڑے مگر حالات کے مطابق چلنا پڑے
گا۔ اگر حلقہ پی پی 20 میں ضمنی الیکشن ہوتا ہے تو پھر نہ چاہتے ہوئے بھی
کڑوی گولی دونوں بڑی جماعتوں کو نگلنا ہو گی البتہ یہ ضمنی الیکشن عام
انتخابات کی تیاریوں کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ مجھ سے اکثر قارئین سوال
کرتے ہیں کہ چکوال میں گذشتہ 4 سالوں میں کوئی بڑا ترقیاتی کام نہیں ہوا
مگر پھر بھی کیا یہاں کے لوگ مسلم لیگ (ن) کو ہی ووٹ دیں گے تو میرا ان کے
لئے جواب حاضر ہے کہ کام اور کارکردگی دیکھ کر پاکستان میں کب ووٹ دئیے
جاتے ہیں، یہاں پر ووٹ پارٹی نشان کو پڑتے ہیں، تھانے، کچہری، تبادلے،
گلیاں اور نالیاں پکی کرانے کو پڑتے ہیں۔ اگر پاکستان کی بہتری کو دیکھ کر
ووٹ دئیے جاتے تو کیا ہمارے ملک کا 70 سال بعد بھی یہی حال ہوتا جو اس وقت
ہے۔ یہاں کے عوام ایک ریوڑ کی مانند ہے۔ آج کل صادق و امین کا بڑا چرچا ہے۔
اگر صادق و امین کی تشریح سمجھ آجائے تو شاید آپ کو کوئی امیدوار ڈھونڈنے
سے نہ مل سکے۔ بس اتنا ہی سمجھ لیں کہ یہاں پر قوانین بھی اپنے لیے ہیں اور
قوانین میں ترامیم بھی اپنے لیے ہی کی جاتی ہیں۔ یہاں کی جمہوریت کا بہت
بُرا حال ہے۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر کسی نے ایک پوسٹ لگائی کہ ’’جنرل
(ر) مجید ملک (مرحوم) اور چوہدری لیاقت (مرحوم) میں سے کس نے عوام کی زیادہ
خدمت کی‘‘۔ تو میں نے اس پوسٹ کے نیچے صرف اتنا لکھا کہ ان دونوں کی عوام
نے خوب خدمت کی۔ میرے اس کمنٹس کو بہت سراہا گیا اور یہی حقیقت ہے مگر
حقیقت کو کون مانتا ہے۔ ہمارے سیاسی ڈیرے چاپلوسوں سے بھرے پڑے ہیں۔ وہ
اپنے اپنے مفادات کی خاطر اپنی حاضری یقینی بناتے ہیں۔ کاش! ہم اتنا سمجھ
جاتے کہ ہم نے ووٹ کس مقصد کے لیے دینا ہے۔ کاش! ہماری ترجیح صرف پاکستان
ہوتا۔ کاش! ہم عام لوگوں کو بھی ٹکٹ دے دیتے مگر ایسا نہیں ہو گا۔ آج کل
الیکشن عام آدمی کے لئے لڑنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ عام آدمی کہاں سے 50, 60
لاکھ لگا سکتا ہے اور جو 50, 60 لاکھ لگائے گا کیا وہ پھر صرف عوام کی خدمت
ہی کرے گا یا پھر کچھ اپنے بارے میں بھی سوچے گا۔ کاش! چکوال کی عوام کی ان
چوہدریوں، سرداروں اور ملکوں سے جان چھوٹ جاتی۔ کاش! یہاں پر عام آدمی کو
اہمیت مل جاتی۔ ایسا کب ہو گا کچھ پتہ نہیں۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و
ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭
|