عرصہ ایک سال سے تحصیل دیپالپور میں ایسی سیاست دیکھنے کو
ملی ہے جس نے رو کو تازہ کر دیا ہے ۔ اس نے سیاستدانوں کو ایسے علاقے میں
جانے پر مجبور کر دیا ہے جہاں سے ان کے نام کے ووٹ تو نکلتے تھے لیکن انہوں
نے کبھی وہ علاقے دیکھے ہی نہیں تھے۔ دیپالپور میں کچھ ایسے بھی سیاستداں
بستے ہیں جو صرف اور صرف اپنی برداری کے جنازے اور شادی وغیرہ پر ہی جانا
پسند کرتے ہیں ۔
بات ایسے دو سیاستدانوں کی جن کی پارٹی تو ایک ہے لیکن منشور ایک دوسرے سے
بہت مختلف ہیں ۔ ایک کا تعلق آرائیں برادری سے ہے تو دوسرے کا راجپوت
برادری سے ہے۔رانا طارق ارشاد خاں جو پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے
2013 کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر عوام کے سامنے
رونما ہوئے ۔ ان کی طرزسیاست کچھ مختلف نہیں روایتی سیاست سے۔ ان کا ماننا
ہے کہ سیاست میں زیادہ اہم لوگ وہ ہوتے ہیں جو کسی گاوں ، محلہ یا قصبے کے
نمبردار ہوتے ہیں ۔جن کے کہنے پر پورا گاوں ایک طرف ووٹ ڈال دیتے ہیں ۔ اگر
ان جیسے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا جائے تو ہم کبھی الیکشن نہیں ہار سکتے۔
رانا صاحب آجکل پاکستان تحریک انصاف کے ضلع اوکاڑہ کے صدر بھی ہیں ۔ اور
مزے کی بات تو یہ ہے کہ ضلع کے سارے عہدے راجپوت برادری کے پاس ہی قائم و
دائم ہیں ۔
ان کے برعکس اگر آرائیں برادری کے امیدوار ڈاکٹر امجد وحید ڈولہ کی بات کی
جائے تو جناب نے Islamic thought and civilization میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری
حاصل کر رکھی ہے ۔ اور پاکستان کی مشہور یونورسٹی'یونورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ
ٹیکنالوجی کے ایک سکول کے ڈین رہ چکے ہیں ۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز
2015 کے بلدیاتی الیکشن میں بطور چیرمین کیااور کچھ ووٹوں سے ہار گئے ۔
لیکن انہوں نے اپنی کوشش کو برقرار رکھا اور علاقے میں اپنا مقام بنایا ۔
ڈاکٹر صاحب کے اخلاق، کردار اور ذوق کو پوری دیپالپور کی عوام صلاحیتیں ہیں
۔ ڈاکٹر امجد وحید ڈولہ امیدوار برائے صوبائی اسمبلی پی پی 192 بھی پاکستان
تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے ہی اپنی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں ۔ ان کا
کہنا ہے کہ ہمارے نزدیک ہر وہ انسان پی ٹی آئی کا نمائندہ ہے جو انصاف کا
حامل ہے ۔ جو یہ چاہتے ہیں کہ تبدیلی ہم لوگوں کے تبدیل ہونے سے آنی ہے۔جب
تک ہم لوگ روایتی سیاست کا خاتمہ نہیں کرئے گے تب تک پاکستان کی سیاست میں
کبھی تبدیلی نہیں آ سکتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے ایسی سیاست نہیں کرنی جس سے لوگوں کو شعور ہی
نہ آئے، جس سے لوگ اپنی مرضی سےووٹ ہی نہ ڈال سکے بلکہ ہم حلقے میں
نوجوانوں کو شعور کی تعلیم دینے آئے ہیں تاکہ لوگ اپنی مرضی سے ووٹ ڈال سکے
۔
آپ ایسے لوگوں کو آگے لے کر آئے جو عوام کے ساتھ ڈائریکٹ تعلقات قائم کرئے
۔ جو عام آدمی کے ساتھ اچھے اخلاق سے ملے۔جب تک اسمبلیوں میں پڑھے لکھے
امیدوار نہیں جائیں گے تب تک ہمارے سسٹم تبدیل نہیں ہو سکتا۔
دونوں سیاستدانوں کی طرزسیاست ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔مجھے تو اس طرح لگ
رہا ہے کہ یہ امیدواروں کا مقابلہ نہیں بلکہ روایتی سیاست اور نئی سیاست کا
ٹکڑا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہی کہ پاکستان تحریک انصاف کس امیدوار کو صوبائی
اسمبلی کی ٹکٹ سے نوزاتی ہے اور دیپالپور کی عوام کس کو اپنا لیڈر مانتی
ہے۔ |