بزرگوں کا کہنا ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے ،پرہیز علاج
سے بہتر ہے اور صحت کی قدر بیمار سے پوچھی جائے کہ صحت کیاہوتی ہے ۔۔؟بیمار
انسان مرض سے فوری نجات کا طلب گار ہوتا ہے ا س لئے علاج بھی ایسے ہی ڈاکٹر
سے کروانے کو ترجیح دیتا ہے جو انہیں ایسی دوا تجویز کرے کہ جس کی بدولت
اسے فوری آرام آجائے ۔مریضوں کی اسی خواہش کے پیش نظر ڈاکٹر اور حکیم حضرات
لوگوں کا علاج ’’سٹرائیڈز‘‘ اور’’ اینٹی بائیوٹک‘‘ ادویات سے کرتے
ہیں۔ڈاکٹر وں ،حکیموں اور عطائیوں کی لوٹ مار اور بھاری فیسوں کی وجہ سے
اکثر لوگ اپنے دوست احباب کے مشورے یا از خود بغیر کسی ڈاکٹری نسخے یا چیک
اَپ کے عام ادویات یا ’’ اینٹی بائیوٹک‘‘استعمال کرتے رہتے ہیں ۔لوگوں کی
اکثریت’’ اینٹی بائیوٹک‘‘ادویات کے مابعد اثرات سے قطعاً کوئی آگاہی نہیں
رکھتی۔ڈاکٹر حضرات کا زور بھی ’’ اینٹی بائیوٹک‘‘ ادویات کے استعمال پر
مرکوز رہتا ہے ۔گذشتہ30سالوں میں علاج معالجہ کے سلسلے میں بے دریغ
’’سٹرائیڈز ‘‘اور ’’ اینٹی بائیوٹک‘‘ کا استعمال انسانی جانوں کیلئے عذاب
کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ ’’سٹرائیڈز ‘‘ کے ا ستعمال کی وجہ سے بیسیوں
لوگ موت کے منہ میں جا چکے ہیں مگر ’’مسیحا ‘‘ہیں کہ اپنی پریکٹس کو وسعت
دینے کے لئے انہی کا سہارا لئے ہوئے ہیں ۔16اقسام کے ان’’سٹرائیڈز ‘‘ پر
پوری دنیا میں پابندی ہے مگر ممنوعہ اور مضر صحت و جاں ہونے کے باوجود
پاکستان بھر میں دھڑلے سے فروخت کئے جاتے ہیں ۔ نیم حکیم خطرہ جاں قسم کے
عطائی تو اپنی جگہ’’سٹرائیڈز ‘‘ سے اپنا دھندہ چلا رہے ہیں لیکن المیہ یہ
ہے کہ بڑے بڑے کوالیفائیڈ ڈاکٹر بھی ان کا بے دریغ استعمال کروا رہے ہیں ۔مگر
کوئی پوچھنے والا نہیں گذشتہ کئی سالوں نے جاری اس پریکٹس کے اثرات اب
انسانی جانوں پر ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں ۔
ضرورت سے زیادہ ،کم یا غلط اینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کرنے کے انتہائی
خطرناک نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں اینٹی
بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت بڑھنے لگی ہے مریضوں پر پہلی یا دوسری کی
بجائے تیسری یا چوتھی جنریشن ادویات کا استعمال معمول بن چکا ہے ۔ادھورے
نسخے ، زیادہ یا کم مقدار، ادویات کے استعمال کا لامحدود دورانیہ بھی
مزاحمت بڑھنے کی بڑی وجہ ہے۔مزاحمت بڑھنے کے باعث ادویات سے اپنا اثر کھو
دیا ہے ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال لاکھوں افراد ’’اینٹی
بائیوٹکس‘‘کے خلاف مزاحمت کے باعث مر جاتے ہیں ۔اب جبکہ عالمی ادارہ صحت
13سے 19نومبر 2017ء تک اینٹی بائیوٹک ادویات سے آگاہی کا ہفتہ منا نے کا
اعلان کیا ہے ۔ اس ہفتے کے دوران ڈبلیو ایچ او کی ہدایات کی روشنی میں قومی
ادارہ صحت کی زیر نگرانی ملک بھر میں واکس ،سیمینار اور دیگر پروگراموں کا
انعقاد کیا جا رہا ہے ۔جن کا مقصد عوام کو مکمل آگاہی فراہم کرنا ہے ۔وفاقی
وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ نے بھی کہا ہے کہ بلا ضرورت اینٹی بائیوٹکس کا
استعمال مزاحمت بڑھانے کا سبب بن رہا ہے ہمیں اینٹی بائیوٹک مزاحمت کے
روکنے کیلئے اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کو روکنا ہوگا ۔انہوں نے کہا
ہے کہ ہماری وزارت نے اس حوالے سے تما شراکت داروا کی مشاورت سے ’’قومی
ایکشن پلان برائے اینٹی بائیوٹکس مزاحمت‘‘ تشکیل دیا ہے جس کے تحت عملہ صحت
کی تربیت و آگاہی کا کام شروع کیا گیا ہے ۔قومی ادارہ صحت اور قومی ادارہ
برائے زرعی تحقیق انسانی و حیوانی صحت کے حوالے سے اینٹی بائیوٹک مزاحمت کو
فوکل پوائنٹ قرار دیا گیا ہے ان اداروں کو عالمی ادارہ صحت کی فنی مدد حاصل
ہو گی ۔اس مہم کے دوران عوام و خواص کو چاہئیے کہ وہ اینٹی بائیوٹک ادویات
کے استعمال اور ان کے مابعد مضر اثرات سے مکمل آگاہی حاصل کریں ۔میڈیا کا
بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس حوالے سے ایسے پروگرامز مرتب کرے کہ جن سے لوگ
استفادہ کر سکیں ۔
ہر انسان کا اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے ۔گرم ،سرد ،خشک و تر اس لئے ہمیں یہ
بات ذہین نشین کر لینا چاہئے کہ کسی بیماری میں ایک دوا جو کسی بیمار کی
صحت یابی کا سبب بن رہی ہے ضروری نہیں کہ وہی دوا اسی بیماری میں دوسری
مریض کو بھی فائدہ پہنچائے ۔ سب سے بنیادی اور اہم بات مرض کی تشخیص ہے ۔یہ
کام بہر حال ڈاکٹر یا حکیم کا ہی ہے کہ وہ مرض کی صحیح تشخیص کرے ۔اس کے
بعد اُس کی دوا تجویز کرے ۔مریض اور اس کے لواحقین کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی
ہے کہ ڈاکٹر انہیں ایسی دوا دے کہ جس کو کھاتے ہی اسے آرام آ جائے خاص طور
پر جسم کے کسی بھی حصے میں درد کی صورت میں مریض فوری آرام کا خواہش مند
ہوتا ہے ۔ مریض کی اسی خواہش کے پیش نظر ڈاکٹر انہیں ’’اسٹرئیڈز‘‘یا
’’اینٹی بائیوٹکس‘‘لکھ کر دے دیتا ہے ۔’’اینٹی بائیوٹکس‘‘کا ایک کورس ہوتا
ہے ۔اس سے زیادہ اس کا استعمال مزید خرابیاں پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے
۔لیکن ہوتا یہ ہے کہ مریض ڈاکٹر کی ہدایات کو نظر انداز کرکے ،باربار ڈاکٹر
حضرات کی بھاری فیسیوں کی ادائیگی کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے یاان کی عدم
دلچسپی کی وجہ سے از خود ہی ایسی دوا کا استعمال جاری رکھتا ہے ۔ ایسی صورت
میں انسان کو آگے چل کر فائدے کی بجائے نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔مرض اس قدر
بڑھ جاتا ہے کہ ڈاکٹر حضرات کے لئے اس کا علاج کرنا دشوار ہو جاتا ہے ۔کوئی
دوا مریض پر اثر نہیں کرتی کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ ’’اینٹی
بائیوٹکس‘‘اپنے جسم میں اتار چکا ہوتا ہے ۔آرام نہ آنے کی صورت میں باربار
ڈاکٹر تبدیل کرنا بھی مرض سے نجات میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے کیونکہ ڈاکٹرجس
سے علاج کروایا جا رہا ہوتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مریض کو کتنی
طاقت کی’’اینٹی بائیوٹکس‘‘لکھ کر دی ہے ،دوسرا ڈاکٹر جیسے ہم پہلے ڈاکٹر کے
تجویز کردہ نسخہ جات سے آگاہی فراہم نہیں کرتے وہ اپنی سوچ اور تجربے کی
روشنی میں علاج شروع کر دیتا ہے ۔اس طرح مزید خرابیاں پیدا ہونے لگتی ہیں
۔ایک بات ہمیں ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ ایک نئی دوا پر 40ارب خرچ آتے ہیں
اس لئے نئی اینٹی بائیوٹکس ادویات بننے کی رفتار بھی کم ہو گئی ہے ۔ماہرین
کے مطابق پاکستان میں80اینٹی بائیوٹکس دستیاب ہیں جبکہ گزشتہ8سالوں میں
صرف5اینٹی بائیوٹکس بنائی جا سکی ہیں ۔غیر ضروری ادویات کا استعمال نہ روکا
گیا تو دنیا معجزاتی علاج سے بھی محروم ہو سکتی ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ
دواساز ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے کاروبار کو وسعت دینے کیلئے سال ہاسال سے
ایسی ہی ’’اینٹی بائیوٹکس ‘‘بنانے پر اربوں روپے خرچ کر رہی ہیں کہ جن کے
استعمال سے انسان ایک مرض سے نجات پاتا ہے تو انہی ادویات کے مابعد اثرات
کے نتیجے میں انسان کوچار قسم کی اور بیماریاں لگ جاتی ہیں ۔لوگوں کے گردے
، پھیپھڑے متاثر ہونے لگتے ہیں ۔ ان کمپنیوں کو اچھی طرح یہ بات پتہ ہوتی
ہے کہ انہوں نے جوجو ادویات مارکیٹ میں سپلائی کی ہیں ان کے استعمال سے
آئندہ لوگوں کو کیا کیا بیماریاں اپنی گرفت میں لیں گی ۔اس لئے اسی کے
مطابق ادویات بنائی جاتی ہیں۔لہذاء ہمیں اپنی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے
اپنی خوراک پر توجہ دینا چاہئے ۔اپنے معمولات زندگی پر غور کرنا چاہئے ،بہت
سی بیماریاں ہماری لاپرواہیوں کی وجہ سے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں
۔۔پرہیز علاج سے بہتر ہے اس ایک بات پر عمل ہمیں کئی بیماریوں سے بچا سکتا
ہے ۔مگر ہم اس طرف دھیان ہی نہیں دیتے ڈاکٹرز حضرات دکھی انسانیت کی خدمت
کا فریضہ ادا کرنے کو مقدم سمجھیں کیونکہ اسی میں دنیا و آخرت کی سرخروئی
کا سامان ہے ۔ ’’اینٹی بائیوٹکس‘‘کے غیر ضروری نسخے لکھنے سے اجتناب برتیں
اور مریضوں کو بھی چاہیئے کہ وہ ڈاکٹرز کے مشورے کے بغیر ازخود اپنا علاج
نہ کریں ۔ ’’اینٹی بائیوٹکس‘‘کا غیر ضروری استعمال جسم میں ایسی ایسی
خرابیاں پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے کہ جس کا بعد ازاں کوئی علاج نہیں ہوتا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ’’اینٹی بائیوٹکس‘‘ کے بلا وجہ استعمال سے گریز
کریں اور اپنی خوراک کے ساتھ ساتھ اپنے رہن سہن پر توجہ دیں ایسی صورت میں
ہم صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں ۔ |