کہیں مقتدر قوتوں کا ایجنڈا یہ تو نہیں کہ ’’گلیاں ہو
جان سُنجیاں ، وِچ مرزا یار پھرے‘‘۔ پاک سَر زمین پارٹی کے مصطفٰے کمال نے
تو کھلم کھلاکہہ دیا کہ پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کی مشترکہ پریس
کانفرنس اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر ہوئی۔ چونکہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اِس کی
کوئی تردید نہیں آئی ،اِس لیے ماننا ہی پڑتا ہے کہ وہ اپنا کھیل کھیل رہی
ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہورہا،حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں
اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔آئی جے آئی کی تشکیل کا سہرا جنرل
حمیدگُل مرحوم کے سَر سجا۔وہ بینظیر کو سکیورٹی رِسک سمجھتے تھے ،اِسی لیے
اسٹیبلشمنٹ نے آئی جے آئی کی تشکیل میں دامے ،درہمے ،قدمے ،سخنے ،مدد کی۔
جنرل حمید گُل تادَمِ مرگ یہی کہتے رہے کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو وہ اُنہیں
کورٹ میں بلائے ،سارے راز افشاء کر دیں گے۔ پیپلزپارٹی تین بار
بَرسرِاقتدار آئی لیکن اُس کی جنرل صاحب کو کورٹ میں بلانے کی ہمت نہ ہوئی۔
2014ء کے طویل دھرنے میں عمران خاں امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کے دعوے کرتے
اور تاریخیں دیتے رہے۔ اُنہیں اور مولانا طاہرالقادری کو یقین دلا دیا گیا
تھا کہ جونہی وہ ڈی چوک اسلام آباد پہنچے ،امپائر کی انگلی کھڑی ہو جائے گی
لیکن ایسا ہو نہ سکا، شایدجنرل راحیل شریف آڑے آگئے۔ مولانا طاہرالقادری تو
جلد ہی مایوس ہو کر اپنے دیس سدھارے لیکن عمران خاں 126 روز تک کنٹینر پر
ٹہلتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ایسے ہی کردار کی وجہ سے پاکستان 35 سالوں تک
مارشل لاؤں کی زَد میں رہا اور اب ایک دفعہ پھر ایسی ہی سرگوشیاں جابجا
سنائی دے رہی ہیں۔ایک دفعہ کسی پروگرام میں سلیم صافی نے کہا تھا’’کوئی
مائنس وَن نہیں ہوگا، اگر ہوگا تو مائنس تھری ہوگا‘‘۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ
جیسے سلیم صافی کی یہ بات درست ثابت ہونے جا رہی ہے۔ میاں نوازشریف نااہل
ہوکر جاتی امرا جا پہنچے ،عمران خاں کے سَر پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے
اور آصف زرداری سے فی الحال اسٹیبلشمنٹ کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ
پیپلزپارٹی سُکڑسمٹ کر صرف دیہی سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ آصف زرداری
جتنی جی چاہے چالیں چل لیں ،پنجاب ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں
پیپلزپارٹی کا کوئی حصّہ نظر نہیں آتا۔ اگر 2018ء کے انتخابات میں
پیپلزپارٹی سے سندھ کی حکومت بھی چھِن جائے تو اُس کے پَلّے ’’کَکھ‘‘ نہیں
رہتا۔ اِسی لیے ایم کیوایم ،پی ایس پی اور دیگر چھوٹے سیاسی گروہوں کی پیٹھ
تھپتھپائی جا رہی ہے تاکہ اِن سب کو ملا کر سندھ سے پیپلزپارٹی کی حکومت
چھین لی جائے۔اگر ایسا ہو گیا تو آصف زرداری خود بخود مائنس ہو جائیں گے۔
ایم ایم اے کے مُردہ گھوڑے میں ایک دفعہ پھر جان ڈال کر اُسے ’’سیاسی ریس‘‘
کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں سبھی جانتے ہیں
کہ وہ گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کرتے۔ وہ بہرصورت اقتدار میں رہنا پسند کرتے
ہیں ،خواہ کسی سے ملے ،کہیں سے ملے۔ دائیں بازو ،بائیں بازو کی تفریق اُن
کے ہاں بے معنی ہے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد وہ پیپلزپارٹی کے اتحادی بن
کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ۔ سینٹ کے انتخابات میں پیپلزپارٹی سے اتحاد
کرکے مولانا عبد الغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ بنوا دیا حالانکہ
اتحادی وہ نوازلیگ کے ہیں اور نوازحکومت میں بھی وزارتیں لیے بیٹھے ہیں۔اُن
کی شدید خواہش تو خیبر پختونخوا حکومت پر بھی ہاتھ صاف کرنے کی تھی لیکن
میاں نوازشریف نہیں مانے اور حکومت تحریکِ انصاف کے پاس چلی گئی۔ حکومت
خواہ کسی کی بھی ہو ’’کشمیرکمیٹی‘‘ کی چیئرمینی ہمیشہ مولانا کے پاس ہی
رہتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے کبھی مولانا کی زبان سے کشمیر کا نام تک
نہیں سنا۔ ایم ایم اے کی تشکیل میں اگر کوئی گھاٹے کا سودا کر رہا ہے تو
صرف جماعت اسلامی۔ 2002ء کے انتخابات کے بعد جو کچھ ملا مولانا فضل الرحمٰن
کی جمعیت علمائے اسلام کو ملا، جماعت اسلامی کے حصّے میں آئی تو صرف بدنامی۔
اِسی لیے ہم کہتے ہیں کہ
کم ہوں گے اِس بساط پر ’’اِن‘‘ جیسے بَد قمار
جو چال بھی چلے ’’یہ‘‘ ، نہایت بُری چلے
عمران خاں تو اب بھی پوری شَدومَد کے ساتھ قبل اَز وقت انتخابات کا مطالبہ
کر رہے ہیں کیونکہ اُنہیں وزیرِاعظم بننے کی جلدی ہی بہت ہے لیکن یوں محسوس
ہوتا ہے کہ جیسے سیاسی جماعتوں نے وقت اور حالات کی نزاکت کا ادراک کر لیا
ہو۔ اِسی لیے 16 نومبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پارلیمنٹ متحد نظر آئی
اور بَروقت الیکشن کی راہ کی آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی۔ قومی اسمبلی نے نئی
حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئین کے ترمیمی بِل 2017ء کی منظوری دے دی۔ بِل کے
حق میں 242 جبکہ مخالفت میں صرف ایک، جو کہ جمشید دستی کا تھا۔ شاید اُس کے
ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہو کہ اگر یہ بِل متفقہ طور پر منظور ہو گیا تو
لوگوں کو یہ پتہ کیسے چلے گا کہ قومی اسمبلی میں جمشید دستی نامی کوئی
’’شے‘‘ بھی موجود ہے۔
اِس بِل کی منظوری میں قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کی کوششوں اور
کاوشوں کا بہت ہاتھ ہے۔ اُنہوں نے انفرادی طور پر پارلیمانی لیڈروں سے
رابطے کیے اور اُنہیں یقین دلایا کہ اُن کے تمام اعتراضات کا حل تلاش کر
لیا جائے گا۔ سیاسی جماعتوں کو 2017ء کی مردم شماری کے عبوری نتائج پر
اعتراضات اور تحفظات تھے ۔ چنانچہ یہ فیصلہ ہوا کی مشترکہ مفادات کونسل کا
اجلاس بلایا جائے۔ 13 نومبر کو یہ اجلاس ہوا جس میں قوم کو یہ حوصلہ افزا
پیغام دیا گیا کہ انتخابات وقتِ مقررہ پر ہی ہوں گے۔ عین اُس وقت جب مشترکہ
مفادات کونسل کے اجلاس میں وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک بَروقت
انتخابات کا اعلان کر رہے تھے، عمران خاں کا قبل اَز وقت انتخابات کا
مطالبہ جاری تھا۔ یہی صورتِ حال پارلیمنٹ میں سامنے آئی جب تحریکِ انصاف
سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے آئینی بحران ختم کرکے بَروقت انتخابات کی راہ
ہموار کی ،تب بھی کپتان قوم کو قبل اَز وقت انتخابات کا پیغام دیتے ہوئے
کہہ رہے تھے کہ نوازلیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد90 دنوں کے اندر انتخابات
آئینی ضرورت ہیں ۔اِس لیے کارکُن انتخابات کی تیاری کریں۔ بہرحال ’’دیرآید،
درست آید‘‘ کے مصداق پارلیمانی جماعتوں نے ترمیمی بِل 2017ء منظور کرکے
اپنی جمہوریت پسندی کا ثبوت دیاجو یقیناََ آئین وجمہوریت کی فتح ہے۔ اب
بَروقت انتخابات میں بظاہر کوئی بڑی رکاوٹ باقی نہیں رہی اور خطرات میں
گھری جمہوریت کے تسلسل میں رخنہ اندازیوں کے امکانات مکمل طور پر ختم تو
نہیں البتہ معدوم ضرور ہوگئے ہیں۔ |