کرسی گھر کی ہو یا اقتدار کی ٗ اس پر جو بھی بیٹھتا ہے
پھر اٹھنے کا نام نہیں لیتا اور اٹھتا اس وقت ہے جب اس سے بھی زبردست
آپہنچتا ہے۔یہاں کرسی چمٹے رہنے والے اور ہٹانے والے بھی بہت ہیں ۔ پاکستان
کی 70 سالہ تاریخ کا مشاہدہ کیاجائے تو کرسی کی طاقت کا اندازہ خودبخود
ہوجاتاہے ۔نوابزادہ لیاقت علی خان کے بعد جتنی بھی لوگ اقتدار پر قابض ہوئے
پھر جانے کا نہیں لیا ۔ خواجہ ناظم الدین پہلے جائز طریقے سے صدر بنے پھر
ناجائز طریقے سے وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ ان کے بعدسکندر مرزا نے
اقتدار پر قبضہ کیا جن سے جنرل ایوب خان نے اقتدار چھین لیا اور دس سال تک
بنا شرکت غیرے اقتدار کی کرسی پر قبضہ جمائے رکھا ۔ ابھی ان کا دل کرسی سے
اٹھنے کو نہیں کررہاتھاکہ جنرل یحیی خان نے بھٹو سے ملی بھگت کرکے اقتدار
کی کرسی پر قبضہ جمالیااور ملک کا آدھا حصہ کرسی کے نشے میں ہی گنوا دیا ۔
جنرل یحیی خان پاکستانی تاریخ کے بدترین اور عیاش ترین صدر ہیں جو کپڑے کم
پہنتے اور شراب زیادہ پیتے ۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ مشرقی
پاکستان میں بھارت کے ایماپر بغاوت ہوچکی ہے اور بھارت کی تربیت یافتہ
گوریلا تنظیم ٗ مکتی باہنی نے اپنی تخریب سرگرمیوں کی بدولت پاک فوج کی نقل
وحرکت کو ناممکن بنا رکھا ہے ۔جنرل یحیی خان کو اس وقت بھی ہوش نہیں آیا جب
مشرقی پاکستانی پر بھارتی فوج قابض ہوگئی اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن
گیا ۔ اس کے باوجود کہ آدھا ملک ہم سے الگ ہوچکا تھا۔ کرسی کا نشہ اس قدر
جنرل یحیی خان پر طاری تھا کہ اٹھنے کا نام پھر بھی نہیں لے رہے تھے ۔ یہ
ان کی بدقسمتی اس وقت کے ائیر چیف نے دھمکی دی کہ اگر آپ اقتدار سے الگ نہ
ہوئے تو مجھے ایوان صدر پر جنگی جہاز سے بمباری کرنی پڑے گی ۔ اس دھمکی کا
اثر یہ ہواتو جنرل یحیی خان اقتدار ایک سویلین (ذوالفقار علی بھٹو ) کے
سپرد کردیا ۔یاد رہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو 1970ء کے الیکشن میں پنجاب اور
سندھ سے زبردست کامیابی حاصل کرنے والے عوامی لیڈ رتھے ۔ دنیاکی تاریخ میں
ذوالفقار علی بھٹووہ پہلے شخص تھے جنہوں نے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر
کی حیثیت سے اقتدار سنبھال لیا ۔ اس کے باوجود کہ مقبولیت کے اعتبا ر سے
ذوالفقار علی بھٹو بہت بڑے لیڈر تھے اور اﷲ نے ان کو گفتگو کا فن بھی خوب
عطا فرمایا تھا وہ جو چاہتے عوام سے منوالیتے ۔ اقتدار سنبھالنے سے پہلے وہ
بہت ہی نرم دل اور ہمدرد انسان تھے لیکن جیسے ہی اقتدار کی کرسی پر براجمان
ہوئے تو شخصیت میں فرعونیت کااثر بڑھنے لگا ۔ وہ انکار اور اختلاف سننے کے
عادی نہ تھے یہی وجہ ہے کہ مخالفین سے پہلے پیپلز پارٹی کے بانی اراکین ہی
ان کے مظالم کا شکار ہوئے ۔جن میں جے اے رحیم ٗ مولانا کوثر نیازی ٗ افتخار
طاری سمیت درجنوں نام گنوائے جاسکتے ہیں ۔ جو بھٹو کے ظلم و تشدد کا نشانہ
بنے ۔
بھٹو دور میں دلائی کیمپ اور لاہور کا شاہی قلعہ بہت مشہور تھے جہاں بھٹو
کی مخالفت کرنیوالے سیاسی اور دیگر لیڈروں کو نہ صرف نظر بند رکھا جاتا
بلکہ ان پر بیہمانہ تشدد بھی کیا جاتا۔ اپنے اور پرائے سبھی نے دلائی کیمپ
اور شاہی قلعہ کی سیر کی اور بھٹو کا اصل آمرانہ روپ بھی دیکھا ۔ مقبولیت
کے زعم میں بھٹو صاحب نے مزید پانچ سال برسراقتدار رہنے کے لیے قبل از وقت
الیکشن کروائے پھر اتنی دھاندلی کی کہ آدھے سے زیادہ پیپلز پارٹی کے
امیدوار بلامقابلہ منتخب قرار دے دیئے گئے ۔ گویا پاکستان کی تاریخ میں یہ
پہلا موقع تھاکہ اتنے امیدوار قومی الیکشن میں بلامقابلہ منتخب ہوئے ہوں ۔
اس ریکارڈ ساز دھاندلی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ محاذ تشکیل دے کر
الیکشن کا بائیکاٹ کردیااور لاکھوں کی تعداد میں لوگ سراپا احتجاج ہوکر
سڑکوں پر آگئے ۔ پیپلز پارٹی نے ملک گیر احتجاج کو کچلنے کے لیے ہیرا منڈی
سے ناچنے والی عورتوں کوپولیس کی وردی پہناکر جلوس میں شامل خواتین کو تشدد
کا نشانہ بنایا پھر بھٹو کی اپنی بنائی ہوئی فورس فیڈرل سیکورٹی فورس کے
ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے غنڈوں نے بھی جلسوں اور جلوسوں پر سیدھی گولیاں
برسائیں ۔ پھر بھی بپھرا ہوا ہجوم قابو نہ آیا تو شہروں میں جزوی مارشل لاء
لگا دیاگیا ۔ یہ سب کچھ ذوالفقار علی بھٹونے اپنی کرسی بچانے کے لیے کیا
تھا ۔ بلکہ احتجاجی تحریک کے دوران قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے
اپنی کرسی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تھاکہ یہ کرسی بہت مضبوط ہے ۔ جب قدرت
کسی کو ذلت و رسوائی کا شکارکرنا چاہتی ہے ٗ تو پھر وہی کرسی جو طاقت کی
علامت تصور کی جاتی ٗ گلے کو طوق بن جاتی ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ
بھی ایسے ہی ہوا۔ کرسی کو بچاتے بچاتے وہ پھانسی کے پھندے پر جھول گئے لیکن
کرسی کانشہ نہیں اترا ۔قدرت کا قانون ہے کہ ہر چیز نے فنا ہوناہے صرف اﷲ
تعالی کی ذات ہی باقی رہنے والی ہے اوروہ کرسی جس پر اﷲ تعالی خود تشریف
فرما ہے جس نے پوری کائنا ت کواپنے حصار میں لے کر رکھا ہے صرف وہ ہی ہمیشہ
قائم رہے گی ۔
یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو میری زندگی کا اہم ترین واقعہ ہے ۔ قصہ
کچھ یوں ہواکہ روزنامہ دن میں میرا ایک کالم "تعمیر کے نام پر تخریب"کے
عنوان کے تحت شائع ہوا۔ (یاد رہے کہ میں چھ ماہ روزنامہ دن میں بھی باقاعدہ
کالم لکھ چکا ہوں اور وہاں میرے کالم کا عنوان "کڑوی باتیں" ہوا کرتا تھا ۔
میں نے اس کالم میں کیولری گراؤنڈ میں زیر تعمیر فلائی اوور( جس کا نام
بعدمیں جناح فلائی اوور رکھ دیاگیا)کے حوالے سے لکھا تھا ۔ ویسے یہ ہنی برج
کے نام سے بھی مشہور ہے ۔ پہلے یہاں سیون اپ پھاٹک کے نام سے ایک ریلوے
کراسنگ موجود تھاٗ جو اب بھی ہے ۔لیکن فلائی اوور نہ ہونے کی وجہ پھاٹک کے
دونوں اطراف گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی تھیں ۔ ابھی کچھ ہی گاڑیاں گزر
پاتیں کہ پھاٹک دوبارہ بند ہوجاتا اس طرح صرف سیون پھاٹک عبور کرنے کے لیے
ایک ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوجاتا۔ گلبرگ اور کینٹ کے مابین شیر پاؤ برج تھا
بدقسمتی سے شیر پاؤ برج بھی اس وقت سنگل ہی تھا ۔ٹریفک کا بڑھتا ہوابوجھ وہ
بھی برداشت نہ کرسکا اور صبح سے رات گئے تک وہاں بھی ٹریفک جام رہنے لگی
۔جبکہ کوٹ لکھپت برج کی حالت بھی شیرپاؤ برج سے مختلف نہ تھی ۔ چنانچہ
شہباز شریف جسے میں معمار لاہور کا خطاب دیتا ہوں انہوں نے وزیر اعلی کی
حیثیت سے لاہور میں درجنوں فلائی اوور ٗ انڈر پاسز اور درجنوں میل لمبی
کشادہ سڑکیں تعمیر کی ہیں جس سے وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ ٹریفک کی روانی
میں بھی کچھ بہتری آئی ہے ۔ اگر شہباز شریف کی بنائی ہوئی سڑکوں اور برجز
کو نکال دیاجائے تو پھر لاہور ایک بار پھر پرانے وقتوں میں پہنچ جائے گا ۔
لوگ مخالفت تو انسان اپنے رب کی بھی کرتے ہیں اور اﷲ کے نبیوں کی بھی
مخالفت کرتے چلے آئے ہیں لیکن شہباز شریف نے جس دل جمعی اور محنت سے لاہور
کوایک خوبصورت شکل عطاکی ہے ۔اس میں نئے سے نئے اور جدید سے جدید منصوبے
پایہ تکمیل کو پہنچائے۔ تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔
شہباز شریف کا کام کرنے کا انداز بہت مختلف ہے ۔ نہ وہ خود سست اور کاہل
ہیں اور نہ ہی کسی سست اورنااہل کو برداشت کرتے ہیں ۔یہ ان دنوں کی بات ہے
جب میں بنک آف پنجاب میں بطور میڈیاکوارڈی نیٹر ملازمت کیا کرتا تھا ۔ ایک
صبح میں پونے نو بجے میں بنک آف پنجاب کے ہیڈ آفس پہنچاتو یہ دیکھ کر حیران
رہ گیاکہ بنک کی بلڈنگ کو چاروں اطراف سے پولیس نے گھیر رکھاہے ۔ مجھے بھی
روکا گیالیکن میں اپنا تعارف کروا کر بنک کی عمارت کے اندرداخل ہونے میں
کامیاب ہوگیا۔ میں نے ایک سینئر پولیس آفیسرسے پوچھا کہ ابھی تو بنک کا
سٹاف بھی بنک نہیں پہنچا ٗوزیر اعلی اتنی جلدی کیسے پہنچ گئے ۔ پولیس آفیسر
نے بتایا کہ یہ شہباز شریف کی چوتھی میٹنگ ہے ٗ وہ تین میٹنگیں یہاں آنے سے
پہلے کر آئے ہیں ۔ گویا شہباز شریف نماز فجر کے بعدہی اپنے گھر سے روانہ
ہوئے تھے ۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے ۔ اسی لیے تو چین ٗ جرمنی اور دیگر
تمام ممالک میں شہباز سپیڈ کی مثال دی جاتی ہے ۔ میں یہ باتیں سن کر بہت
حیران ہوا کہ شہباز شریف کینسر کے مریض ہیں پھر بھی وہ اس قدر مستعدی سے
معاملات حکومت چلا رہے ہیں ۔ جو قابل تحسین بات ہے ۔ میں سمجھتا ہوں شہباز
شریف کی کاوشوں کی بنا پر پاکستان اس وقت بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ سے
تقریبا نکل چکاہے اور تمام انڈسٹری کو 24 گھنٹے بجلی کی فراہمی ایک مستحسن
قدم ہے ۔ جس سے معیشت کے استحکام کے ساتھ ساتھ پیداوار میں اضافہ اور
روزگار کا تحفظ حاصل ہورہا ہے ۔ بہرکیف یہ تو ایک بات تھی جو درمیان میں
آگئی ۔
بات ہورہی تھی کیولر ی گراؤنڈ فلائی اوور پر لکھے جانے والے کالم کی ۔شہباز
شریف نے یہ کالم خودپڑھ لیا ۔ یہ کالم ان کوناگوار گزرا ۔ شعیب بن عزیز
جنہوں نے ابھی ڈائریکٹر جنرل پنجاب کے عہدے کا چارج سنبھالا ہی تھا ۔
وزیراعلی نے انہیں کال کرکے اپنی تشویش سے آگاہ کیا اور کہا اس کالم نے
لاہور میں میری اربوں روپے کی ہونے والی تعمیراتی سرگرمیوں کو خاک میں ملا
دیا ہے ۔ آپ اسلم لودھی صاحب کو تلاش کریں اور میری ان سے ملاقات کااہتمام
کریں میں خود ان سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ کہہ کر شہباز شریف نے فون
بندکردیا ۔ قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب وزیر اعلی ہلکی سی خفگی
کااظہار بھی کرتا ہے تو ماتحت سرکاری افسروں پر کیا گزرتی ہے ۔ بہت دنوں تک
سکون کی نیند غائب ہوجاتی ہے اور ہر لمحے ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں کچھ ہوہی
نہ جائے ۔ بہرکیف وزیراعلی کا فون بند ہونے کے بعد شعیب بن عزیز صاحب نے
اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو مجھے تلاش کرنے کی ہدایت کی ۔ ابھی وہ میرا
موبائل نمبر تلاش کر ہی رہا تھاکہ میں شعیب بن عزیز صاحب کو ملنے خود ان کے
آفس جا پہنچا ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ ڈی جی پی آر آفس کو تمام صحافیوں کی
نانی کا گھر کہاجاتا ہے ۔ شاید ہی کوئی صحافی ہوگا جو ڈی جی پی آر آفس نہ
جاتا ہو ۔ کالم نگار کی حیثیت سے میں بھی اکرم شہیدی صاحب کے دورمیں اس
دفتر میں باقاعدگی سے جاتا رہا ہوں ۔ اکرم شہیدی صاحب کی شفقت اورمحبت تو
یقینا مجھے عرصہ دراز تک حاصل رہی۔ شعیب بن عزیز صاحب بھی بہت ہی نفیس اور
سلجھے ہوئے انسان ہیں بلکہ وہ سرکاری افسر کم شاعر زیادہ لگتے ہیں ۔ وہ
لکھنے والوں کی دل سے قدر کرتے ہیں ۔جیسے ہی میں دفتر میں داخل ہوا اور
شعیب بن عزیز صاحب کواپنا تعارف کروایا تو وہ غصے کے عالم میں اپنی کرسی سے
اٹھ کھڑے ہوئے اور سخت لہجے میں کہا آپ کالم نگار ہیں یا ظالم نگار ۔ آپ نے
اس کالم میں کیا لکھا ہے ۔ شہباز شریف نے لاہورکی ترقی کے لیے اربوں روپے
خرچ کردیئے ہیں اور آپ ان ترقیاتی سرگرمیوں کو تخریب سے منسوب کرتے ہیں۔
پہلے تو میں بھی ڈر گیا کہ واقعی مجھے ایسا نہیں لکھنا چاہیئے تھا پھر میں
نے جواب دیا سر میں نے اس میں کوئی غلط بات نہیں لکھی اور جو کچھ بھی لکھا
ہے میں اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں ۔ شعیب صاحب نے بات کو آگے بڑھاتے
ہوئے کہا وزیر اعلی پنجاب آپ سے خودملنا چاہتے ہیں آپ نے جو بھی وضاحت دینی
ہے انہیں جاکر دیں ۔ یہ ہمارے درمیان ملاقات کے آخری الفاظ تھے ۔ میں نے
پوچھا سر کیا میں چیف منسٹر ہاؤس جاؤں یا سول سیکرٹریٹ ۔ انہوں نے بتایا کہ
وہ آپ سے کیولر ی گراؤنڈ فلائی اوور برج کے کیمپ آفس میں ہی ملیں گے اور ان
باتوں کی وضاحت مانگیں گے جو آپ نے اس کالم میں لکھی ہیں ۔ یہ سن کر میں
دفتر سے نکل آیا اور سوچنے لگا کہ واقعی مجھے اس قدر سخت لہجے میں کالم
نہیں لکھنا چاہیئے تھااور اگر لکھا ہی تھاتو اس کی سرخی ( عنوان ) تعمیر کے
نام پر تخریب نہیں رکھنا چاہیئے تھا ۔ خود سے جنگ کرتا ہوا میں گھر پہنچا
تو سخت پریشان تھا ۔ میں شہباز شریف کے مزاج کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں وہ
نہایت غصیلے انسان ہیں ۔بیورو کریسی ان سے خوفزدہ رہتی ہے ۔ میں نے سوچا کہ
کسی معتبر شخص کو ساتھ لے جانا چاہیئے ۔ ان دنوں مکہ کالونی گلبرگ
تھرڈلاہور کے کونسلر چوہدری عبدالمجید صاحب تھے۔ بے شک وہ میٹرک فیل تھے
لیکن ان کا حوصلہ ہمالیہ پہاڑ سے بھی بلند تھا۔ وہ معاملات کو سلجھانے کے
ماہر تھے ۔ مسلم لیگی کونسلر ہونے کے ناطے ان کے تعلقات بھی ہائی کمان تک
تھے ۔ میں ان کے پاس گیااور دبے لفظوں میں تمام کہانی سنا کر مدد کی
درخواست کی ۔انہوں نے میرے کاندھے پر ہاتھ پر رکھ کہا لودھی صاحب آپ نے جو
لکھا ہے ٹھیک لکھا ہے۔ کل میں آپ کے ساتھ چلوں گا۔ چوہدری عبدالمجید( اﷲ
انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ) اس لمحے مجھے واقعی حوصلے کاپہاڑ
دکھائی دیئے اور میں دل سے ان کا مطیع ہوگیا ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
ڈوبتے کو تنکے کاسہارا ۔
بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں چند مزید وضاحتیں کرنا چاہتا ہوں تاکہ
قارئین کو اس قصے کی سمجھ آسکے ۔ کیولر ی گراؤنڈ میں جہاں فلائی اوور زیر
تعمیر تھاوہاں سیمنٹ اور لوہے کی بھاری سلیبیں تیار کرکے بڑی بڑی کرینوں سے
اٹھا ئی جارہی تھیں ٗ پھر اسی مقام پر سو ڈیڑھ سو فٹ گہری کھائیاں کھودی
گئیں ان کے درمیان مضبوط ستون فلائی اوور کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار کیے
جارہے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر طرف مٹی کے اونچے نیچے ڈھیر پڑے تھے ۔
گلبرگ اور کینٹ کے درمیان یہ مین راستہ تھا ٗجو بند ہوچکا تھااس لیے والٹن
اور کینٹ ایریا کے وہ تمام لوگ جو سٹی ایریا میں قائم دفتر وں سکولوں اور
کاروباری اداروں میں جانا چاہتے وہ پیدل ہی والٹن روڈ سے چلتے ہوئے اس
خطرناک مقام ( جہاں کھدائی اور بڑی بڑی کیرنیں کام کررہی تھیں)سے گزرکر
فردوس مارکیٹ پہنچتے جہاں منزل مقصودتک پہنچنے کے لیے انہیں بس یا ویگن
دستیاب ہوتی ۔ یہ دو سے تین کلومیٹرکا فاصلہ ہر چھوٹے بڑے اور بوڑھے انسان
کو ناہموار راستوں سے گزر کر اس لیے طے کرنا پڑ تا کہ ایل ڈی اے فلائی اوور
بنانے سے پہلے کوئی متبادل راستہ فراہم نہیں کیاتھا ۔ ایک اور متبادل راستہ
اکیڈمی روڈ کا ریلوے پھاٹک موجود تھا۔ اس راستے کوبھی دانستہ کھود کر
ناقابل استعمال کردیاتھا ۔ وگرنہ گلبرگ سے کینٹ جانیوالی ویگنیں اکیڈیمی
ریلوے پھاٹک سے گزر کر والٹن کینٹ ایریا میں داخل ہوسکتی تھیں۔ویگنیں اور
بسوں کی بات تو درکنا ر موٹرسائیکلوں سوار بھی آر پار آ جانہیں سکتے تھے ۔
یہ صورت حال بہت پریشان کن تھی۔ مقامی لوگوں کو لا محدود مشکلات کا سامنا
تھا ۔ میں نے اسی صورت حال کو اپنے کالم کا حصہ بنایا تھا جو وزیر اعلی
صاحب کو پسند نہیں آیا ۔ چیف منسٹر ہاؤس سے مسلسل فون آرہے تھے کہ کل آپ نے
9 بجے کیمپ آفس پہنچنا ہے جہاں آپ کی وزیر اعلی سے ملاقات طے ہے ۔
رات بھر سوچتا رہا کہ وزیر اعلی سے ملاقات کیسی ہو گی اور وہ کیا کہیں گے
اور مجھے کیاجواب دینا چاہیئے ۔ اسی گو مگو کی صورت حال میں رات آنکھوں میں
کٹ گئی ۔ اگلی صبح ناشتہ کرکے بیگم کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا۔ پورا
پلان سمجھا کر میں چوہدری صاحب کو ساتھ لے کر پیدل ہی ریلوے لائن پر چلتا
ہوا اس مقام پر جا پہنچا جہاں کیولری فلائی اوور کا کیمپ آفس موجود تھا ۔
ابھی ہم کچھ دور ہی تھے کہ پورے علاقے کو پولیس کے سینئر افسروں نے گھیر
رکھا تھا ۔ ڈی سی لاہور ناصر کھوسہ بھی وہاں موجود تھے( جو بعد میں چیف
سیکرٹری پنجاب بھی بنے) ۔ ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے ٗ ڈی آئی جی پولیس سمیت
افسروں کی فوج وہاں جمع تھیں ۔ جب ہم کیمپ افس کی جانب بڑھنے گئے تو مجھے
ایک سنیئر پولیس آفیسر نے روکا میں نے اپنا تعارف کروایا تو وہ ہمارا پیغام
لے کرڈی سی لاہور کے پاس گیا ۔ ڈی سی لاہور ناصر کھوسہ صاحب نے اس پولیس
آفیسر کو کہا انہیں فوری طور پر لے کر آئیں آج انہی سے ملاقات کے لیے تو
چیف منسٹر یہاں تشریف لا رہے ہیں ۔ یہ پیغام لے کر وہ پولیس آفیسر ہمارے
پاس آیا اور ہمیں اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا ۔ جیسے ہی میں بیورو کریسی اور
پولیس افسران کے ہجوم ہم دونوں پہنچے تو سب کی نگاہوں کا میں مرکز تھا ۔
فردا فردا سب سے پرجوش ملاقات بھی ہوئی۔اندر سے میں خوفزدہ تھا لیکن اپنا
زبردست استقبال دیکھ کر میں مضبوط ہوگیا کہ معاملہ اتنا خراب نہیں ہے جتنا
میں سمجھ رہاہوں ۔ ( وہ دراصل صحافی کی حیثیت سے مجھے عزت دے رہے تھے
)ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے اور ڈی سی لاہور کے درمیانی کرسی پر مجھے
بٹھایاگیا جبکہ چوہدری عبدالمجید صاحب پچھلے لائن میں بیٹھ گئے ۔
وائر لیس پر مختلف قسم کی آوازیں بلند ہورہی تھیں ٹریفک پولیس کے اہلکار
اپنے کنٹرول کو وزیراعلی کی نقل و حرکت کے بارے میں آگاہ کررہے تھے ۔ اس
بات سے قارئین بخوبی آگاہ ہوں گے کہ پاکستان میں وزیر اعلی کا پروٹوکول کیا
ہوتا ہے ۔ پوری انتظامی مشینری حرکت میں ہوتی ہے جو پورے علاقے کو چوبیس
گھنٹے پہلے سیکورٹی کے اعتبار سے کلیئر کرکے اس کا چارج سنبھال لیتی ہے
۔پھر وہاں سے کوئی ایرا غیرا گزر نہیں سکتا ۔ بلکہ وہاں جن افراد کو آنے کی
اجازت ملتی ہے ان کی جسمانی تلاشی لی جاتی ہے ۔پھر کہیں انہیں اس مقام پر
آنے کی اجازت ملتی ہے جہاں چیف منسٹر کا وزٹ متوقع ہوتا ہے ۔
بہرحال آدھا گھنٹہ باہمی گفتگو جاری رہی ۔ میں نے محسوس کیا کہ ڈی سی
اولاہور جناب ناصر کھوسہ صاحب انتہائی اچھے اور پرخلوص انسان ہیں بلکہ
انہوں نے مجھے اپنے آفس کا نمبر بھی دے دیا ۔اگر کوئی کام ہوتو مجھے کال کر
سکتے ہیں ۔ میں اس ملاقات سے بے حد خوش تھا ۔ ہوٹر بجنے کی زبردست آواز
سنائی اور کیمپ آفس میں موجود ہر شخص الرٹ ہوگیا ۔ میرے جسم میں بھی بجلیاں
دوڑنے لگیں کیونکہ آنے والی شخصیت کا ملاقاتی تو میں ہی تھا ۔ چند ہی لمحوں
بعد چیف منسٹر سیاہ رنگ کی گاڑی سے اترے اور بیورو کریسی سے ہاتھ ملایا اور
آتے ہی پوچھا لودھی صاحب کو بلایا ہے یہاں کہ نہیں ۔ ڈی سی لاہور نے کہا سر
وہ موجود ہیں ۔ یہ سن کر وہ سیدھے میرے پاس آگئے اور مجھ سے نہایت عزت و
احترام مصافحہ کیا اور پوچھا لودھی صاحب آپ تو اتنا اچھالکھنے والے
ہیں۔یکدم آپ کو کیا ہوگا کہ آپ نے میری تمام ترقیاتی کاموں کو تخریب سے
تعبیر کردیا ۔ نہایت ادب کے ساتھ میں نے کہا سر میں آپ کو جواب نہیں دوں گا
بلکہ موقعہ دکھاؤں گا جس کی نشاندھی میں نے اپنے کالم میں کی ہے ۔ فلائی
اوور بننا نہایت اچھی بات ہے لیکن جس طرح متبادل راستہ دیئے بغیر اس فلائی
اوور کی تعمیر شروع کردی گئی ہے وہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے ۔اس صورت حال
میں اردگرد کے رہنے والے تمام لوگ سخت پریشان ہیں ۔آپ خود مشاہدہ کرلیں۔
شہباز شریف نے میری گفتگو نہایت آرام سے سننے کے بعد میرے کندھے پر ہاتھ
رکھا اورہم اس طرف چل پڑے جن جگہوں کی میں نے نشاندھی کی تھی ۔ میں نے وہ
تمام پوائنٹ دکھائے تو شہباز شریف نے صورت حال کواپنی آنکھوں سے دیکھ کر
کہالودھی صاحب ٹھیک کہتے ہیں اور ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے سے مخاطب ہوکر
کہا فوری طورپر متبادل راستہ بنایاجائے اور اسلم لودھی صاحب کو لاہورکی
ڈویلپمنٹ کمیٹی کا ممبر بنایا جائے ۔ اس کمیٹی میں ایم این اے خواجہ سعد
رفیق ٗ ایم این اے کامل علی آغا ٗ ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلشینز شعیب بن عزیز
اور میڈاس ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا نمائندہ شامل ہوگا ۔ یہ کہہ کر شہباز شریف
واپس گاڑی میں بیٹھ گئے اور یہ جا وہ جا ۔
اس کمیٹی کے دو تین اجلاس ڈی جی پی آر آفس میں ڈائریکٹر پی آرٗجناب انوار
الحق کے کمرے میں منعقد ہوئے۔ کمیٹی کے اجلاس میں پرانے لاہور کے اردگرد
بڑی سڑکوں کی تعمیر ٗ پارک اور کاروباری ادارے نئے سر ے سے بنانے کا منصوبہ
زیر غور تھا ۔10 ارب کے اس منصوبے کی فنڈنگ ورلڈ بنک کررہا تھا ۔ابھی اس
کمیٹی کے اراکین پراجیکٹ کو فائنل شکل دے ہی رہے تھے کہ جنرل پرویز مشرف کا
مارشل لاء نافذ ہوگیا اور حکومتوں سمیت تمام کمیٹیاں خود بخود ٹوٹ گئیں اور
ہم اپنے اپنے گھر چلے آئے۔بعد میں جو کچھ شریف برادران اور ان کے رفقائے
کارکے ساتھ مشرف نے سلوک کیا وہ یقینا سب کو یاد ہوگا ۔ کچھ عرصہ بعد میں
اسی کمرے میں داخل ہوا تو وہاں بیٹھنے والے تمام افراد اجنبی تھے ۔ وہاں
کھڑے ہوکر میں نے سب کومخاطب کرکے کہاکہ کرسیاں وہی ہیں لیکن بیٹھنے والے
انسان بدل چکے ہیں ۔ اس کے باوجودکہ یہ بہت بڑا سبق ہے لیکن انسان بہت جلد
ایسی باتوں کو بھول جاتا ہے ۔
درحقیقت کرسی کانشہ ہی کچھ ایساہے کہ انسان اس پر بیٹھ کر سب کچھ بھول جاتا
ہے ۔ یہ کرسی مسجد کی ہو یا اقتدار کی ۔ کرسی ٗکرسی ہوتی ہے اوراس پر
بیٹھنے والے دوسروں کو یکسر بھول جاتے ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے قوم سے
خطاب کرتے ہوئے کرسی پر ہاتھ مار کر کہا تھا۔" یہ کرسی بہت مضبوط ہے" ۔
کرسی تو واقعی مضبوط تھی لیکن کرسی پر بیٹھنے والا مضبوط نہیں رہا ۔بے نظیر
نے اپنے والد کی طرح روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگاکر منصب وزارت عظمی حاصل کی
۔ کرسی پر بیٹھتے ہی سب کچھ بھول گئی ۔ اسی حوالے سے ایک اور واقعے کا ذکر
یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔روئیداد خان نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جب بے
نظیر بھٹو اپوزیشن لیڈر تھیں اور میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان تھے۔ بے
نظیر نے اس وقت کے صدر اسحاق خان کے ساتھ مل کر سازشوں کے خطرناک جال بنے
اور سودہ یہ طے پایا کہ اگر تم نواز شریف کی حکومت ختم کردو تو میں آپکو
اپنی پارٹی کا صدر بنا لوں گی ۔ اس کے باوجود کہ اسحاق خان بہت تجربہ کار
اور منجھے ہوئے بیوروکریٹ تھے لیکن وہ بھی بے نظیر کی چال کو سمجھ نہ سکے
اور وہ سب کچھ کردیا جس کا تقاضہ بے نظیر بھٹو نے کیا تھا ۔ میاں نواز شریف
اسحاق خان کے ہاتھوں ڈس مس ہوکر گھر چلے آئے ۔جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنی
تو اسحاق خان نے وعدے کے مطابق صدارتی الیکشن میں اپنے کاغذات جمع کروادیئے
۔ انہیں اس وقت خفت کا سامناکرنا پڑا جب بے نظیر نے فاروق لغاری کواپنا
امیدوار ڈیکلر کردیا ۔اخبارات میں فاروق لغاری کا صدارتی امیدوار کی حیثیت
سے نام دیکھ کر اسحاق خان نے بے نظیر کو فون کیا اور انہیں اپنا وعدہ یاد
دلایا ۔ بے نظیر بھٹو نے کہا خان صاحب سیاسی وعدوں کی کوئی گارنٹی نہیں
ہوتی ۔ میں تو آپ سے مذاق کررہی تھی آپ سنجیدہ ہی ہوگئے ۔
****************
میں جس مسجد ( اﷲ کی رحمت ) میں نماز پڑھتا ہوں ۔ گھٹنے کے آپریشن کی وجہ
سے میں بھی کرسی پر بیٹھ کر ہی نماز ادا کرتاہوں ۔ میرے ساتھ کرامت اﷲ صاحب
ٗ صادق صاحب ٗ شیر محمد صاحب سمیت کئی عمررسیدہ افراد کرسیوں پر نمازادا
کرتے ہیں ۔ تین سال پہلے کرسیوں پر بیٹھنے والے لوگ دو تین ہی تھے ۔ جیسے
جیسے نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اسی طرح عمررسیدہ لوگوں کی
تعداد بھی بڑھتی گئی ۔اب صورت حال یہ بن چکی ہے کہ کسی نماز میں تھوڑا سا
بھی لیٹ ہوجاؤں تو کرسی نہیں ملتی ۔ بلکہ ایک نماز مجھے کھڑے ہوکر پڑھنی
پڑھی تو میں نے کرامت اﷲ صاحب کو مخاطب کرکے کہا۔ لگتا ہے اب یہاں بھی
پولیس کو بلانا ہی پڑے گا۔پولیس کو صرف یہ بتانے کی دیر ہے کہ ان بابوں میں
بھی ایک دہشت گرد چھپا ہوا ہے بس پھر کیاہے پولیس نے دیکھے اور جانے بغیر
ہی لاٹھی چارج شروع کردینا ہے اور سب بابے جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگ
جائیں جیسے اس ہسپتال میں بھاگے تھے جہاں اچانک آگ لگ گئی تھی ۔ میری بات
پر کرامت اﷲ صاحب نے قہقہہ لگایا اورکہا ہاں واقعی مسجدکی کرسیاں خالی
کروانے کے لیے یہ نسخہ ٹھیک رہے گا ۔
نماز جمعہ کے وقت تو کرسیوں کا کال پڑتا ہی تھا ۔ اب عام نمازوں میں بھی
بابوں کی تعداد دن بدن حد سے بڑھتی جارہی ہے جس سے تمام پرانے بابوں میں
تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ میں نے ایک دن نہایت ادب سے امام مسجد ٗ قابل
احترام جناب قاری محمد اقبال صاحب سے گزارش کی کہ بابوں کی تعداد کچھ زیادہ
ہی ہو تی جارہی ہے اگر ممکن ہوسکے تو پانچ سات کرسیاں مزید منگوا لیں ۔تاکہ
سب کوآسانی سے کرسی مل جائے ۔ قاری صاحب پہلے تو میری بات پر مسکرائے پھر
سنجیدہ لہجے میں بولے آپ مزید کرسیاں منگوانے کی بات کررہے ہیں ۔میں تو
سوچا رہا ہوں کہ دو چار کرسیاں اٹھوالی جائیں کیونکہ ہماری مسجد کا ایک حصہ
کرسیوں سے بھرا نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کچھ
نقلی بابے بھی حقیقی بابوں کا روپ دھارکرکرسیوں پر خواب خرگوش کے مزے لوٹتے
نظر آتے ہیں ۔ جمعہ کی وعظ کرنے کے دوران جب بھی میری نگاہ اس جانب پڑتی ہے
تو آدھے بابے گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں اور باقی آدھے اونگھتے نظر آتے ہیں
۔ کیا مسجد سونے کی جگہ ہے ۔ جو لوگ واقعی شرعی نقص یا بیماری کی وجہ سے
نیچے بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتے ۔اﷲ کے نبی ﷺ نے ان کے لیے کرسی پر بیٹھ
کر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے لیکن کئی صحت مند لوگ بھی آرام کی خاطر کرسیوں
پر براجمان دیکھے جارہے ہیں۔جو تشویش کی بات ہے ۔شاید ان کی شناخت کا وقت
آپہنچا ہے ۔اس سے پہلے کہ میں خود انہیں اٹھا دوں انہیں چاہیئے کہ وہ عام
نمازیوں کی طرح نماز ادا کیا کریں ۔
میں نے دل میں سوچا کہ یہاں تو بات ہی الٹ ہو گئی ہے ۔قاری صاحب کی گفتگو
کا اثر یہ ہوا کہ واقعی دو افراد نے کرسی کو خیر باد کہہ کر نارمل طریقے سے
نماز کی ادائیگی شروع کردی۔ صادق صاحب جو بظاہر جسمانی طور پر قابل رشک صحت
کے مالک نظر آتے ہیں انہیں ٹخنے میں کچھ درد رہتی ہے ٗوہ بھی کرسی کو خیر
بادکہہ گئے ۔کرامت اﷲ صاحب جو سب سے سینئر بابے ہیں اور میں انہیں بابا
ایسو سی ایشن کا چیرمین کہتا ہوں وہ بھی قاری صاحب کی للکار پر کرسی چھوڑ
کر زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے ۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ قاری صاحب نے
آپ کے لیے یہ بات نہیں کی ۔آپ نقلی نہیں اصلی بابے ہیں۔ آپ کرسی پر ہی نماز
پڑھا کریں لیکن وہ تو ہڑتالی موڈ میں تھے کسی کی بات پر بھی کان دھرنے کو
تیار نہ تھے چنانچہ دو ہفتے زمین پرہی بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ
انہیں زمین پر بیٹھنے اور کھڑا ہونے میں خاصی دقت کاسامنا تھا لیکن وہ قاری
صاحب کو دکھانے کے لیے ایسا کررہے تھے ۔
قصہ مختصر یہ کہ کرسی کانشہ بھی خوب ہے اور کرسی وفادار بھی کسی کی نہیں
ہوتی ۔ وہ اسی کی ہوتی ہے جو اس پر قابض ہوتا ہے ۔ پاکستان میں ستر سالوں
سے کرسی کی جنگ جاری ہے۔ جائز اور ناجائز ہر قسم کے حربے استعمال کرکے کرسی
پر قبضہ جمانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ نواز شریف سے چوتھی بارکرسی سنبھالی
نہیں گئی ۔ ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی نیا مخالف سر اٹھتا ہے اور انہیں کرسی سے
اٹھا دیتا ہے اس مرتبہ عمران خان نے یہ فریضہ انجام دیا ہے ۔ دیکھتے 2018ء
کے الیکشن میں کس کو اقتدار کی یہ کرسی ملتی ہے اور کون اسے مضبوطی سے تھام
کے رکھتا ہے ۔ |