بات پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے شروع ہوئی
پھر ایک سے ایک کڑی ملا کر یہ رائے قائم کی جارہی ہے کہ ’’ کیا کشمیر تقسیم
کیا جا رہا ہے؟‘‘ میری ذاتی رائے کے مطابق ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا ۔شاہد
خاقان عباسی نے 6نومبر کولندن میں خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ خود مختار کشمیر
نظریے کی کو ئی حقیقت ہے اور نہ ہی اسے عوامی پزیرائی حاصل ہے ۔ساتھ ساتھ
یہ بھی فرما گئے کہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیئے تنازعہ کشمیر کا حل
ضروری ہے ۔جبکہ کشمیریوں کو حق خوددرایت ملنے والی بات کہنے میں بھی دیر
نہیں لگائی ۔
شاہد خاقان عباسی کی لندن میں ہونے والی گفتگو کے بعد بھارت نے اپنے ایک
قابل آفیسر او ر انٹیلی جنس بیور ( آئی بی )کے سابق سربرا ہ دینشور شرما کو
بطور خصوصی مزاکرات کا ر کشمیر بھیجا جہاں وہ پانچ روز گزارنے کے بعد واپس
بھارت سدھار گئے ہیں۔ حریت کانفرنس جو کہ پاکستان کو اپنا قبلہ و کعبہ
سمجھتی ہے سمیت لبریشن فرنٹ جو کہ آزاد اور خود مختار کشمیر کی بات کرتی ہے
نے دینشور شرما سے کسی بھی قسم کے مزاکرات نہیں کیے ۔
دینشور شرمانے تین روز سری بگر جبکہ دو روز جموں میں گزارے اور اس دوران
سیاسی جماعتوں ،سول سو سائٹی ،تاجر وں سمیت تمام مکاتب فکر کے بیسوں وفود
نے ملاقات کی۔ تاجروں نے کاروبار پر بات کی اور خصوصی مزاکرات کا ر کے
سامنے مطالبات رکھے۔ سول سو سائٹی نے قیام امن پر زور دیا ۔ سیاسی جماعتوں
کے وفود نے بھی اپنے دانا پانی کا مطالبہ دہرانا ضروری جانا ۔ اس بیچ تمام
وفود سکھوں کی واپسی ،کشمیر کی وحدت، بھارتی آئین کے تحت کشمیر کی خصوصی
حیثیت کو برقرار رکھنے پر مضر رہے۔
بھارتی خصوصی مزکرات کی کشمیر سے واپسی کے ساتھ ہی پاکستانی دفتر خارجہ نے
بھارت کو کشمیر سمیت تمام ایشوز پر بات چیت کی دعوت دے کر بعض کشمیریوں کے
شکوک و شبہات کو مزید گہرا کر دیا ہے ۔ اس تمام عمل کے بیچوں بیچ پاکستان
کے زیر انتظام کشمیر میں اسٹیبلشمنٹ نواز قوتوں نے چند غیرارادی اعلانات
اوربیانا ت دیکر اسے مزید سنسی خیز بنا دیا۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی
جانب سے سیز فائر لائن توڑنے کی کال اور مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر
اعظم سکندر حیات کا اپنی ہی جماعت کے موجودہ وزیر اعلیٰ نما وزیر اعظم راجہ
فاروق حیدر پر عدم اعتماد کا بیان پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکمرانوں
اور سیاستدانوں کیلئے ایک واضح پیغام تھا۔
کنٹرول لائن توڑنے کے اعلان کو پاکستان ا ور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر
میں کسی بھی طور پر نیک شگون خیال نہیں کیا جاتا عموماًکسی بڑی تبدیلی یا
الٹ پلٹ کے لیے اسٹیبلشمنٹ اپنے مہروں کے ذریعے ایسی حرکات سرزد کراتی رہی
ہے ۔دوسری طرف سکندر حیات کے بیانات بھی موجود وزیراعظم کو زبان قابو میں
رکھنے اور دانا پانی فرادانی کیساتھ پہنچانے کیلئے ایک واضع پیغام ہیں ۔ان
تمام عوامل پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ’’ کچھ تو ہے جس کی پردہ
داری ہے‘‘ ۔ اسی دوران نیشنل کانفرنس کے رہنما اور بھارت کے زیر انتظام
کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا’’ ادھر ہم أدھر تم ‘‘
والا بیان کافی اہمیت کا حامل ہے۔ جس پران کے خلاف غدرای کا مقدمہ بھی درج
کیا جا چکا ہے۔
پاکستان پاک چین اقتصادی راہداری( سی پیک ) کو کامیاب بنانے کیلئے کچھ بھی
کر گزرنے کے لئے تیار ہے۔ پرویز مشروف دور میں شروع ہونے والی بیک ڈور
ڈپلومیسی کے تحت بات چیت کا عمل بھی تسلسل کیساتھ جاری ہے ۔اور اب پاکستان
اور بھارت کی حکومتیں شاید تقسیم کشمیر کے ایجنڈے کو حتمی شکل دینا چاہتی
ہیں ۔ دونوں ملکوں کی روز اول سے ہی یہی کوشش رہی ہے کہ ’’ ادھر ہم ادھر تم
‘‘ کے فارمولے پر عمل ہو لیکن سب کچھ توقعات کے مطابق ہونے کے باوجود ہمیشہ
وادی آڑے آتی رہی ہے ۔ اب شاید وادی کو نیم خود مختاری دیکر لداخ ، جموں کو
بھارت جبکہ گلگت بلتستان اور پہاڑی بیلٹ پاکستان میں ضم کرنے کی کوشش کی
جائے مگر کشمیر کے عوام ایسا کسی صورت ہونے نہیں دیں گے ۔ستر سال تک کشمیری
عوام نے مکمل آزادی اور ریاست کی وحدت کیلئے قربانیاں دی ہیں ۔تقسیم کے
فارمولوں کیخلاف اب ہر جانب سے رد عمل آئے گا۔
بندوقوں کے سائے تلے زندگی گزارنے والے کشمیریوں کی دونوں ملکوں سے محبت
ایک جیسی ہے ۔ایک طرف امن وامان کے نام پر نہتے جسموں میں بارود بھرا جاتا
ہے ۔تو دوسری طرف ایسے ہی جا بجا بندقیں تان کر شنا خت پریڈ کرائی جاتی ہے۔
برطانوی ادارے چیتھم ہاوس کے 2009میں کیے گئے سروے میں کشمیری عوام نے اپنے
مستقبل کا فیصلہ واضح کر دیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم اگر خو د محتار کشمیر
کے نظریے سے انکاری ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ کشمیریوں کو حق خودرایت کا
موقع فراہم کریں ۔اگر بھارت ایسا کرنا نہیں چاہتا تو کم از کم گلگت بلتستان
اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کو یہ حق بہت پہلے مل جانا چاہیے
تھا۔ رٹے رٹائے الفاظ کو طوطے کی طرح ادا کرنے سے نفرت محبت میں نہیں بدل
سکتی ۔آیئے فتنہ وفساد کی طرح نیک عمل بھی پہل کریں اور کشمیری عوام کو
اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کریں ۔ |