عوام کی بدقسمی کہ ان پر کچھ ایسے لوگ مسلط ہوچکے ہیں۔جو
قانون اورآئین کو کسی طور قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔اس کی وجہ غالبا ان کے
مفادات کی نوعیت ہے۔مروجہ قانون اور آئین ا ن کے ان منفی مفادات کی بجاآوری
میں رکاوٹ بنتے ہیں۔اس لیے وہ قانون اور آئین دونوں کو مفلوج کرنے میں
دلچسپی رکھتے ہیں۔ان کی کوشش ہے کہ اول تو قانون او رآئین سرے سے موجود ہی
نہ ہوں۔اگر با امر مجبوری ان کا وجود ہو بھی تو بڑا بے ضرر سا۔ آئین اور
قانون میں ایسے بے شمار گنجائشیں رکھوائی جاتی رہی ہیں جو ان کے ناجائز
مفادات کی بجاآوری میں مدد دیں۔اگر ان آئینی اور قانونی شقوں کے باوجود
معاملات نہ بن رہے ہوں تو پھر یہ لوگ مصنوعی خلفشار کا راستہ اختیار کرتے
ہیں۔اتنا خلفشا ر قائم کردیا جاتاہے۔کہ قانون اور آئین تو موجود ہو۔مگر اس
کے نفاذکرنے والوں کو اتنی مہلت نہ ملے کہ وہ ان لوگوں کا محاسبہ کرسکیں۔ان
کا محاسبہ کرنے والے نان ایشوز اور مصنوعی افراتفری سے نبٹنے میں لگے رہتے
ہیں۔یوں یہ بد نیت طبقہ آئین او رقانون کی دسترس سے محفوظ رہتاہے۔محاسب اگر
خلفشار کے شکار نہ ہون تو شاید ان مسلط لوگوں کے گلے کا ناپ لینا مشکل نہ
ہو۔یہ انتشار ہی ہے جو ان مسلط لوگوں کی خلاصی کا سامان کرتاہے۔
تحریک انصاف نے جو نان سٹاپ جلسہ مہم شروع کررکھی ہے۔اس کا جواب لیگی قیادت
کی طرف سے دینے کا فیصلہ کرلیا گیاہے۔خان صاحب کی یہ دوڑ سابق وزیر اعظم کی
طرف سے ووٹ کا تقدس بحال کروانے کی دھمکی دینے کے بعد سے شروع کروائی گئی
تھی۔خاں صاحب اس لیے بد قسمت واقعی ہوئے ہیں کہ ابھی پہلی دوڑ دھوپ کی تھکن
دور نہ ہوتی ہے۔کہ کسی نئی دوڑ کا حکم آجاتاہے۔مسلم لیگ ن کی قیادت تو اس
دھمکی کے بعد تو محترمہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لند ن چلی گئی۔مگر
تحریک انصاف کی قیادت ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ گئی۔دوڑتے دوڑتے۔اب جبکہ وہ
اپنا لمبا چوڑا شیڈیول پورا کرنے کے قریب ہیں۔ نوازشریف نے اپنی ووٹ کا
تقدس بحال کروانے کی تحریک کے نئے مرحلے کا آغاز کرکے خاں صاحب کی بیزاری
کا اہتمام کردیا۔ ایبٹ آبادمیں ایک بڑا جلسہ ہوچکا۔ عوامی رابطہ مہم کا یہ
سلسلہ اب اگلے الیکشن تک جاری رکھنے کاامکان ہے۔ایبٹ آباد کے بعدشیخو پورہ
اور ملتان میں بھی جلسے کیے جائیں گے۔ ایبٹ آباد کاعظیم الشان جلسہ میاں
صاحب کا حوصلہ بڑھا گیاہے۔اب دیکھنا ہوگا کہ اب جب کہ خاں صاحب ہانپ رہے
ہیں۔اب انہیں دوبارہ کسی نئی تحریک کی آزمائش میں ڈالا جاتاہے۔یا ان کے
دوسرے جوڑی دار کی پروفیسری آزمائی جائے گی۔
جب سے تحریک انصاف کومیدان میں اتارا گیا ہے سیاست میں ایک نئی جہت متعارف
ہوئی ہے۔جلسوں کی نئی ٹیکنالوجی سامنے آئی ہے۔اس سے پہلے بھی سیاسی جماعتیں
جلسے جلوسو ں میں دلچسپی رکھتی تھیں۔مگر عمران خان کو اٹھنا بیٹھنا سکھانے
والوں نے انہیں اور بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ جلسے ریلیوں کا فن بھی
سکھایا۔یہ کثیر جہتی تعاون کے صول پرمبنی جلسے بڑی پلاننگ کا نتیجہ ہوتے
ہیں۔اس قسم کے جلسوں کاانتظام کسی ایک شخص یا گروپ کی ذمہ داری نہیں
ہوتی۔بلکہ یہ ذمہ داری ایک سے زیادہ لوگوں کو بانٹ دی جاتی ہے۔کچھ لوگ
انویسٹر ہوتے ہیں۔کچھ دوسرے لوگ منتظمین۔مزے کی بات دیکھیے کہ حاضرین اور
اور سامعین بھی الگ ہی کوئی گروہ ہوتاہے۔لیڈران کا کام صرف مہمان کی طرح
آتا او ر اوٹ پٹانگ بھاشن دے کر چلتے بننا ہے۔خاں صاحب کے ابتدائی جلسوں
میں فرشتگان کاتعاون او ر شرکت اس لیے محسوس کیا جاسکتاہے کہ تب ان کے ساتھ
کوئی بڑی سیاسی لیڈرشب نہ تھی۔مگر جانے کہاں سے سٹیج سجانے والے آگئے۔کہیں
سے کرسیاں لگانے والے او رکہیں سے اس ہلے گلے کی پیمنٹ کے چیک بھی موصول
ہوگئے۔تحریک انصاف کو لانچ کرنے والوں نے سیاسی جلسے جلسوں کی نئی جہت
متعارف کروائی۔
اس سے قبل سیاسی جماعتیں اپنی مدد آپ کے تحت جلسے کرنے کے سبب اس بڑے لیول
کی عوامی رابطہ مہم نہیں کرپارہی تھی۔ان کے جلسوں کا بندوبست علاقائی قیادت
کرتی۔یہ بندوبست انتہائی محدود ہوتا۔سالوں عشروں بعد پارٹی کی طرف سے کوئی
بڑا جلسہ دیکھنے کو ملتا مگر اس جلسے کے بڑے اخرجات بعد میں مہینوں تک
مسئلہ بنے رہتے۔پارٹی کے اندر اس مالی معاملے پر ہفتوں کھینچا تانی دیکھی
جاتی رہی۔تحریک انصاف کی سیاست نے چھیڑ چھاڑکی ایک ایسی ریت شروع کردی ہے۔
اس کاجواب دینے کے لیے دوسری جماعتیں پورے جتن کررہی ہیں۔مگر ان کے لیے
تحریک انصاف کے مساوی جلسے ریلیاں کرنا ممکن نہیں ہوپارہیں۔تحریک انصاف کے
جلسوں کے انتظام تو ایک منظم اور کاریگر گروہ کے ہاتھ ہیں۔جن کے اشارے پر
ہجوم اکٹھا کرنے والے متحرک ہوجاتے ہیں۔جب کہ سیاسی جماعتیں اپنی رنگ رنگ
کی لکڑی کے اکٹھ کے سبب اتنی کوارڈینیشن رکھتی ہے نہ اتنا جبر۔ہرطرف جلسے
جلوسوں کی بہار ہے۔ہر جماعت او رہر دھڑا اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد قائم
کررہا ہے۔ایک انتشار سا پھیلا ہواہے۔ہر کوئی اپنی تسکین میں مصروف ہے۔قوم
اور ریاست کا تصور دھندلارہاہے۔دیکھا دیکھی پاور شو رکرنے کا یہ خلفشار ہی
کچھ لوگوں کا مقصد تھا۔ اس خلفشارکا مقصد محاسب کو نان ایشوزمیں بھٹکانا
ہے۔اتنا بھٹکادینا۔کہ اتنشار پیدا کرنے والوں کی سیاہ کاریاں چھپی رہیں۔ |