ماہرین ڈارون کے اس نظرئیے کو تو اہمیت دیتے ہیں کہ انسان
بندر کی جدید شکل ہے لیکن ابھی تک کوئی سائینسدان یہ بتانے سے قاصر ہے کہ
مزید کئی جانور ، پرند،چرند بھی ترقی کرتے ہوئے انسانی اشکال کا روپ دھارنے
کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ جانوروں کی فطرت انسانوں میں ڈھلتے ہوئے عالم
انسانیت کی ترقی کو نئے بام عطا کر رہی ہے ۔ حیوانی صلاحیتوں کی انسانوں
میں منتقلی کوترقی کے لئے لازمی شرط بنا دیا گیا ہے ۔ دنیا سے جانوروں کی
کئی اقسام اسی لئے ختم ہو رہی ہیں کہ ان سے ملتا جلتا کام اب حضرت انسان نے
شروع کر دیا ہے ۔ ابھی یہ تحقیق ہونا باقی ہے کہ یہ جانوروں،پرندوں کے
اخلاق کی کمزوری ہے یا انسان کی کہ وہ اپنی فطرت ہی نہیں اپنی خصلت کو بھی
کسی بھی من پسند چرند ، پرند میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ کئی افراد
کوطوطا چشم کہا جاتاہے ، کوئی بھونکنے اور کاٹنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا
، کسی کی آنکھوں میں سور کا بال آ جاتا ہے۔
کئی انسانوں میں کسی جانور ، پرندے کی چند ہی خصوصیات ہوتی ہیں لیکن ایسے
بھی معرفت والے ہوتے ہیں جو اپنی لگن سے بیک وقت کئی جانوروں ، پرندوں کی
''منافع بخش' ' خصوصیات حاصل کر لیتے ہیں اور منٹوں میں کسی بھی
جانور،پرندے کی خاصیت میں ڈھلنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ ابھی سور بنے بیٹھے
ہوں گے ، ابھی بھوکنا شروع کر دیں گے اور بعید نہیں کہ کاٹنا بھی شروع
کردیں ۔ آپ حالت سکون میں ہوں گے کہ اچانک معلوم ہو گا کہ نہایت قریب سے
کسی نے ڈس لیا ہے ، آپ کسی کے بھروسے مطمئن ہوں گے کہ اچانک وہی آپ کو
بھنبھوڑتے ہوئے کھا جائے گا ۔ یہ کتنی بڑی بد اخلاقی ہے کہ انسان جانوروں ،
پرندوں کی عادات اور خصائل کو اپنانے پہ فخر کرتا ہے لیکن یہ ہر گز پسند
نہیں کہ انہیں اس جانور کی صورت میں دیکھا،سمجھا اور پکارا جائے ۔ جیسے ،
مفاد کے لئے آنکھوں میں سور کا بال لانا پڑے ، '' حق '' حاصل کرنے کے لئے
کسی کتے کی مانند دوسرے کتوں کے منہ سے گوشت کی بوٹی کھینچا پڑے ، سانپ اور
بچھو کی مانند بھروسہ کرنے والے کو ڈسنا پڑے ، اپنے معمولی مفاد کے لئے
ہاتھی بن کرکمزور ، مجبور کو کچلنا پڑے یا اپنے ہی بھائی کو مردار سمجھ کر
کھانا پڑے ، لیکن کبھی یہ پسند نہیں کیا جاتا کہ کوئی اسے سور ، کتے ، بچھو
، ہاتھی یا گدھ کے نام سے پکارے ۔ حیوانی خصائل سے مستفید ہونے والے افراد
اپنی اس حکمت عملی کو چھپانے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن بقول شاعر '' پائل
میں گیت ہیں چھم چھم کے '' کے مصداق کتنا بھی چھپائیں ، یہ انداز قاتلانہ
عریاں ہو ہی جاتا ہے۔
گدھ ایک بڑا مفید پرندہ ہے جو ہر مردار ہو جانے والے جاندار کو کھا جاتا ہے
۔ اسے پہلے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ کون کہاں مرنے والا ہے ، اور وہ وہاں کی
فضائوں میں منڈلانے لگتا ہے ۔ ایسا نہیں کہ اسے کسی کے مرنے کی مخبری ہو
جاتی ہے بلکہ اونچی فضائوں میں اڑتے ہوئے دنیا کے رواج و دستور اس کی نظروں
میں ہوتے ہیں ۔ یوں جاندا رآخری سانسیں لیتا ہے تو گدھ اس کے قریب آ کر
بیٹھ جاتا ہے اور مردار ہوتے ہی گدھ اس کی لاش کو ڈھانچے میں تبدیل کرنے کے
لئے کمر بستہ ہو جاتا ہے ۔ گدھ کو بھی مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہی
اکیلا گدھ نہیں ہو تا جو مردار کھانے کا شوقین ہو ، اس جیسے کئی دور اندیش
اور موقع سے فائدہ اٹھانے والے اور بھی گدھ ہوتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان میں مردار کھانے والے پرندے گدھ کی نسل تیزی سے
ختم ہو رہی ہے جس سے پاکستان میں گدھ پرندے خاتمے کے خطرے سے دوچار ہیں ۔
ماہرین اس علامت کو انسانی حوالے سے بھی خطرناک قرار دے رہے ہیں ۔ لیکن
ماہرین کو شاید یہ معلوم نہیں کہ پاکستان میںمردار کھانے کے لئے گدھ کا
متبادل کامیابی سے کام کر رہا ہے ۔ دراصل مردار کھانے والے پرندے گدھ یہ
دیکھ کر پاکستان سے ' ' پردہ فرما '' رہے ہیں کہ اب ان کا کام پاکستان میں
با اختیار اور طاقتور افراد نے سنبھال لیا ہے اور وہ گدھ کے فرائض بطریق
احسن ادا کر رہے ہیں ۔ گدھ کا کام سنبھالنے والے انسانوں کی کارکردگی گدھ
سے بھی اچھی ہے کیونکہ گدھ صرف مردار کھاتا ہے جبکہ گدھ کے متبادل انسان ہر
کمزور کو نشانہ بناتے ہیں اور کمزور ، بیوقوفوں کے مر نے کا انتظار نہیں
کرتے ، جس سے پاکستان میں'' من مانیاں '' کرنے کے اہداف توقع سے بھی بہتر
شرح دکھا رہے ہیں ۔ ہمارے معاشرے کے ہر شعبے میں کوئی نہ کوئی گدھ ضرور نظر
آئے گا ۔ سرکاری گدھ ، سیاسی گدھ ، معاشی گدھ ، سماجی گدھ ، مذہبی گدھ اور
تو اور ' اس مردم زر خیز ' پاکستان میں تحریک آزادی کشمیر کے گدھ بھی پائے
جاتے ہیں ۔ ہمارے معاشرتی ، ملکی گدھ کی اس منفرد خصوصیت کا اعتراف و ادراک
نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ ملک کے ایک حصے کو ، جو اپنے ہی کرتوتوں کی وجہ سے
مردار ہو گیا تھا ، ہمارے گدھ فطرت حضرات نے یوں صاف کیا کہ باقی ملک مردار
کی پھیلتی بدبو کے عذاب سے ہمیشہ کے لئے مکتی پا گیا۔
بانو قدسیہ کے ناول '' راجہ گدھ '' سے ایک حوالہ تلاش کرنا تھا ، ایک دوست
کو ٹیلی فون کرتے ہوئے کہا کہ '' یار وہ راجہ گدھ'' ، ابھی اتنا ہی کہا تھا
کہ وہ دوست تلملا اٹھا اور فوری طور پر بولا '' راجہ گدھ نہیں ، خواجہ گدھ
'' ، میں نے پھر اس سے پوچھنا چاہا کہ دراصل میں راجہ گدھ ، دوست پھر تیزی
سے بولا راجہ نہیں ، خواجہ گدھ ، ۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ میرا وہ پیارا
دوست بھی اپنے نام کے ساتھ راجہ لکھتا ہے ۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ ڈیئر
مجھے بانو قدسیہ کے ناول '' راجہ گدھ '' سے ایک حوالہ دیکھنا ہے ، اگر
تمہارے پاس ہے تو عارضی طور پر دے دو ، ہاں اگر '' خواجہ گد ھ ' ' نامی
کوئی ناول ، افسانہ ، سفر نامہ یا سرگزشت ہو تو وہ بھی میں شوق سے پڑھوں
گا۔ |