بیمار معیشت کے بیمار وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو آج نہیں تو
کل وزارت کا قلمدان چھوڑ نا تو ہوگا۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، بے
اختیار وزیر اعظم آخر کب تک نا اہل وزیر اعظم کی بات مانتے رہیں گے۔خزانہ
اسحاق ڈار کا ذاتی نہیں ایک جوہری طاقت رکھنے والے ملک کا خزانہ ہے آخر ملک
کے خزانے کی اہم ترین گاڑی بہ ظاہر بیمار، لاغر اور بھگوڑے وزیر کے نام سے
کیسے اور کب تک چلتی رہے گی، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اپنے منصب کے امور
انجام دیں یا خزانہ امور کی دیکھ بھال کریں۔ میڈیا پر یہ خبریں گردش کرتی
رہیں کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اسحاق ڈار سے استعفیٰ مانگ لیا،
انہیں برخاست کر دیا، پھر یہ خبر بھی گردش میں رہی کہ موصوف بیمار وزیر
خزانہ نے از خود استعفیٰ بھیج دیا۔ رات گئے حکومت کی جانب سے تمام باتوں کی
تردید کردی گئی کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ، نہ تو استعفیٰ دیا ، نہ ہی
مانگا گیا، سمدھی جی بدستور بیمار رہتے ہوئے ملک کی وزارت خزانہ کے امور
چلائیں گے۔ وزیر اعظم کے مشیرڈاکٹر مصدق ملک نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ
وزیر خزانہ بیماری کے باعث ملک سے باہر ہیں،ان کی غیر موجودگی میں وزیر
اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی وزارت خزانہ کے امور کی نگرانی کررہے ہیں،
وزارت کے افسران تمام امور کو خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں ، انہیں
ضرورت ہوتی ہے اور وزیر خزانہ صاحب اس پوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ ان سے
مشورہ لے لیتے ہیں۔ استعفیٰ کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ۔ اطلاعات کی
وزیر مملکت نے بھی صاف الفاظ میں تردید کی کہ وزیر خزانہ کے استعفیٰ دینے
یا لینے میں کوئی سچائی نہیں وہ بدستور اپنے منصب پر فائز ہیں ۔ اگر اس قسم
کی کوئی بات ہوئی تو وہ از خود اس کا اعلان کریں گے۔
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی مثال ملتی ہو کہ ملک کی اہم ترین وزارت کا
سربراہ عدالت کو مطلوب ہو، اس کے ناقابل ضمانت وارنٹ نکل چکے ہوں اور وہ
ملک سے فرار بھی ہو۔ مبصرین اور تجزیہ نگار وں کی رائے ہے کہ اسحاق ڈار کو
وزارت سے اس وقت تک نہیں ہٹایا جاسکتا جب تک ان کے سمدھی نا اہل وزیر اعظم
کی مرضی نہ ہو، گمان ہے کہ موجودہ بے اختیار وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی
ذاتی طور پر اس رئے کے حق میں ہیں کہ اسحاق ڈار کی چھٹی ہوجانی چاہیے ۔ کئی
نام میڈیا میں لیے بھی گئے ، کہا گیا کہ میاں نواز شریف سینیٹر اور وزیر
اعظم کے معاون خصو صی آصف کرمانی کو اس منصب پر فائز کرنے کے حق میں ہیں
لیکن شاہد خاقان عباسی آصف کرمانی کے حق میں نہیں۔ آخر اسحاق ڈار کو آخر
کیوں اس قدر اہم تصور کیا جارہا ہے ، کیوں اس بات پر اصرار ہے، ھٹ دھرمی ہے
کہ اسحاق ڈار وزارت کے منصب پر رہتے ہوئے ہی مقدمات کا سامنا کریں، پاکستان
آئیں گے تو دھر لیے جائیں گے، سٹنگ وزیر خزانہ کو پولس گرفتار کر لے گی ،
اس سے بڑھ کر ملک و قوم کی بدنامی اور کیا ہوسکتی ہے۔ اس لیے خواہش ہے کہ
سمدھی جی وزیر خزانہ بھی رہیں، ملک سے باہر بھی رہیں اور مقدمات کا سامنا
بھی کریں، گویا’ جٹ بھی میری پٹ بھی میری دمڑی میرے باپ کی‘والی مثال۔ نواز
شریف اور شریف خاند جو کچھ کریں ان کے لیے سب جائز، سب اچھا، کوئی انہیں
کچھ نہ کہے ، ان کی باز پرس نہ ہو، دولت کہا سے آئی ، فلیٹ کس پیسے سے لیے،
رقم پاکستان سے کیسے گئی، ان سے کوئی سوال نہ کیا جاے، وہ بادشاہ سلامت
ہیں، مائی باپ ہیں، مالک ہے، جو چاہیں اس ملک میں کریں۔ اسحاق ڈار کی
قابلیت اور تجربہ اس لائق ہرگز نہیں تھا کہ اسے وزارت خزانہ جیسے اہم منصب
پر براجمان کردیا جاتا۔اس کی مثال تو ایسی ہے کہ ’’بلی سے چھچھڑوں کی
رکھوالی‘دیکھ لیا انجام ، پاکستان کا خزانہ کم اس شخص کا اپنا خزانہ زیادہ۔
ان کے ذاتی اثاثہ جات5 سالوں میں 9ملین سے 837 ملین کے ہوچکے ہیں۔ ایسی
کونسی جادو کی جھڑی ان کے ہاتھ میں ہے ملک و قوم کو قرضوں کی دلدل میں
پھنساتے رہے خود امیر سے امیر بننے کی دوڑ میں لگے رہے۔آمدن سے زیادہ اثاثے
بنالینے اور بد عنوانی پر نیب نے مقدمہ قائم کیا ہوا ہے، اس مقدمے میں
استثنیٰ کی درخواست بھی خارج ہوچکی ہے۔منی لانڈری کے مقدمے اسحاق ڈار کے
ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاچکے ہیں۔ان کانام ای سی ایل میں
ڈالنے کی باتیں ہورہی ہیں۔
ایک سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ اسحاق ڈار شریف خاندان کے لیے کیوں ناگزیر ہے؟
نواز شریف کیوں چاہتے ہیں کہ اسحاق ڈار پاکستان نہ جائیں ، ان پر جو مقدمات
ہیں ، وہ ان کا سامنا ملک سے باہر رہ کرہی کریں، اگر وہ ملک چلے گئے اور
نیب نے انہیں حراست میں لے لیا تو وہ کیوں کہ ایک ڈرپھوک اور کمزور انسان
ہیں، پولیس کی سختی برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں ، ماضی میں بھی انہوں
نے اسی ڈر اور خوف کی وجہ سے سلطانی گواہ کا کردار ادا کیا تھا اور سب کچھ
اگل دیا تھا، تو وہ کہیں اس بار بھی جو کچا چھٹا اول تو اب کچھ باقی رہ
نہیں گیا لیکن کوئی بعید نہیں کہ ابھی بھی کچھ ایسے راز پوشیدہ ہوں جو
سمدھی جی عدالت کے سامنے یا پولیس کے سامنے اگل دیں اور نواز شریف جو اپنی
نااہلی اور کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں مزید مشکلات میں آجائیں۔
ایک منطق یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اگر اسحاق ڈار کسی مقدمے میں پھنس جاتے ہیں
اور عدالت میں گواہان پیش ہوں گے تو ان کا تعلق وزارت خزانہ سے ہی تو ہوگا
، اگر اسحاق ڈار ، کرسی پر برجمان ہوں گے وزیر خزانہ ہوں گے تو وہ گواہ ان
کے سامنے منہ نہیں کھولیں گے۔ اسحاق ڈار کی بچت ممکن ہوسکتی ہے۔دوسری اہم
وجہ نواز شریف کا رشتہ اسحاق ڈار سے سمدھی کا ہے ، جب نواز شریف جدہ میں
شاہانہ زندگی گزار رہے تھے اس وقت اسحاق ڈار کے بیٹے سے نواز شریف کی بیٹی
کی شادی ہوئی تھی۔ سنا ہیں کبھی اسحا ق ڈار اتفاق فاؤنڈری میں حساب کتاب
دیکھا کرتے تھے، شیخ رشید کے بقول ’اسحق ڈار نواز شریف کا منشی تھا‘۔ یہ سب
باتیں نواز شریف کی اسحاق ڈار سے محبت کا پتا دیتی ہیں۔ یہ وہ منطق اور سوچ
ہے جس کے باعث اس بات کی بھر پور کوشش ہورہی ہے کہ ملک کا بیڑا غرق ہوتا ہے
ہونے دو ، کسی بھی صورت اسحاق ڈار کو عدالت اور پولیس کے ہتے مت چڑھنے دو
لیکن بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی ، کب تک بیماری طول پکڑے گی، باہر
کے لوگ اور ڈاکٹر کب تک جھوٹ بول کر اسحاق ڈار کو اسپتال میں داخل رکھیں
گے۔ ایک نہ ایک دن انہیں ملکی میں آناہی ہوگا، ملک کی معیشت کا اس وقت پہیا
جام ہوچکا ہے، معیشت تباہ ہوچکی ہے لیکن نواز شریف کو اس کی فیملی کو اس کی
کوئی پروا نہیں ، اقتدار کی دوڑ اب بھی جاری ہے۔
پاکستان کی معیشت پر ماہرین کی رائے ہے کہ معیشت اس قدر نچلی سطح پر پہنچ
چکی ہے کہ مستقبل میں بیرونی ادائیگیوں میں توازن لانے کے لیے عالمی
مالیاتی اداروں یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سامنے کشکول پھیلانے کے
علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہ جائے گا ، اس کے بغیر معیشت کوسہارا نہیں مل
سکے گا ۔نواز شریف کی آنکھیں بند ہیں ، اسے ملک کی فکر نہیں بس’ مجھے کیوں
نکالا‘اب میں واپس کیسے آسکتا ہوں، پارٹی صدارت قانون بنواکر کیوں حاصل کر
لی ،پارلیمان میں اکثریت حاصل تھی قانون میں تبدیلی کرالی اور نااہل ہونے
کے باوجود پارٹی سربراہی پر براجمان ہوگئے، اگر ان کا بس چلتا تو یہ
پارلیمان سے عدالت کی نااہلی کو بھی اہلیت میں تبدیل کرا لیتے لیکن یہاں
مجبوری آگئی۔
بیمار وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے
دوران بتایا تھا کہ دسمبر 2016تک سرکاری اور غیر ملکی قرضوں کا حجم18574ارب
وپے ہوگیا ہے جس میں ملکی قرضوں کا حجم 12310ارب روپے اور غیر ملکی قرضوں
کا حجم 58 ارب روپے ہے۔موصوف کے مطابق 2016سے مارچ2017تک 819.1ارب روپے کا
اندرونی قرضے لیے گئے۔یکم جولائی 2016سے 31مارچ2017تک حکومت نے اسٹیٹ بنک
اور تجارتی بنکوں سے819.1ارب قرضہ لیا۔ وزیر خزانہ کے اطلاع کے مطابق
پاکستا ن کا فی کس قرضہ 94,800روپے ہوگیا ہے۔ میں نے تو بہت پہلے ایک کالم
بعنوان ’’وزیر خزانہ پر قرض لینے کا بھوت سوارہے ‘‘ لکھا تھا ۔اسی طرح ایک
اور کالم بعنوان ’ہر پاکستانی 94,800کا مقروض۔ذمہ دار کون؟‘‘‘ میں لکھا تھا
کہ ’ وزیر خزانہ اسحاق ڈار قرض حاصل کرنے کے ایکسپرٹ ہیں۔ موصوف نے ہر
پاکستانی کو ایک لاکھ روپے کا مقروض کردیا ۔ ذاتی اثاثے کہاں سے کہاں پہنچ
گئے۔ غضب خدا کا نااہل وزیر اعظم کی تو بات ہی چھوڑیں سمدھی جی قرض لیتے
رہے وہ جاتا کہا رہا ۔ قوم کے ہاتھ میں کشکول تھمانے کی ذمہ دار نواز حکومت
اور وزیر خزانہ جس کے اپنے اثاثے وقت کے ساتھ ساتھ آسمان سے باتیں کرتے
گئے، ملک کی معیشت تباہی کی لکیر کو چھونے لگے اور قوم بھاری بیرونی قرضوں
تلے دب چکی۔عدالتوں میں جو مقدمات قائم ہوچکے، جن میں اسحاق ڈار کے ناقابل
ضمانت وارنٹ گرفتا ری جای ہوچکے، کرپشن کے کیسیز بن چکے جن میں وہ مطلوب
ہیں ان کے علاوہ بھی نیب حدیبیہ پیپر مل کیس بھی ری اوپن کرنے کی تیاری میں
ہے اس میں بھی ڈار صاحب کا کرداراہم ہے۔ الغرض دولت لوٹی ہے تو اس تو حساب
تو دینا ہوگا، سیاست کی ہے ، سیاست کے اچھے دن دیکھے ہیں تو اس کے برے دنوں
کا سامنہ کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کرنا ہوگا۔ سیاست اسی کا نام ہے۔ اس طرح
بیمار بننے سے جان نہیں چھوٹے گی۔ وزیر کی حیثیت سے ملک میں تشریف لائیں از
خود عزت سے عدالت میں پیش ہوں ، پھر وزارت سے استعفیٰ دیں ۔ اگر آپ ایماندا
ہیں ، آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے کرپشن نہیں کی ، آپ تو غریب ملک کے غریب وزیر
خزانہ رہے ہیں، آپ نے تو عوام کی خدمات کی ہے، آپ پر جو الزامات بھی ہیں وہ
بد نیتی پر مبنی ہیں تو عدالت میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کریں۔ اسی میں
آپ کی عزت ہے، ملک کی عزت ہے ۔اگر ایسا نہیں کیا تو تاریخ آپ کو اچھے الفاظ
سے یاد نہیں کرے گی۔ مورخ بڑا بے رحم ہوتا ہے وہ آپ کے ساتھ کسی بھی قسم کی
رو رعایت نہیں کرے گا ۔ وہ وہی لکھے گا جو عدالت سے حکم جاری ہوگا۔ اب
دیکھیں نواز شریف صاحب کو عدالت نے نہ اہل قرار دے دیا اب چاہے وہ آئندہ
پھر وزیر اعظم بن جائیں لیکن تاریخ میں لکھا گیا کہ وہ نا اہل وزیر اعظم
ہیں۔ اس لیے اب بھی وقت ہے محترم بیمار وزیر خزنہ صاحب سوچیں غور و فکرکریں
کہ تاریخ میں اپنے لیے کیا لکھوانا چاہتے ہیں ۔ |