ڈیرہ اسماعیل خان میں مسلح غنڈے مخالفین کی سالہ لڑکی کو
اغوا کرکے برہنہ حالت میں گلیوں میں گھماتے رہے، لیکن قانون ہمیشہ کی طرح
کسی غار میں دم دبائے چھپا بیٹھا رہا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن
کلاں کے علاقہ گرہ مٹ میں حوا کی بیٹی کا تقدس پامال، زمانہ جاہلیت کی یاد
تازہ ہوگئی۔ 27اکتوبر کو مخالفین نے پانی بھر کر گھر جانے والی 16سالہ لڑکی
کو بھرے بازار میں اس کے کپڑے قینچی سے کاٹ ڈالے اور اسے بے لباس کر کے اس
پر تشدد کیا اور اسے بازار میں گھماتے رہے۔ لڑکی گھنٹہ بھر روتی چلاتی رہی
اور مدد کے لیے پکارتی رہی، لیکن بے حس معاشرہ محض تماشبین بنا رہا کوئی
بھی مدد کو نہ آیا، لوگوں پر ڈر اور خوف کا غلبہ رہا۔لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ
دیگر دو لڑکیوں کے ہمراہ تالاب سے پانی بھر کر وآپس گھر جارہی تھی کہ سجاول
نامی شخص نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے مجھے زبردستی اٹھاکر ملزم سیدو کے گھر
لے گئے۔ اس دوران ملزم شاہجہان نے کپڑے پھاڑ دیے اور مجھے گھسیٹا۔ عینی
شاہدین اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ لڑکی بالکل برہنہ ہمارے گھر میں
پناہ کے لیے داخل ہوئی، لیکن ہم اس کی مدد نہ کر سکے اور ملزمان دوبارہ اس
کو اٹھا کر لے گئے۔ایسا تو کبھی زمانہء قدیم میں بھی نہیں ہوا ہوگا کہ کسی
لڑکی کی عزت لوٹنے کے بعد اسے برہنہ بازاروں میں پھرایا گیا ہو۔ ایسا
بھیانک رویہ کسی صورت بھی قابل معافی نہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آنے
والے انسانیت سوز واقعے کے بعد تو لگتا ہے کہ شاید پتھروں کے زمانے میں
رہنے والے افراد ہم سے زیادہ بہتر رہے ہوں گے اور ان کے باہمی اختلافات یا
کسی جھگڑے کی صورت میں فیصلہ کرنے والے افراد انسانیت پر مبنی فیصلے کرتے
ہوں گے۔ پتھر کے زمانے میں بھی زندگی گزرانے کے کچھ اصول وضع تھے، لیکن ڈی
آئی خان میں ایک لڑکی کو سرعام برہنہ کرنے، اس کی عزت لوٹنے اور تذلیل کی
حدیں عبور کرنے کا اندہوناک واقعہ سامنے آنے پر ایسا لگتا ہے، ملک میں کوئی
نظام ہی نہیں ہے۔ غریب عوام کا کوئی والی وارث نہیں۔ دولت اور طاقت کے نشے
میں غرق درندے نما انسان اور ملک کی اشرافیہ کہلانے والے طبقے کے آگے تو
لگتا ہے کہ پولیس اور قانون کے نفاذ کے ذمہ داران ہاتھ باندھے کھڑے رہتے
ہیں۔ ’’با اثر‘‘ لوگ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں با آسانی اور بلا خوف و خطر
قانون کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں اور وہ ایسا کیوں نا کریں جب ان کے ایک
فون پر علاقہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی تک تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ علاقے
کے عوامی نمائندے بھی ان کی حمایت حاصل ہونے سے منتخب ہوتے ہوں تو پھر وہ
اور ان کے حواری کیوں نہ عام لوگوں کا کھلے عام استحصال کریں، کیوں نہ کھلے
عام اسلحہ لہرائیں اور اس کے زور پر غریبوں کی عزت کے جنازے نکالیں۔ یوں
محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے قانون ان کے آگے ایک کھیل تماشہ ہو۔ آج ایسے ہی
بااثر لوگوں نے غریب کے لیے انصاف کا حصول نا ممکن بنا دیا ہے اور اس کے
ہاتھ رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ عوام کسی شکایت پر تھانے جانے سے خوف
کھاتے ہیں، کیوں کہ قانون کے محافظ مجرموں کو تحفظ دیتے ہیں اور اکثر بے
قصور کو ہی لاک اپ میں ڈال کر ایف آئی آر درج کر دیتے ہیں۔ ڈی آئی خان
واقعہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔
غنڈوں نے اپنی طاقت کے زور پر ایک معصوم لڑکی کو سر عام برہنہ کیا اور
سڑکوں پر گھسیٹا۔ لڑکی اپنی مدد کے لیے لوگوں کو آوازیں دیتی رہی، لیکن کسی
نے اس کی مدد نہیں کی۔ لڑکی کے لیے ظلم کی انتہا یہ نہیں تھی۔ وہ جب اپنے
والدین کے ساتھ علاقے کے تھانے میں رپورٹ درج کروانے گئی تو مجرمان پہلے سے
وہاں ایس ایچ او کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انہوں نے لڑکی کے بھائی کے خلاف مقدمہ
درج کروا دیا تھا اور ایس ایچ او نے نہ صرف اس اندہوناک واقعے کی رپورٹ درج
کرنے سے انکار کیا، بلکہ ان لوگوں کو تھانے میں بند کرنے کی دھمکیاں دیں۔
لڑکی پر دباؤ کے ذریعے اپنی مرضی کا بیان دلوایا گیا۔ لڑکی نے گزشتہ روز
عدالت میں دوبارہ بیان ریکارڈ کرادیا جس میں اس کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس
پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کا پہلا بیان دلوایا۔ متاثرہ لڑکی کا کہنا ہے کہ
پولیس نے اسے دھمکیاں دیں کہ اگر پولیس کی مرضی کے مطابق بیان نہ دیا تو اس
کے بھائی اور رشتے داروں کے خلاف مقدمہ درج کردیں گے۔ متاثرہ لڑکی نے عدالت
میں جمع کرائے گئے دوسرے بیان میں بتایا کہ تفتیشی افسر چمن شاہ مجھے کہتا
تھا کہ تمہارے کپڑے گلی میں نہیں اتارے گئے، بلکہ گھر میں اتارے گئے ہیں
اور اس میں ملزم سجاول ملوث نہیں تھا۔ متاثرہ لڑکی نے بیان میں بتایا کہ
تفتیشی افسر چمن شاہ گالیاں نکالتا تھا اور ماں کو مقدمہ چلانے سے منع کرتا
تھا اور بولنے نہیں دیتا تھا۔ چند سال سے سنتے آرہے ہیں کہ خیبرپختونخوا
میں پولیس بہت شفاف ہوگئی ہے۔ کے پی کے پولیس کا نظام بہت بہتر ہوگیا ہے،
جہاں اب کسی ناانصافی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، لیکن کے پی کے میں مجرموں
کا ساتھ دینے والے غنڈے نما پولیس آفیسرز نے ثابت کردیا کہ کے پی کے پولیس
کی شفافیت کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے، حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اگر وزیر
اعلیٰ خیبرپختونخوا اور چیئرمین تحریک انصاف یہ کہتے ہیں کہ کے پی کے پولیس
دیگر صوبوں سے بہتر ہوگئی ہے اور اس میں بدعنوانی نہیں رہی تو خود آگے بڑھ
کر مجرموں کا ساتھ دیتے ہوئے معصوم لڑکی کے بھائی کے خلاف پرچہ کاٹنے والے
پولیس آفیسر کو عبرت کا نشان بنائیں۔ ایسے پولیس آفیسر پورے معاشرے کے لیے
بدنامی کا سبب ہیں۔ پولیس آفیسر نے یقینا یہ سب کچھ اپنی طرف سے نہیں کیا،
بلکہ سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے کیا ہے۔ مبینہ ملزمان کو حاصل صوبائی وزیر
کی پشت پناہی کا ہی نتیجہ تھا کہ پولیس نے ابتداء میں ملزمان کی بجائے
متاثرہ خاندان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا تاہم بعد میں میڈیا پر خبر نشر
ہونے کی وجہ سے وہ اصل ملزمان کے خلاف کارروائی پر مجبور ہوئی، اس کے
باوجود اصل ملزم اب بھی قانون کی گرفت سے باہر ہے۔ تحریک انصاف کے رکن قومی
اسمبلی داوڑ خان کنڈی نے انکشاف کیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان واقعے میں ان کے
ساتھی اور خیبرپختون خوا میں وزیر مالیات علی امین گنڈا پور ملوث ہیں۔
انہوں نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جہانگیرترین اور دیگر پارٹی
رہنماؤں کو خط لکھ کر بتایا ہے کہ علی امین گنڈا پور ڈیرہ اسماعیل خان میں
جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کر رہے ہیں اور بے حرمتی کرنے والے افرا کو
مالی مدد بھی فراہم کی۔ واضح رہے اس سے پہلے متاثرہ خاندان نے بھی ٹی وی پر
آکر بتایا تھا کہ مجرموں کو علی امین گنڈا پور کی سرپرستی حاصل ہے۔ علی
امین کا چچا مجرموں کو سپورٹ کر رہا ہے۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے
صوبائی وزیر برائے مالیات علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ڈی آئی خان میں
لڑکی کے ساتھ پیش آنے والے انسانیت سوز واقعے سے تعلق جوڑنے کی کوشش شرم
ناک ہے، انہوں نے کہا کہ اگر میں اس معاملے میں ملوث نکلا تو مجھے پھانسی
لگا دی جائے۔
اس معاشرے میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ مجرموں نے سیاسی پشت پناہی کے خبط
میں مبتلا ہوکر کھلے عام جرائم کیے ہوں، بلکہ ہمیشہ جرائم کے پیچھے کسی نہ
کسی سیاسی رہنماء کی مدد شامل ہوتی ہے۔ کسی بھی تھانے میں کسی بااثر مجرم
کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے تو علاقے کے سیاسی رہنما مجرموں کو چھڑانے
کے لیے پہنچ جاتے ہیں ، کیونکہ یہ سیاسی لوگ خود ہی مجرموں کو سپورٹ کر کے
ان سے ووٹ لیتے ہیں۔ سیاسی دھوکا بازوں نے عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کا
جھانسا دے کر ہمیشہ عوام کے حقوق سلب کیے اور ظالم کا ساتھ دیا۔ ملک میں
کوئی بھی غنڈہ گردی ہو، اسے کسی نہ کسی سیاست دان یا سیاسی جماعت کی پشت
پناہی حاصل ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر نہ صرف اس ظلم کے خلاف بھرپور احتجاج
کیا جارہا ہے، بلکہ علی امین گنڈا پور سے متعلق فوری اور مکمل تحقیقات کا
مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پرا س واقعہ پر شدید غم و غصے کے ساتھ
تمام سیاسی وابستگیوں سے بالا ہوکر مجرموں کو فوراً کیفرکردار تک پہنچانے
کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور اگر مجرموں کو کسی سیاسی رہنما کی پشت پناہی یا
سپورٹ حاصل بھی ہے تو اسے بھی عبرت کا نشان بنادیا جائے، تاکہ آئندہ کوئی
مجرم سیاست کی چھتری تلے جرائم نہ کرسکے۔ سوشل میڈیا پر عوام کی اکثریت
مجرموں کو سزا ملنے تک احتجاج جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کر رہی ہے، ان کا
کہنا ہے کہ اتنا بھیانک اور شرمناک پورے معاشرے کے لیے شرمندگی کا باعث ہے،
مظلوم بچی کی مدد کرنا اور ظالموں کے خلاف آواز بلند کرنا معاشرے کے ہر فرد
پر فرض ہے، اس میں ملوث افراد کو اگر سزا نہیں دی جاتی، تو سمجھا جائے گا
کہ خود حکومت بھی اس میں ملوث ہے۔
اس کیس میں آئین کے آرٹیکل 365 ’اے‘ کا اطلاق ہوتا ہے جس کی سزا موت ہے۔
آئی جی خیبرپختونخوا صلاح الدین نے کہا کہ ڈی آئی خان میں لڑکی کی بیحرمتی
کے معاملے کی تفتیش آخری مرحلے میں ہے، انہوں نے کہا کہ واقعے میں ملوث 9
میں سے 8 ملزم گرفتار ہو چکے ہیں اور آخری ملزم بھی جلد پکڑا جائے گا۔
پولیس لڑکی پر حملے کے مرکزی ملزم ابھی تک گرفتار نہیں کر سکی ہے اور اگر
وہ گرفتار ہو بھی جاتا ہے تو کیا اس گھناؤنے جرم کی سزا ہو سکے گی؟کیونکہ
جب خود پولیس اور عوامی نمائندے ہی مجرموں کی مدد کر رہے ہوں تو کس طرح
ممکن ہے مجرموں کو سزا ہوجائے گی؟ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس طرح کا
واقعہ جب ہوتا ہے اور بہت زیادہ ابھر کر سامنے آتا ہے تو بجائے اس کی مدد
کرنے کے اس کو سیاست کی نظر کر دیا جاتا ہے۔ اس واقعہ سے پورے علاقہ میں غم
و غصہ کی لہر دوڑ ہوئی ہے۔ متعدد سیاسی تنظیموں کے رہنما متاثرہ بچی کے گھر
جاکر اس کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کروچکے ہیں۔ بعض سماجی تنظیمیں بھی اس
بچی کے پاس یکجہتی کے لیے پہنچی ہیں، تاہم تاحال متعلقہ تھانے کے ایس ایچ
او کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین
عمران خان کی سابقہ اہلیہ سماجی رہنما ریحام خان نے بھی بے حرمتی کا نشانہ
بننے والی بچی سے اس کے گھر پر ملاقات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بچی کے
ساتھ ظلم کی فوری رپورٹ درج نہ ہونے اور ایس ایچ او کی متاثرہ خاندان کو
گالیاں دینے کی تصدیق کردی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس لڑکی سے ملنے کے بعد
حیران ہوگئی کہ ایک بچی کے ساتھ ظلم ہونے کے بعد پولیس اس کے رپورٹ درج
نہیں کر رہی تھی اور S.H.O نے اسے گالیاں دیں۔ کیا پولیس کی تبدیلی یہی ہے؟
یہ واقعہ نہ صرف کے پی کے حکومت کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے، بلکہ یہ واقعہ
پورے ملک کے لیے شرم کا باعث ہے۔جس ملک میں قانون کے رکھوالے اور عوام کے
محافظ خود ہی مجرموں کی پشت پناہی کرنے لگیں، مجرموں کا ساتھ دینے لگیں اور
مجرموں کے ساتھ مل کر مظلوموں پر ستم ڈھانے لگیں، اس ملک کا قانون جنگل سے
بھی بدتر قانون ہے۔ ایسا تو جنگلوں میں بھی نہیں ہوتا ہوگا، لیکن یہاں بستے
شہروں میں اتنے بھیانک جرائم ہوتے ہیں اور قانون کے رکھوالے عوام کو تحفظ
دینے کے بجائے مجرموں کو تحفظ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔اس ملک میں دہرا نظام
ہے، غریب کے لیے قانون میں کسی قسم کی رعایت نہیں ہے، لیکن امیر اور بااثر
افراد کے لیے قانون کی حیثیت ٹوٹے جوتے جتنی بھی نہیں ہے۔ ان کے لیے قانون
موم کی ناک ہے، وہ جس طرح چاہیے موڑ دیں۔ جہاں دل کرے قانون توڑ دیں، ان کو
کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایسے واقعات روزانہ ہوتے ہیں، لیکن غریب اور
متوسط طبقہ پولیس اور عدالتوں کے جھمیلوں سے ڈر کر طاقتور مجرمان کے آگے بے
بس ہیں۔ نتیجتاً مزید مصیبت میں پھنسنے کی بجائے وہ چپ سادھنے کو غنیمت
سمجھتے ہیں۔ |