ملک خطہ شہر علاقے معاشرے میں فیصلے مسلط اور لوگوں کو
امیدوں وعدوں خوابوں کے آسیب میں مبتلا کرتے ہوئے غلام پسماندہ اور محتاجی
کا شکار کرکے معذور رکھنے کا دور دورا رہا ہے،جس کا پیشہ وارانہ شعبہ جات
(روزگار)پر بھی غلبہ ان سب کو تباہی کے دہانوں تک لے جاتا رہا ہے،تاہم آئین
جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جانوں کے
نذرانے سے لے کر قیدو بند بھوک و ننگ کی صعبتیں برداشت کرنے والے لیڈران
کارکنان کے ایثار و صبر استقامت ہمیشہ ان کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہوئے
مسیحائی اور بے زبان کی آواز بنتے رہے ہیں،روزگار (معیشت) کا تعلق انسان کے
ایمان مذہب کردار و عمل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے،جس کا دل و دماغ
صحت زندگی پر ہاوی ہونا فطرتی حقیقت ہے،تو سب سے بڑا کڑوا سچ یہ ہے سیاست
صحافت مذہبی میدانوں سے لے کر سرکار و پیشہ وارانہ سب ہی شعبہ جات میں
دیانت صلاحیت اخلاص و عمل کو رونگتے ہوئے باشکل تعریف چاپلوسی عیاری جی
حضوری سمیت علاقہ برادری مثلق زبان کے لاسانی تعصبات کے زہریلے ناگوں نے
اپنی بے عملی نا اہلی کو چھپا کر اہلیت و صلاحیت کردار والوں کی معیشت پر
حملے کر کے ان کو ناکارہ بنائے رکھنے کا دہشت گردی سے زیادہ غضب ناک طرز
عمل قائم کیے رکھا،اور اس کے آج بھی ہر طرف ہر شعبہ میں اثرات موجود
ہیں،بالخصوص صحافت کو یرغمال بنا کر بیگار لیے جانے کا ظلم چلتا رہا
ہے،ایسے میں پاکستان میں عظیم صحافتی لیڈر منہاج برنا کی قیادت میں مسلسل
فاقہ کشی تنگ دستی صعبتوں کا سامنا کرتے ہوئے ویض بورڈ کے نفاذ کی جدوجہد
نے ورکنگ جرنلسٹس کے وقار عزت شان اور حقیقی معنوں میں چوتھا ستون ہونے کی
تاریخ ساز بنیادیں رکھیں،تو آزاد کشمیر میں سینٹرل یونین آف جرنلسٹس (جو اب
دھڑہ بندی اور اپنا مخالف اجارہ دار مائنڈ سیٹ کے ہاتھوں مفلوج ہے) نے طویل
جدوجہد کرتے ہوئے پریس فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا،جس کے چیئرمین بالحاظ
منصب جسٹس ہائی کورٹ ہوتے ہیں،اس کا باضابطہ اسمبلی سے پاس کردہ قانون کے
تحت سکندر حیات حکومت میں کام کا آغاز ہوا تھا،مخالف مائنڈ سیٹ نے اجارہ
داری ختم ہونے پر اس قدر مخالفت منظم کی کہ سکندر حیات کو ہی اس پر میٹنگ
بلانا پڑ گئی جس میں مجھے محترم سردار عبدالقیوم مرحوم کی شفقت کے باعث
شریک کیا گیا،اور سردار ذوالفقار باطور وائس چیئرمین شریک تھے، باقی سب
بزرگ سینئرز سمیت مخالف شرکاء تھے جن کے غم و غصہ تقریروں کے بعد سکندر
حیات نے سیکرٹری اطلاعات کو ہدایت کی پرانی کمیٹی کی بحالی کے لیے اس پر
نظر ثانی کی کارروائی کریں، ایسے میں سکتہ کا شکار سردار ذوالفقار بے سدھ
تھے کہ اللہ نے مجھ نا چیز کو ہمت عطاء کی اور محترم سکندر حیات کو مخاطب
ہوا جناب اجازت ہو تو پانچ منٹ بات کرنا چاہتا ہوں،ان کی اجازت سے عرض کیا
پہلی کمیٹی کا ریکارڈ فنڈز تقسیم کا طریقہ کار اصول ضابطے کے متعلق کچھ بھی
شواہد نہیں ہیں کہ فنڈز کو کس طرح استعمال کیا جاتا تھا، یہ فاؤنڈیشن ایکٹ
اور طریقہ کار کے مطابق چل گئی ہے،جس میں تاحال ایک پیسے کی کرپشن نہیں
ہوئی ہے،تو اسے کیوں ختم کر رہے ہیں، ایسا نہ کریں، یہاں موجود ایک مرحوم
سیاسی شخصیت مجھ پر حملے کے لیے اٹھے مگر سکندر حیات نے ان کو ڈانٹتے ہوئے
مجھے کہا بزرگ سینئر ز کی موجودگی میں بات احتیاط سے کرنی چاہئے، مگر ساتھ
ہی سیکرٹری اطلاعات کو پھر ہدایت کی ٹھیک ہے فاؤنڈیشن کام کرے،اور ان لوگوں
کے تحفظات بھی دور کرے،جس کے بعد سے یہ فاؤنڈیشن چلتی تو رہی مگر سازشوں
مخالفتوں کے اثرات میں اپنی مقاصد ورکنگ جرنلسٹس کے بیمار ہونے پر علاج
ممبر کی تعلیمی استطاعت بڑھانے پیشہ وارانہ طبیعت فوٹو گرافر کو کیمرہ
رپورٹرز کو موٹر سائیکلز لیپ ٹاپ و پیشہ وارانہ سہولیات میں سو کا پچیس
فیصد تعاون جیسے عمور یعنی سو فیصد فلاحی مقاصد تاحال تشنا تعبیر ہیں، کیوں
کہ مقدمہ بازی کا رجحان رکاوٹ چلا آرہا ہے،تاہم باطور ادارہ و دیانت ساکھ
مثالی ہے، تو دو کروڑ کے فنڈز کے علاوہ بیمہ پالیسی اچھی مثالیں ہیں،ایسے
میں یقیناً حقیقی صحافتی کارکنان کا کسی دکھی مظلوم کی آواز بننا ہی رائے
آسانی کی دلیل ہے،کہ فاؤنڈیشن کے چیئرمین جسٹس صداقت العالیہ صداقت حسین
راجہ ہیں، جن کی طرف سے اشتہارات کے بلات کا ایک فیصد فاؤنڈیشن کو دینے اور
ورکرز کی معقول تنخواہوں کے شواہد سے مشروط ،پریس کلب کی رجسٹریشن کے علاوہ
ان کی سالانہ آڈٹ رپورٹس اخبارات سے جرنلسٹس ورکرز کی مراعات کی تفصیلات
اور حکومتی نوٹیفکیشن پر عمل درآمد بیگار کے خاتمہ کے متعلق ہدایات جاری کی
گئی ہیں تو ایک تنظیم ،ادارے کے عہدیدار یا ممبرا مجلس عاملہ ہوتے ہوئے
دوسرے ادارے تنظیم کے عہدے کا امیدوار بننے پر پابندی ورکنگ جرنلسٹس کی شرط
جیسے ابتداء یقیناً مسیحا میسر آجانا اور اس کی طرف سے مسیحائی کے آغاز کی
دلیل ہے اس سلسلے میں فاروق حیدر حکومت نے ابتدائی قانون سازی کے لیے
کابینہ سے منظوری کا پہلا مرحلہ بھی سرانجام دے دیا ہے،اور سیکرٹری اطلاعات
منصور قادر ڈار بھی جرأت مندانہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں، ڈی جی راجہ اظہر
اپنی کاوشیں کرتے ہیں،تاہم چیئرمین پریس فاؤنڈیشن جسٹس صداقت حسین راجہ کے
پاس بار کونسل کو حقیقی معنوں میں فلاحی و قانون کا پاسدار ادارہ بنانے کا
تجربہ ہے،اس لیے نہ صرف یہ اخبارات روزنامہ ماہنامہ ہفتہ روزہ نیوز
ایجنسیوں وغیرہ کے ڈیکلریشن اجازت نامے کو حقیقی معنوں میں ورکنگ جرنلسٹس
کی شرط سے مشروط کیا جائے،بلکہ فاؤنڈیشن کو درجے بالا بنیادی مقاصد سمیت
بار کونسل کی طرح گورننگ باڈی کے اضلاع میں ورکنگ جرنلسٹس کی تعداد کے
مطابق ممبران بڑھاتے ہوئے جس طرح عدالتوں میں باقاعدہ پریکٹس کر نے والے
وکیل کے علاوہ کوئی کونسل اور بار کا ممبر ووٹر نہیں ہو سکتا، اس طرح باطور
ایڈیٹر نیوز ایڈیٹر رپورٹر کیمرہ مین فوٹو گرافر اپنے اپنے شعبے میں پیشہ
وارانہ تین سالہ شواہد کا ریکارڈ پیش کیے جانے اور بار کونسل کی طرح پریکٹس
کے لیے لائسنس (اجازت نامہ) ممبر شپ کا باضابطہ اپنے اپنے متعلقہ شعبے سے
متعلق انٹر ویو پریکٹیکل با طرز پی ایس سی سب تنظیمات پریس کلب فاؤنڈیشن
لازمی کرنے کے علاوہ ان کے انتخابات عدلیہ کے زیر نگرانی و انتظام کرنے کے
متعلق قانون سازی ایک ہی بار کرلینے کے اقدامات کرنے چاہئیں،جو صحافت کے
علاوہ باقی سب دیگر شعبہ جات مکاتب فکر کے لیے بھی باعث تقلید عزت و شان کا
وسیلہ بن جائیں،جو یقیناً وزیراعظم فاروق حیدر کی خواہش اور جذبہ بھی
ہے،اور ان کے لیے اعزاز و افتخار بھی بنے گا، دعا ہے اللہ رب العزت ملک و
ملت ریاست معاشرے میں تعصبات جیسی ذلت سے نجات دلاتے ہوئے مسیحائی کرنے
والوں کو اپنی رحمتوں برکتوں کے سائے میں کامیابیاں عطا فرمائے۔(آمین) |