دلی تیرا شکریہ

 1947ء سے لے کر آج تک کشمیر کے تئیں نئی دہلی کی اپنائی گئی پالیسی کا بغور جائزہ لینے کے بعد ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ نئی دہلی کے پالیسی ساز اداروں میں براجمان تعصب و نفرت کے خمیر میں بوڑھے ہو رہے افرادکے بعد ایسے نوجوانوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو کشمیر کے ہر مسئلے کو تعصب کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔مدد کے نام پرکشمیر پر قبضہ کی ہی کہانی کے بعد اقوام متحدہ سے لیکرنرسیماراؤکی sky is the limitاور واجپائی کے ’’دائرہ انسانیت‘‘تک ان کے دعوؤں اور باتوں کا جائزہ لیجیے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک طرف چند میٹھے بولوں سے دنیا کو بیوقوف بنایا جا رہاہے وہی دوسری جانب ایک چھوٹی سی قوم سے متعلق اسرائیل سے بھی زیادہ جارحانہ پالیسی اپناکر اس کا جینا حرام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جارہی ہے ۔مہاراجہ ہر ی سنگھ کے بعد جن کشمیری لیڈروں کو اقتدار کی کرسی پر بٹھایا گیا ان میں اکثر کو مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیار کرنے یا دلی کے منشا کے عین مطابق بات کرنے کے عوض ہی کرسی عطا کی گئی ۔جب بھی کسی نے دلی کے منشا کے برعکس بات کرنے کی کوشش کی بلا لحاظ عمر اس کو مریض سید علی شاہ گیلانی کی طرح یا تو نظر بند کیا گیا یا شبیر احمد شاہ اور دیگر حریت لیڈران کی طرح مشکوک اور مبہم کیسوں میں پھنسا کر تہاڑ جیل کی زینت بنا دیا گیا ،حتیٰ کہ مردو زن کی تخصیص کے بغیر ہی انھیں بیمار آسیہ اندرابی کی طرح پابندِسلاسل کر کے پریشان کیا جاتا رہا،نہیں تو مسرت عالم ،ڈاکٹر محمد قاسم ،ڈاکٹر شفیع شریعتی اور دیگر سیاسی لیڈران کا جرم کیا ہے سوائے اس کے کہ وہ لوگ وہی حق مانگتے ہیں جس کا وعدہ دلی والوں نے کیا تھا اور اس حق کا نام آزادی ہے مرعات نہیں۔

سیاسی لیڈران ہی کیا اب عرصے سے علماء اور دیگر شعبہائے حیات سے وابستہ دانشوروں کو بھی نت نئے طریقوں سے زچ کیا جا رہا ہے ۔میر واعظ عمر فاروق ہوں میر واعظ قاضی یاسر انہیں کبھی گرفتاری اور کبھی نظر بندی کے چکر میں رکھ کر پریشان رکھ کر یہ سمجھا رہا ہے کہ شاید اب یا تب یہ ’’بدل ‘‘جائیں گے ۔اکثر سیاسی لیڈران کو نظر بند رکھنے کی پالیسی بلا جھجک گذشتہ تین برس سے وہی حکمران اپنانے پر بضد ہیں جو 2014ء سے قبل نیشل اور کانگریس کی کولیشن سرکار کو ایک سید علی گیلانی کو نظر بند رکھنے پر باربار لتاڑتی تھی جبکہ آج نچلے درجے کے سیاسی کارکنان کو یا تو گرفتار کیا جاتا ہے یا کم سے کم نظر بند !گذشتہ تین برس میں اِس حکومت نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ کر’’علماءِ کشمیر‘‘کو ذاتی اور مدارس کی تفصیلات فراہم کرنے کے نام اتنا تنگ کر رکھا ہے کہ ہر دوسرے دن پولیس اور سی ،آئی ،ڈی اہلکارمدراس میں گھس کرانھیں حراساں کر رہے ہیں ۔کبھی بچوں کی تفصیل ،کبھی استادوں کے کوائف ،کبھی آمدنی اور کبھی اخراجات فراہم کرنے کے نام پر پریشان کیا جاتا ہے ۔اور تواور اس حکومت نے قلمکاروں اور دانشوروں کو بھی ذلیل کرنے میں کسر باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ہر تیسرے دن کے بعد کبھی ایک چیز مانگی جاتی ہے اور کبھی دوسری ۔اور یہ کارنامہ گزشتہ تمام حکومتوں کے ریکارڈ توڑنے کی قسم کھائی موجودہ حکومت اس حد تک گر چکی ہے کہ زندگی بھر نیشنل کو کوسنی والے یہ لوگ ماضی کے شور شرابے کو بھول کر نئے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں ۔

سنگ دلانِ دلی سے گلہ نہیں پر کشمیر واسیوں کو آخر کشمیریوں پر مظالم ڈھاتے ہو ئے ’’مسرت‘‘کیوں محسوس ہو رہی ہے ؟کیا ان کے اندر انسانی جذبات مر چکے ہیں ؟کیا ان میں انسانی ہمدردی نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ؟ان لوگوں نے تو ہم قوم اور ہر مذہب ہونے کا بھی کوئی خیال نہیں کیا ہے ۔نئی دہلی کی پالیسی کے صرف دو پہلو ہیں ایک پیسے کے عوض قومی وفاداری کی فروخت دوم طاقت سے زیر کرنے کے چانکیائی حربے ۔سن سنتالیس سے لے کر آج تک آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے انھوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کو لالچ دیکر الحاق پرفراڈ طریقے سے دستخط کرائے ۔اس کے بعد شیخ عبداﷲ کو جس طرح شیشے میں اتارنے کی کوشش کی وہ تاریخ کشمیر کا سب سے عبرتناک باب ہے ۔اسی کے ساتھ ہی ساتھ جو رول بخشی غلام محمد سے لیکر مفتی سعیداور اب ان کی ’’لاڈلی‘‘کا نظر آرہا ہے یہ صرف اقتدار اور دولت کا لالچ ہے ۔پر المیہ یہ ہے کہ یہ مین اسٹریم سے وابستہ بھارت نواز حکمران اور لیڈران 2017ء میں بھی نئی نسل کو ستر کے عشرے کے’’ کم تعلیم یافتہ سلہ اور گلہ‘‘ ہی تصور کر رہے ہیں ۔نئی پود نا صرف لکھی پڑھی ہے بلکہ ڈر اور خوف اس کے حاشیے پر بھی نظر نہیں آتا ہے ۔ ان میں دوسروں کے جینے کے لئے مرنے کا جذبہ بھارت کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ہی پروان چڑھا ہے ۔

1990ء میں عسکریت کے آغاز کے ساتھ ہی ساتھ نئی دہلی کے ’’بابوں‘‘نے سیکورٹی ایجنسیوں کو کھلی چھوٹ دینے کی نا صرف وکالت کی ہے بلکہ ہر چھوٹ اور قانونی طاقت فراہم کرنے کے بعد افسپا کے ساتھ ساتھ ٹاڈا اور پوٹا کی آڑ میں کشمیری مسلمانوں کو کچلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا؟اب تک اٹھائیس برس پرانی یہ سوچ موجود ہے کہ ہمیں کھلی چھوٹ کے بعد اب مکمل چھوٹ دینی چاہیے تاکہ ’’قتل عام ‘‘کے بعد وسیع قتل عام ممکن ہو سکے ۔ سوشل میڈیا پر آپ ’’سنگھ پریوار ‘‘سے وابستہ لیڈروں اور کارکنوں کی باتوں کو سن لیجیے تو وہ کشمیر میں برماکی فارمولہ اپنانے کی وکالت کرتے ہو ئے نظرآتے ہیں حالانکہ بھارت کشمیر میں برما سے مختلف پالیسی نہیں اپنا رہا ہے بس فرق یہ ہے کہ یہ آہستہ آہستہ سب کچھ کرتا ہے جبکہ میانمار ایک ساتھ کر کے دنیا بھر کی بدنامی مول لے چکا ہے ۔بھارت کی متضاد پالیسی اسے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے ؟کہ ایک طرف نوے کے عشرے میں یہی لوگ کشمیریوں کو بندوق چھوڑ کر میز پر آنے کا وظیفہ ورد کرتے ہو ئے نہیں تھکتے تھے اور جب کشمیریوں نے انہی کے منشا کے عین مطابق 2008ء سے اب تک پر امن طرز جدوجہد اختیار کر رکھا ہے تو آخر اب دلی کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں ؟آخر اب ’’جرنل صاحب ‘‘پتھر اٹھانے والے ہاتھوں میں بندوق دیکھنے کے متمنی کیوں ہیں ؟
بھارت میں بے شمارت قومیں آباد ہیں چاہیے وہ مرضی سے یہاں رہتی ہیں یااپنی مرضی کے خلاف ۔قانون ہر ایک کے مال و جان،عزت و آبرو اور مذہب کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔ساتھ ہی ساتھ آئین میں جلی حروف سے اظہار رائے کی آزادی اور ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج کرنے کا حق بھی موجود ہے مگر کشمیر کی وادی میں داخل ہوتے ہی یہ کتاب بالکل مختلف نظر آتی ہے ۔یہاں نا اظہار رائے کی آزادی ہے نا ہی ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج کے حقوق کا کوئی تصور موجود ہے اور جو بھی شخص قانون کی اس دفعہ کا استعمال کرتے ہو ئے اس پر عمل کر کے بھارت کو آئینہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کو ہزار طریقوں سے پریشان کیا جاتا ہے اور حریت کانفرنس کا ’’سیاسی پلیٹ فارم‘‘اس کی جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ اور تو اور سوشل میڈیا کا استعمال بھی ’’دلی کے مزاج کی رعایت نا کرنے کی صورت میں ‘‘ممنوع ہے۔کشمیر میں سوشل میڈیا بھی قید ہے ۔جہاں بھی لوگ احتجاج کرنے سڑکوں پر آتے ہیں انتظامیہ اولین فرصت میں وہاں انٹرنیٹ کی سہولت ختم کردیتی ہے اور بسااوقات ٹیلی فون بھی ۔کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں 2016ء میں ناصرف انٹرنیٹ بند کیا گیا بلکہ صارفین کوٹیلی فون سہولیات سے پانچ مہینوں تک محروم رکھا گیا ۔بھارت کس منہ سے جمہوریت کا دعویٰ کر رہا ہے 2008ء سے لے کر2017ء تک اس نے کشمیر میں جمہوریت کے چہرے پر کالک مل رکھی ہے ۔

گیسو تراشی کو ہی لے لیجیے کل تک پورا کشمیر ایک مصیبت میں مبتلا تھا۔ انتظامیہ نے مجرمین کی نشاندہی پر انعام مقرر کر رکھا ہے ۔عوام کو اسلام آباد سے لے کر کپوارہ تک اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ اس میں خود حکومتی ادارے ملوث ہیں اور وہی مجرمین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔عوام یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہے کہ یہ ’’ہسٹیریا‘‘ہے ۔عوام پوچھتی ہے کہ ہسٹیریا صرف کشمیر میں ہی کیوں نظر آتا ہے آخر یہی کچھ جب یو،پی،ہریانہ کے بعد جموں کے چند ضلعوں میں ہوا تو وہاں کے حکمرانوں نے اس طر ح کے شگوفے کیوں نہیں چھوڑے ؟عوام پوچھتی ہے کہ آخر سینکڑوں واقعات کے بعد پولیس اور دیگر سراغرساں ادارے اس کا پتہ لگانے میں ناکام کیوں ہیں ؟عوام پوچھتی ہے کہ آخر ’’بے ہوشی کی قلیل مقدار‘‘جس سے ایک لڑکی یا عورت تین چار منٹ تک ہی بے ہوش رہتی ہے کے استعمال کی ٹریننگ ایک عام فرد کو کون دے سکتا ہے ؟عوام پوچھتی ہے کہ آپریشن تھیٹرس میں استعال ہونے والے بے ہوش کرنے والی ادویات کا استعمال اس مہارت کے ساتھ کون کر سکتا ہے؟ جبکہ ہر واردات میں انیس بیس کے فرق کے ساتھ کافی مماثلت پائی جا رہی ہے ۔کہا گیا کہ یہ ہسٹیریا ہے !پوچھا جا سکتا ہے کہ کشمیر پولیس نے ایسا کیا ’’وظیفہ‘‘پڑھا یا پڑھوایا کہ اچانک گیسو تراشی کے سانحات میں ریکارڈ کمی آچکی ہے ؟کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہو رہی ہے ۔

اتنا ہی نہیں عوام پوچھتی ہے کہ سیکورٹی اداروں اور دفاتر سے دور جن علاقوں میں یہ وارداتیں انجام دی جا چکی ہیں وہاں واردات ہوتے ہی فوج اور پولیس کس طرح پہلے سے موجودہو کر اپنے نازل ہونے کا اظہار کرتی ہے ؟یہ سانحات جہاں بھی ہوئے اور لوگوں نے کسی کو پکڑ بھی لیا تووہاں بلا تاخیر کوئی نا کوئی فوج یا پولیس پارٹی کس طرح ظاہر ہو جاتی تھی؟ اور پھر ان کے ظاہر ہونے کی تاویل کی جاتی ہے آخر کیوں؟18اکتوبر 2017ء کو اسلام آباد کے ایک گاؤں ’’صوفی پورہ ولرہامہ ‘‘میں صبح سویر ے ایک لڑکی کے بال کاٹے گئے صوفی پورا والوں کی چیخ و پکار سے ولرہامہ کا پورا گاؤں سڑک پر نکل آیا ۔گاؤں والوں نے اپنے گاؤں کے بیچوں بیچ نکلنے والی پہلگام روڑ کو دونوں جانب جب بند کیا تو پتہ چلا کہ سیکورٹی فورسز کاموبائل بنکر گاؤں میں موجود ہے۔عوام نے اس کو روک کر جب انھیں ملزم کو نیچے اتارنے کا تقاضا کیا تو انھوں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے نو افراد کو شدید زخمی کردیا جن میں کئی کو آپریشنز کے بعد بچا لیا گیا ہے ۔شام کو میڈیا کے نام جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ گاؤں میں عسکریت پسند موجود تھے جبکہ بیس کلومیٹر کے علاقے میں کوئی بھی مقامی ملی ٹینٹ موجود نہیں ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر میں کام کر رہے سیکورٹی ادارے بے سروپا باتیں کر کے کیا بیغام دینا چاہتے ہیں ۔عوام سمجھتی ہے کہ یہ دلی کی وہ پالیسی ہے جس سے وہ اولاََعوام کی توجہ تحریک آزادی سے ہٹانا چاہتی ہے دوم کشمیریوں کو عدم تحفظ کا احساس دلا کر پولیس کے قریب لانے کی غیر حکیمانہ کوشش ہے جس سے متعلق2010ء کے بعد اب 2016ء میں خوفناک غلط فہمیاں جنم لے چکی ہیں ۔سوم عدم تحفظ کے رویے سے کشمیری عوام کو ہند نواز لیڈروں کی چوکھٹ پا لاکر تحفظ کی بھیک مانگنے کی بے کار کوشش۔

یہی وہ المیہ ہے جو بھارت اب تک سمجھنے سے قاصر ہے اور وہ اس طرح کی انتہائی مضر پالیسیاں اپناتے ہو ئے کشمیریوں کی نفرت میں مزید اضافے کا موجب بن رہا ہے ۔ ان نااہل پالیسی ساز اداروں کو کشمیریوں کی ذہنیت اور غالب رجحان ستر برس گزر جانے کے باوجود سمجھنے میں غلطیوں پر غلطیاں ہو رہی ہیں ۔وہ یہ تک سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کشمیر میں ان کی پالیسیاں نا صرف ناکام ہیں بلکہ اس کا ہر جز الٹا اثر ڈال رہی ہے ۔کشمیریوں کی نئی نسل اگر آزادی کے پس منظر کے برعکس اپنے کسی حق کے لئے بھی سڑکوں پر آتی ہے تووہ وہاں بھی آزادی ہی کے حق میں نعرہ بازی کرتی ہے ۔گیسو تراشی کے واقعات جہاں بھی ہو ئے وہاں مجرمین کو بے نقاب کرنے کے مطالبے کے ساتھ ہی ساتھ’’مطالبہ آزادی‘‘کا نعرہ ہی کیوں غالب رہا ؟کیا دلی والے اس بات کو سمجھنا گوارا کریں گے؟ماضی کو دیکھ کر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ایسا فی الحال ممکن نہیں ہے اس لئے کہ دلی کے پالیسی ساز اداروں پر دو خود غرض عناصر کی گہری چھاپ اب تک موجود ہے نمبر ایک کشمیری پنڈت نمبر دوم جموں و کشمیر کی بھارت نواز لیڈر شپ جو کسی بھی پالیسی کو اولاََ اپنے ذاتی مفاد کے آئینے میں دیکھتی ہے ثانیاََ بھارتی مفادات کو ۔ ایک بات کے لئے پاکستان ،حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند تحریکات کو ’’دلی تیرا شکریہ‘‘کہنا چاہیے کہ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو زندہ رکھنے کا جتنا کام اس کی پالیسیاں انجام دیتی ہیں شاید کھربوں ڈالر خرچ کر کے ایسا ممکن نہیں ہے ۔ بیمار ذہنیت اور بدترین دیوالیہ پن کی اسے زیادہ بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ ٹیلی ویژن چینلز پر روزانہ یہ کہا جا رہا ہے کہ پتھراؤ پاکستان کرارہا ہے اور حریت والے پاکستان کے ٹٹو ہیں اوردوسری ہی سانس میں کہا جاتا ہے کہ حریت کے ساتھ بات چیت نہیں ہوسکتی ہے اب جب حریت نے دنیشور شرما سے بات نا کرنے کا فیصلہ لے لیا تو حریت کو کوسا جا رہا ہے ؟حریت نمائندہ نہیں ہے تو دلی کے ’’غلام میڈیا‘‘کو خوش ہونا چاہیے کہ بجائے اس کے ہم بدنام ہوتے حریت نے ہی ’’نا‘‘کہہ کر میدان صاف کردیا بلکہ الٹے درجن بھر مباحثے اب تک اس مسئلے پر ہو چکے ہیں کہ حریت کو دینشور شرما سے مذاکرات کرنے چاہیے اور نا کہہ کے دروازہ بند نہیں کرنا چاہیے ؟ہم حیران ہیں کہ مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر براجمان یہ اینکر کس مٹی کے بنے ہیں !کیا یہ کبھی اپنی ’’ہفوات ‘‘پر مبنی باتیں دوبارہ سننا گوارا کرتے ہیں ؟نہیں اور یقیناََ نہیں اس لئے کہ جس ملک کے حکام اعلیٰ کی سوچ اور اپروچ میں شدید تضاد ہو وہاں کے میڈیا اور بیروکریسی کے عقل شعور پر اس کے منفی اثرات مرتب یقینی امر ہے ۔

2016ء کی’’ پر تشدد تحریک‘‘میں وزیر داخلہ ایک بڑے پارلیمانی گروپ کے ساتھ مذاکرات کے نام پر وادی کشمیر میں داخل ہو ا ۔چند ایک نجی حیثیت میں سید علی گیلانی ،عمر فاروق ،شبیر احمد شاہ اور دیگر لیڈران سے ملنے ان کے گھر گئے جہاں لیڈران نے 2010ء میں کی گئی لاحاصل بات چیت کا حوالہ دیکر بات کرنے سے انکار کردیا ۔تو وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ایک ہی پریس کانفرنس میں تین باتیں کہیں ایک یہ کہ یہ لوگ حریت والوں کے پاس ذاتی حیثیت میں ملنے گئے تھے دوم حریت نے ’’بات چیت ‘‘سے انکار کر کے بہت بڑی غلطی کی ،سوم یہ پارلمنٹیرینز کی توہین ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آگ و آہن میں لت پت کشمیر میں بڑی دیر بعد جب ایک گروپ ملنے آیاتو اس میں’’ بنیادی مخالفین‘‘سے ملاقات کے لئے جانے والے پارلمنٹیرینز کی نجی حیثیت کیا تھی؟ہاں اگر وہ نجی حیثیت میں آئے تھے تو نجی حیثیت میں انکار پر وزیر داخلہ مشتعل کیوں ہوا اور واویلا نواز میڈیا پر ہاہا کار کیوں مچی؟اور اس کو توہین پر محمول کیوں کیا گیا؟جن مین اسٹریم والوں سے مل کر یہ لوگ گزشتہ ستر برس سے مل کر دلی سدھارجاتے ہیں ان سے باربار مل کر بھی مسئلہ اپنی جگہ زندہ کیوں ہے؟آخر اختلاف جس کے ساتھ ہے اس کی پوزیشن ’’ایک سانس میں مان کر اور دوسرے سانس میں نا مان کر‘‘ دلی کے حکمران اپنے اوپر لوگوں کو ہنسنے کا موقع کیوں دیتے ہیں اور اٹھائیس برس کی طویل مدت سے تحریک کے مرجانے کے خواب میں غلطاں دلی والے اپنے حواس پر رونے کے بجائے شجاعت بخاری صاحب سمیت ان تمام کشمیری پینلسٹوں کو مرثیہ لکھنے پر مجبور کیوں کرتے ہیں جو سمجھاتے سمجھاتے تھک چکے ہیں کہ ’’جناب والا! آپ کا اختلاف جہاد کونسل اور حریت نواز لیڈران سے ہے مین اسٹریم سے نہیں اور آخر اتنی موٹی سی بات آپ کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی ہے جو کشمیر کے پرائمری کلاس کا بچہ سمجھ جاتا ہے ۔سچائی یہ ہے کہ دلی والے چانکیائی اصولوں کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے گوبلز کی روح کو خوش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں کہ ایک جھوٹ سو بار کہو تو وہ سچ بن جائے گا مگر اس اصول کو اپناتے ہوئے ماضی میں بہت سوں کو عارضی کامیابی ضرور ملی مگر اب خود گوبلز کی قوم اس پریہ کہہ کر لعنت بھیجتی ہے کہ جھوٹے اور مکار نے ہماری نسلوں کو برباد کیا جس کا کھٹا پھل اب ہم کھا رہے ہیں اس لئے کہ یہ عالم غیر اصولی سیاست پر کچھ عرصہ ضرور چل سکتاہے ہمیشہ کے لئے نہیں ۔بہتریہ ہے دلی سچائی کا سامنا کرتے ہو ئے اصل مسئلہ سمجھنے میں دیر نا کرے تاکہ کشمیر کے ساتھ ساتھ سواارب آبادی ایک پریشان کن صورتحال سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے ۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 83889 views writer
journalist
political analyst
.. View More