چشتیاں شہر ضلع بہاولنگر کا دوسرا بڑا شہر ہے یہاں بہت سے
اولیئا کرام کے دربار شریف بھی ہیں جن میں بابا تاج سرکار ، خواجہ نور محمد
مہاروی اور بابا کالیا شاہ قابل زکر ہستیاں ہیں ، چشتیاں شہر میں ایک بہت
بڑا قدیممی قبرستان موجود ہے جسکہ با رے کہا جاتا ہے کے یہ پاکستان کا
دوسرا بڑا قبرستان ہے ، چشتیاں سیاسی اعتبار سے نہایت اہم سمجا جاتا ہے
کونکہ اس شہر سے بڑی نامور سیاسی شخصیات الیکشن لڑتی رہی ہیں اور وزارتوں
کے مزے لیتے رہے ہیں جن میں نواز شریف کا بہت قریبی سمجھے جانے والے تین
سابق وزیر میاں؎ عبدلاستارلالیکا چوہدری عبدلغفور اور سابق صدر پاکستان ضیا
الحق کے صا حبزادے جناب اعجاز الحق بھی اسی شہر سے الیکشن لڑتے رہے ہیں
جبکہ معر وف سیاستدان ملک قاسم بھی یہاں سے عبدلستار لالیکا کے خلاف ۱۹۸۸
میں الیکشن لڑ چکے ہیں ،جبکہ سابق وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی بھی اسی شہر
سے ۲۰۰۸ میں پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑ کے ہار چکے ہیں ، یاد رہے عبدلاستا
لالیکا ۲۰۰۲ کے بعد مسلم لیگ ن چھوڑ کے مسلم لیگ ق میں شامل ہوگے تھے اور
۲۰۰۶ میں انکا دل کا دورہ پرنے سے انتقال ہو گیا تھا اس وقت وو سمندر پار
پاکستانیوں کے وزیر تھے ، جبکہ چوہدری غفور بھی مشکل وقت میں میاں صا حب کا
ساتھ چھوڑ کے مسلم لیگ ق میں شامل ہو کے وزیر تعلیم بنے تھے ( ہارون آباد
سے ) چوہدری غفور ۲۰۱۷ میں وفات پاگئے تھے ، موجودہ حلقہ این اے ۱۹۰ پہلے
۱۴۵ ہوا کرتا تھا مگر 1997 میں نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہ اب 190 کہلواتا
ہے ، 1988 میں یہاں صدار بہار وفاقی وزیر کہلوانے والے عبدالستار لالیکا
اور ملک قاسم میں کانٹے کا مقابلہ ہوا ملک قاسم مسلم لیگ اور عبدالستار
لالیکا آئی جی آئی کے ٹکٹ پے الیکشن لڑ رہے تھے مگر یہ مقابلہ ستار
لالیکا نے 62940 ووٹ لے کر جیت لیا جبکہ ملک قاسم نے 55052 ووٹ حاصل کیے ،
1990 میں ایک بار پھر عبدالستار لالیکا 81000 ووٹ لیکر کامیاب ہوگئے اس بار
انکا مقابلہ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے میاں ممتاز احمد متیانہ سے تھا
جنہوں نے 60521 ووٹ لئے 1993 کے الیکشن میں میاں ممتاز احمد متیانہ نے اپنے
درینہ حریف میاں عبدلاستا ر لالیکا کو ہرا کر پرانی شکت کا بدلہ چکا دیا
ممتاز متیانہ نے 82000 جبکہ ستار لالیکا نے 60077 ووٹ حاحل کیے اس الیکشن
میں ممتاز متیانہ پیپلز پارٹی اور عبدلاستار لالیکا مسلم لیگ نواز کی ٹکٹ
پہ الیکشن لڑ رہے تھے ، 1997 میں ایک بار پھر دونوں کا آمنا سامنا ہوا مگر
اس بار عبدلستار لالیکا نے ممتاز احمد متیا نہ کو بھاری مارجن سے ہرایا
عبدلاستار لالیکا نے 82000 جبکہ ممتاز احمد متیانہ نے 49000 ووٹ لیے ، 2002
کے الیکشن میں ممتاز احمد متیانہ نے اپنا حلقہ تبدیل کر لیا اور بہاونگر سے
پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پہ رکن قومی اسمبلی بنے مگر چشتیاں میں اس بار
عبدلاستار لالیکا کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے سجاد احمد جھٹول سے پڑا انتہائ
سخت مقابلہ کے بعد میاں عبدلستار لالیکا چوتھی مرتبہ رکن اسمبلی منتخب
ہوگئے ، انہوں نے 58836 جبکہ سجاد احمد نے 54659 ووٹ حاصل کیئے ، سال 2006
میں میا ں عبدلاستار لالیکا لاہور میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گے،
انکی خالی کردرہ نشست پہ مسلم لیگ ق نے ضمنی الیکشن میں سابق تحصیل ناظم
چشتیاں طاہر بشیر چیمہ کو ٹکٹ دیا جو با آ سانی رکن قومی اسمبلی منتخب
ہوگئے ، 2008 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ق چھوڑ کے پیپلز پارٹی
میں شامل ہونے والے سابق وزیر تعلیم چوہدری عبدلغفور کو انکے آبائی حلقہ
ہارون آباد کی بجائے چشتیاں سے ٹکٹ دیا جہاں انکا مقابلہ مسلم لیگ ق کے
طاہر بشیر چیمہ سے پڑا چوہدری عبدلغفور 77000 ووٹ لیکر ممبر قومی اسمبلی
منتخب ہوگئے ، جبکہ طاہر بشیر چیمہ نے 70000 ووٹ حا صل کیے ، 2013 میں یہاں
مقابلہ مسلم لیگ ق چھوڑ کے مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والے سا بق ایم این اے
طاہر بشیر چیمہ اور سابق صدر پاکستان ضیاٗالحق کے بیٹے اعجاز الحق میں ہوا
یہ مقابلہ مسلم لیگ ن کے طاہر بشیر چیمہ نے 82000 ووٹ حاصل کر کے جیت لیا
جبکہ اعجاز الحق نے 48000 اور اپنا پہلا الیکشن لڑنے والے پاکستان تحریک
انصاف کے ملک مظفر عوان نے 40000 ووٹ حا صل کر کے اپنے حریفوں کو سخت
پریشان کیا ، اگر پنجاب اسمبلی کی سیٹ کا جا ئزہ لیا جائے تو پنجاب اسمبلی
کی دو سیٹ پی پی 281 282 آتئ ہیں جو کے 1988 سے 1997 تک پی پی 228 کہلواتا
تھا ، 1988 میں یہاں ممتاز احمد مہاروی نے پی پی پی کے ٹکٹ پہ آئی جی آئی
کے حاجی طاہر محمود کو ہراہا ممتاز مہاروی نے 18882 جبکہ طاہر محمود نے
13000 ووٹ حاصل کیئے ، 1990 میں طاہر محمود نے ممتاز مہاروی کو ہرا کے
الیکشن جیت لیا حاجی طاہر نے 29000 جبکہ ممتاز مہاروی نے 26000 ووٹ لیئے ،
1993 کے جماعتی الیکشن میں ممتاز مہاروی نے ایک بار پھر حاجی طاہر محمود کو
ہرا دیا ممتاز مہاروی نے 33000 جبکہ مسلم لیگ ن کے طاہر محمود نے 16635 ووٹ
حا صل کئے ، 1997 میں مسلم لیگ ن نے اپنا ٹکٹ چوہدری جمیل کو دیا جنہوں نے
پیپلز پارٹی کے ممتاز مہاروی کو ہرا دیا چوہدری جمیل نے 26843 جبکہ ممتاز
مہاروی نے 17776 ووٹ حاصل کئے ، 2002 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن ٹوٹنے کے
بعد میاں عبدلستار لالیکا اور حاجی طاہر محمود نے مسلم لیگ ق میں شمولیت
اختیار کرلی اور پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جبکہ چوہدری جمیل
مسلم لیگ ن کے ساتھ وفادار رہے لیکن انہوں نے 2002 کے الیکشن میں حصہ نہیں
لیا ، 2002 میں مسلم لیگ ق کے حاجی طاہر محمود نے پیپلز پارٹی کے ملک
عبدلغفار اعوان کو ہرایا حاجی طاہر نے 31109 جبکہ ملک عبدلغفار اعوان نے
25589 ووٹ حاصل کیے جبکہ سابق برسراقتدار پارٹی مسلم لیگ ن کے حسن مرتضئ
صرف 3500 ووٹ حاصل کر سکے جبکہ پی پی 282 ڈاہراوالہ سے بھی مسلم لیگ ق کے
عبدللہ وینس نے 31539 ووٹ حاصل کر کے مسلم لیگ ن کے شاہد اکرم کو ہرایا
جنہوں نے 26000 ووٹ حا صل کئے ، 2008 کے الیکشن میں مہترمہ بنظیر بھٹو کی
شہادت کے بعد پیپلز پاڑٹی نے یہاں سے کلین سویپ کیا پورے ضلع سے پیپلز
پارٹی نے کامیابی حاصل کی چشیاں سے پیپلز پارٹی کے محمد علی لالیکا نے
کامیابی حاصل کی انکا مقابلہ مسلم لیگ کے چوہدری اصضر اور سابقہ ایم پی اے
چوہدری کاشف سے تھا جو اپنے ماموں حاجی طاہر کی وفات کے بعد انکی خالی کردہ
نشست پہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پہ ضمنی الیکشن میں رکن پنجاب اسمبلی بنے تھے ،
محمد علی لالیکا نے 29078 جبکہ چوہدری اصضر نے 27797 ووٹ حاصل کئے ، جبکہ
چوہدری کاشف نے 9718 ووٹ لیئے جبکہ ڈاہرانوالہ سے سابق وزیر اعلی پنجاب
پرویز الہی نے خود الیکشن لڑا انکا مقابلہ میپلز پارٹی کے سردار افضل تتلہ
سے تھا مگر پرویز الہی یہ سیٹ 7200 ووٹ سے ہا ر گئے سردار افضل تتلہ نے
42088 جبکہ پرویز الہی نے 35608 ووٹ حا صل کئے ، سال 2013 کے الیکشن میں پی
پی 281 میں مقابلہ مسلم لیگ ن کے احسان الحق باجوہ پاکستان تحریک انصاف کے
سکندار فیاض بھڈیرہ، آزاد امیداور چوہدری اصضر اور مسلم لیگ (ضیاٗ ) کے
عمران فیصل میں ہوا جس میں مسلم لیگ ن کے احسان الحق باجوہ نے 36704 ووٹ
لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کے سکندار فیاض
بھڈیرہ تھے جنہوں نے 20222 اور چوہدری اصضر نے 14334 ووٹ حا صل کئے ، جبکہ
ڈاہرانوالہ سے بھی مسلم لیگ ن کے زاہد اکرم نے تحریک انصاف کے عبدللہ وینس
کو اور مسلم لیگ ضیاٗ کے محمد واحد کو ہرایا زاہد اکرم نے 36993 محمد واحد
نے 23895 اور عبدللہ وینس نے 21240 ووٹ حاصل کئے جبکہ پرویز الہی کو ہرانے
والے پیپلز پارٹی کے سردار افضل تتلہ صرف 4279 ووٹ حاصل کر سکے تھے ۔ اب
2018 میں الیکشن ہوتے ہیں کے نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس بار تحریک
انصاف مسلم لیگ ن کو یہاں ٹف ٹا ئم دے سکتی ہے پنجاب میں لاہور اور ٹوبہ
ٹیک سنگھ کے بعد بہاولنگر ایسا ضلع ہے جہاں آرائیں برداری اکسریت میں
موجود ہے، چشتیاں شہر میں اصل مقابلہ برادری بیس پہ ہوتا رہا ہے کبھی یہاں
سے جٹ برادری اور کبھی آرائیں بردادری جیتتی رہی ہے ، عبدلستار لالیکا
(سابق وزیر ) طاہر بشیر چیمہ (سابق ایم این اے ) محمد علی لالیکا ( سابق
ایم پی اے ) متاز مہاروی ( سابق ایم پی اے ) سردار افضل تتلہ ( سابق ایم پی
اے ) عبدللہ وینس ( سابق ایم پی اے ) احسان الحق باجوہ کا تعلق جٹ برادری
سے ہے جبکہ چوہدری عبدلغفور سابق وزیر ) حا جی طا ہر محمود ( سابق ایم پی
اے ) چوہدری جمیل ( سابق ایم پی اے ) چوہدری کاشف ( سابق ایم پی اے ) حاجی
محمد اکرم ( سابق ایم پی اے ) اور زاہد اکرم موجودہ ایم پی اے ڈاہرانوالہ
کا تعلق آرایئں برادری سے ہے -
آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کسکو ٹکٹ دیتی ہے یہ تو کچھ کہا نہیں
جا سکتا ہے لیکن قوی امکان یہی ہے کے دوبارہ پھر طاہر بشیر چیمہ ہی مسلم
لیگ ن کے امیدوار ہونگے جبکہ تحریک انصاف کا کنفرم ٹکٹ ملک مظفر اعوان (
قومی اسمبلی ) اور سکندر فیاض ( صوبائی ) کو ہی ملے گا ، جبکہ مسلم لیگ
ضیاٗ کے اعجاز الحق ایک بار پھر یہاں سے الیکشن لریں گے جیسا کے پہلے بھی
بتا یا کے چشتیاں میں ووٹ برادری بیس پہ زیادہ دیا جا تا ہے کیونکہ طاہر
بشیر چیمہ جٹ برادری سے ہیں تو اعجاز لحق یہاں آرایئں برادری کا ووٹ حا صل
کرنے کے لیے ایک بار پھر الیکشن لڑیں گے اس وقت تحریک انصاف اپنے سیاسی
جلسوں کا آغاز کر چکی ہے اور دسمبر میں عمران خان چشتیاں میں بھی جلسہ سے
خطاب کریں گے جس سے تحر یک انصاف کے امیدواروں کو فائدہ ملے گا جبکہ مسلم
لیگ ن کے امیداوار قومی اسمبلی طاہر بشیر چیمہ اور اور صوبائی اسمبلی احسان
الحق باجوہ ایک دوسرے کے دشمن سمجھے جاتے ہیں 2013 کے الیکشن میں بھی دونوں
امیدوار ایک ہی پارٹی کا ٹکٹ ہونے کے باوجود ایک دوسرے پہ الزام تراشی کرتے
رہے اور دوسرے امیداوار کی کھلم لھلا حمایت کرتے رہے اور بلدیاتی انتخابات
میں بھی دونوں گروپ آمنے سامنے تھے جس میں باجوہ گروپ کا سٹی چیرمین منتخب
ہواا تھا اگر ان انتخابات میں بھی یہئ صورتحال رہی تو مسلم لیگ ن یہ دونوں
سیٹ سے ھاتھ دھو بھیٹے گی ، اس وقت جو صورتحال ہے اس میں اگر برداری بیس پہ
اندازہ لگایا جائے تو طاہر بشیر چیمہ اور احسان الحق باجوہ دونوں جٹ برادری
سے تعلق رکھتے ہیں جس سے آرایئں برادری اپنا ووٹ کسی آرایئں امیدوار کو
ہی دے گی جو کے متوقعہ طور پہ اعجاز الحق ہو سکتے ہیں جبکہ صوبائی کے لیے
چوہدری اصغر اور عمران فیصل بھی الیکشن لڑ سکتے ہیں جو کہ آرایئں برادری
سے تعلق رکھتے ہیں اب تحریک انصاف اس وقت مسلم لیگ ن کے لیے سب سے بڑی
پریشانی بنی ہوئی ہے گو کہ ملک مظفر کا زاتی ووٹ بنک اتنا نہیں ہے اور نہ
ہی سکندر فیاض کا ہے مگر یہ دونوں عمران خان کو ووٹ کیش کریں گے ملک مظفر
اور سکندر فیاض کا ووٹ بنک پرانی چشتیاں سے ملحقہ علاقہ ہتھاڈ کے علاقے میں
ہے لیکن اس بار ملک مظفر کوئی بڑا بریک تھرو دے سکتے ہیں کونکہ اس وقت
تحریک انصاف کے ووٹ بنک می کافی اضافہ ہوا ہے اور شہر کی بہت سی اہم شخصیات
تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر چکی ہیں جو کہ مسلم لیگ ن کے لیے خطرہ کی
گھنٹی ہے ، طاہر بشیر چیمہ کی نسبت احسان باجواہ نے شہر کے اندر کافی
ترقیاتی کام کروائے ہیں جنمی چشتیاں ہارون آباد روڈ کو ون وے کروانا ،
چشتیاں حاصلپور کارپٹ روڈ ۔
بہاولنگر روڈ ، جبکہ شہر کے اندر سڑکوں کا جال بچھایا گیا ہے جبکہ سرکاری
ہسبتال کو جدید مشینری اور چشتیاں میں ۱۱۲۲ کا منصوبہ بھی احسان باجوہ نے
ہی مکمل کروایا ہے آئندہ الیکشن میں مقابلہ انتہائی سخت ہونے کی توقع ہے
کیونکہ مسلم لیگ ن اپنا ووٹ اپنی کارکردگی کی بنیاد پہ اور برادری بیس پہ
یہاں سے مانگے کی جبکہ تحریک انصاف نے بہت سی اہم شخصیات کو پارٹی میں شامل
کر کے مخالفین کو
اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا ہے ، طاہر بشیر چیمہ ۲ بار ڈاہرانوالہ سے پی
پی پی کے ٹکٹ پہ رکن پنجاب اسمبلی بھی منتخب ہو چکے ہیں جبکہ وہ تحصیل ناظم
چشتیاں بھی رہ چکے ہیں سیاست میں جوڑ طوڑ کی کافی مہارت رکھتے ہیں یاد رہے
طاہر بشیر چیمہ کے بڑے بھای طارق بشیر چیمہ منڈی یزمان سے مسلم لیگ ق کے
رکن قومی اسمبلی ہیں ۔ جبکہ ملک مظفر اعوان ابھی نئے کھلاڑی ہیں دیکھتے ہیں
وہ آنے والے الیکشن میں کتنا ٹف ٹائم دے پاتے ہیں- |