سیاست کبھی بھی ہمارا پسندیدہ موضوع نہیں رہا۔ ہمیں تو
ہلکے پھلکے کالم ہی مرغوب ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارے کالم پڑھ کر کسی
کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان بھی پھیل جائے تو ہمارے لکھے کا حق ادا ہوگیا
لیکن ’’اسباب پڑے یوں کہ کئی روز سے یاں ہوں‘‘۔ پاکستان کی مسموم سیاسی
فضاؤں میں پوری قوم کا اوڑھنا بچھونا سیاست بن چکا ہے، خصوصاََجابجا پھیلے
’’ویہلے لوگ‘‘ سیاست کو ’’ ٹھونگے‘‘ مارتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر اُنہیں
اپنے ’’بزرجمہری‘‘ تجزیے ،تبصرے سنانے کے لیے کوئی سامع میسر نہ ہو تو وہ
سوشل میڈیا پر اپنے دِل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ صرف ’’ویہلے‘‘ ہی کیا ،یہاں
تو ہر کوئی سیاسی بخار میں مبتلاء ہے اور بخار بھی اتنا شدید کہ تھرما میٹر
کا پارہ ریزہ ریزہ۔ صبح جب گوالا دودھ دینے آتا ہے تو اُس کے ارسطوانہ
سیاسی تجزیوں سے فضائیں گونجنے لگتی ہیں۔ اُس کا زور اِس بات پر ہوتا ہے کہ
دودھ میں ملاوٹ کا ذِمہ دار صرف میاں نوازشریف ہے۔ سبزی فروش ٹماٹروں کی
آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں پر لیکچر دیتے ہوئے یا تو میاں نوازشریف کو ذمہ
دار ٹھہرائے گا جنہوں نے جاتی اُمرا میں اپنی سینکڑوں ایکڑ زرعی زمین پر
ٹماٹر نہ اُگاکر قوم کا استحصال کیا ہے، یا پھر مجرم میاں شہباز شریف ،
جنہوں نے میٹرو چلا دی ،اووَر ہیڈ بنا دیئے، سڑکوں کا جال بچھا دیا لیکن
اُنہیں یہ خیال تک نہیں آیا کہ قوم کو اِن ’’فضولیات‘‘ کی نہیں ٹماٹروں کی
ضرورت ہے۔ اگر یہی اربوں روپے ٹماٹر اور پیاز درآمد کرنے پر صَرف کر دیئے
جاتے تو قوم کم از کم یہ دِن تو نہ دیکھنے پڑتے۔ یہی رونا ہر چھوٹا بڑا
کاروباری روتا نظر آتا ہے اور نکتۂ ارتکاز یہ کہ ذمہ دار صرف شریف برادران۔
چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے والے سرِشام نیوزچینلز پر براجمان ہو جاتے
ہیں اور پھر رات گئے تک وطنِ عزیز آگ کے شعلوں میں گھِرا نظر آتا ہے۔ مجال
ہے جو اُن کی زبانوں سے کبھی کلمۂ خیر ادا ہوا ہو۔ وہ تو مایوسیوں ،تباہیوں
اور بربادیوں کے بیوپاری ہیں، آشاؤں اور اُمیدوں کے نہیں۔ وہ قوم کو یہ
بتانا ہرگز پسند نہیں کرتے کہ جس ملک کو سات عشروں سے’’ گِدھ‘‘ متواتر نوچ
رہے ہیں،وہ دُنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑاہے۔ وہ کسی کو یہ بتانا
بھی پسند نہیں کرتے کہ جِن دہشت گردوں پرسترہ سالہ افغان جنگ میں نیٹو
افواج اربوں کھربوں ڈالر اور ہزاروں فوجی مروا کر بھی قابو نہیں پا سکیں،
پاکستان کی بہادر افواج نے وطنِ عزیز سے اُن کا صفایا کر دیا ہے۔ اُنہیں
اِس سے بھی کچھ غرض نہیں کہ وطنِ عزیز کو رَبّ ِ کریم نے دنیا کی ہر نعمت
سے مالا مال کر رکھا ہے اور جغرافیائی حیثیت یہ کہ ساری دنیا کی نظریں زمین
کے اِس ٹکڑے پر۔ وہ تو اپنی دُکان پر صرف مایوسیاں بیچتے ہیں کیونکہ اِسی
سے اُن کی دُکانداری چمکتی اور ریٹنگ بڑھتی ہے۔ جب ایسی صورتِ حال کا سامنا
ہو تو ہمارے جیسا ہر لکھاری یہی سوچے گا کہ ’’چلو تم اُدھر کو ، ہوا ہو
جِدھر کی‘‘۔ بس یہی وجہ ہے جس کی بنا پر ہم ہلکے پھلکے کالم نہیں لکھ پاتے
وگرنہ ’’اﷲ اﷲ ہم کہاں اور سیاست کہاں‘‘۔
اب چلتے ہیں اپنے اصل موضوع یعنی سیاست کی طرف۔ عمران خاں نے سماجی رابطے
کی ویب سائیٹ پر میاں نوازشریف کی ضیاء الحق کے ساتھ گالف کھیلنے کی تصویر
ٹویٹ کرتے ہوئے طنز کیا ’’ضیاء کے تربیت یافتہ جمہوریت کا سبق دے رہے
ہیں‘‘۔دست بستہ عرض ہے کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھیکنا
عقلمندی نہیں۔ یہاں کون ہے جو آمریت کی گود میں نہیں پلا؟۔ذوالفقار علی
بھٹو آمر ایوب خاں کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ وہ ایوب خاں کی اٹھارہ رکنی
کابینہ میں واحد سول وزیر تھے ،باقی سب فوجی۔ ضیاء الحق میاں نوازشریف کو
اپنی عمر لگ جانے کی دُعائیں دیا کرتے تھے۔ چودھری پرویز الٰہی آمر پرویز
مشرف کو 10 بار وردی میں منتخب کروانے کے دعوے کیا کرتے تھے۔ حیرت تو عمران
خاں پر ہے جنہوں نے میاں نوازشریف اور ضیاء الحق کی گالف کھیلنے کی تصویر
تو لگا دی لیکن یہ سوچا تک نہیں کہ قوم کا حافظہ اب اتنا بھی کمزور نہیں کہ
اُسے پرویز مشرف کے جلسوں میں جھنڈا اُٹھائے عمران خان کی بھرپور شرکت یاد
نہ ہو ۔ جب پوری قوم پرویز مشرف کے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیے بیٹھی تھی ،خان
صاحب ریفرنڈم کے حق میں گلی گلی کمپین کیا کرتے تھے ۔وہ تو بُرا ہو پرویز
مشرف کا جس نے عمران خاں کو 2002ء کے انتخابات کے بعد حسبِ وعدہ وزیرِاعظم
نہیں بنایا، جس پر ہمارے کپتان صاحب اُس سے روٹھ گئے۔ پرویزمشرف نے بہانہ
یہ بنایا کہ پوری تحریکِ انصاف نے پورے پاکستان سے لَگ بھَگ ڈیڑھ لاکھ ووٹ
لیے ہیں اور جیتنے والے واحد اُمیدوار صرف عمران خاں ، اِس لیے اُنہیں بھلا
کیسے وزارتِ عظمیٰ سونپی جا سکتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یقیناََ 2002ء کے
انتخابات میں بھی تحریکِ انصاف کے ساتھ ’’ہَتھ‘‘ ہوا ہوگا اور یہ ’’ہَتھ ‘‘
پرویز مشرف اور چودھری برادران نے مل کر کیا ہوگا وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ
اتنی ’’مقبول‘‘ تحریکِ انصاف اور سیٹ صرف ایک۔ ویسے پرویز مشرف تو ہمہ
مقتدر تھا ،اگر وہ خاں صاحب کو وزیرِاعظم بنا دیتو تو کِس کی مجال تھی جو
چوں چراں کرتا ۔اِس کا فائدہ یہ ہوتا کہ کپتان وزارتِ عظمیٰ سنبھالتے
سنبھالتے تھَک بلکہ ’’ہَپھ‘‘ جاتے اور قوم کو اُس عذاب سے چھٹکارا مِل جاتا
جس سے وہ متواتر گزر رہی ہے۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ساری شرارت پرویز
مشرف کی ہے جس نے کپتان کو وزارتِ عظمیٰ کا لالچ دے کر ٹرک کی بَتّی کے
پیچھے لگا دیااور تَب سے اب تک وہ دوڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
ہمیں یقین تھاکہ 2018ء میں ہمارے وزیرِاعظم عمران خاں ہی ہوں گے لیکن اب یہ
یقین ڈانواڈول کہ وہ سپریم کورٹ کی ’’دَست بُرد‘‘ سے بچتے دکھائی نہیں
دیتے۔ عمران خاں اور جہانگیر ترین نااہلی مقدمے کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا
ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جسٹس صاحبان کے رویوں سے تو یہی نظر آتا ہے کہ وہ
اِن دونوں کو ’’پھَڑکانے‘‘ کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس
کے مطابق’’ عمران خاں اور جہانگیر ترین کے مؤقف میں تضاد ہے، عدالت نے
مجموعی تصویر سامنے رکھ کر دیکھنا ہے کہ کسی قسم کی بَددیانتی کی گئی یا
نہیں‘‘۔ محترم چیف جسٹس نے فرمایا ’’اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد عمران اور
جہانگیر سے بیان حلفی پر ایک سوال ضرور کروں گا ،ابھی تبصرہ نہیں کرنا
چاہتا‘‘۔ یہ بھی کہا گیا ’’ سچ بولنے کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو یاد نہیں
رکھنا پڑتا کہ پہلے کیا کہا گیا تھا‘‘۔ اِن ریمارکس سے تو صاف نظر آتا ہے
کہ فیصلہ حق میں آنے والا نہیں۔ جہاں تک غلطی اور غلط بیانی کا تعلق ہے تو
پانچ رکنی بنچ نے میاں نوازشریف کو محض اِس بنا پر نااہل قرار دے دیا کہ
اُنہوں نے کبھی وصول نہ کی جانے والی تنخواہ کو ظاہر نہ کرکے غلط بیانی کی۔
اب یہ نظیرتین رکنی بنچ کے سامنے ہے، بھلا وہ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے
خلاف کیسے جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اِس کے خلاف کم از کم نوازلیگ تو
شدید احتجاج کرتی سڑکوں پر نظر آئے گی۔ شاید اِسی لیے تین رکنی بنچ پھونک
پھونک کر قدم اُٹھا رہا ہے۔ |