ملک کے ہر شہر اور دیہات یعنی یوں کہہ لیں کہ کونے
کونے پر گندگی و غلاظت کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں جو مُستقِل طور پر
مکھیوں اور مچھروں کی پرورش گاہ بنے ہوئے ہیں ملک کے متعدد شہروں میں سڑکیں
ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور تو اور گلی کو چوں میں اکثر نالیاں کیچڑ سے بھری
رہتی ہیں اور گھروں کا گندہ پانی نالیوں سے نکل کر اِدھر اُدھر پھیل جاتا
ہے جس سے آمدو رفت میں سخت دقت پیدا ہوجاتی ہے اور راہگیروں کے گرنے اور
کیچڑ میں لَت پَت ہونے کے واقعا ت بھی پیش آتے رہتے ہیں چونکہ ان غلاظت اور
بدبو گندگی عفونت کے باعث انسانوں میں متعدد بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور
لوگوں کو ان بیماریوں کا سامنا کرنے میں سخت دشواریوں کے مراحل سے گزرنا پڑ
رہا ہے ان گندگیوں سے اُٹھنے والے تعفن سے مرد خوا تین بچے سمیت بوڑھے
افراد بھی بری طرح اس کا شکار ہورہے ہیں۔اور بعض بیماریاں تو ان کے اندر اس
قدر لاحق ہوچکی ہیں کہ لوگ ان کا علاج کرانے کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر
لگا نے کے باوجود بیماریاں ان کا پیچھا چھوڑنے کا نام نہیں لے رہی ہیں ۔
یوں توملک کے شہروں اور دیہات کے دور دراز میں صحت کے مراکز تو قائم ہیں
مگر عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اگر تھوڑی بہت سہولت ہے تو لوگ چکر
لگاتے لگاتے تھک جاتے ہیں پھر بھی اس سے مستفید نہیں ہوپاتے تو آخر کار
انہیں نجی اور مہنگے ہسپتالوں کی طرف رخ کرنا پڑتاہے جس سے ان کی تکلیف
اورپریشانی میں مزید اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے اس طرح لوگوں کی کمر ٹوٹ جانے
جیسا عمل سامنے آتا ہے جو کہ انتہائی تشویش ناک اورلمحہ فکریہ ہے ۔سرکاری
ہسپتالوں کی حالت زار جو کہ آپ کے سامنے ہیں ان کا ذکرکرنا بھی ایک عجیب سا
محسوس ہوتا ہے ان ہسپتالوں کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں۔ آئے دن
سرکاری ہسپتالوں کی خبریں اخبارات اور شوشل میڈیا پر زینت بنتی رہتی ہیں
صحت کے مراکز جہاں بنیادی طور پر تو صفائی کا نظام بہتر سے بہتر ہونا چاہیے
مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ تمام گندگی کے ڈھیر ناقص نظام اور ناقص کارکردگی کے
باعث پیدا ہوئے اور ان گھمبیر مسائل کے ذمہ دار منتخب اراکین اسمبلی نام
نہادسیاست دان ہیں جنہوں نے اپنی گندی سیاست کو فروغ دینے کے سبب معاشرے
میں ماحولتی آلودگی اور گندگی پھیلائی ہوئی ہے جس کا نقشہ آپ کے سامنے ہے۔
کچھ ماہ پہلے سپریم کورٹ نے سندھ میں آلودہ پانی کی فراہمی کا سختی سے نوٹس
لیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے نکاسی آب سا لڈ ویسٹ معاہدوں کی تفصیلات طلب کی
تھی واٹر کمیشن رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سیوریج ٹریٹمنٹ کا کوئی نظام
نہیں، کراچی ۸۴ مقامات سے پانی کے نمونے حاصل کیے گئے جن میں ۸۰ فیصد پانی
پینے کے قابل نہیں کراچی میں پپری، منگو پیر اور سی اوڈی کے مقام پر نصب
آراو پلانٹ ناکارہ ہیں رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ لاڑکانہ کی ۷۰ لاکھ
آبادی ہے ، رائس کینال میں ۱۸ مقامات پر گندا پانی ڈالا جاتا ہے گندا پانی
لاڑکانہ سے جوہی تک استعمال ہوتا ہے لاڑکانہ کا ۸۸ فیصد زیرزمین پانی پینے
کے قابل نہیں ۔شکار پور کا ۷۹فیصد پانی پینے کے قابل نہیں رہا ، جیکب آباد
کی ایک لاکھ آبادی کے لیے کوئی فلٹر پلانٹ فعال نہیں اس کے علاوہ سکھر کی
۱۰ لاکھ آبادی کا انڈسٹریل ، میونسپل اور ہسپتالوں کا فضلہ رائس اور انڈس
کینال میں چھوڑا جاتا ہے سکھر میں پانی کے ۸۲ نمونے حاصل کیے گئے تھے جس
میں ایک بھی پینے کے قابل نہیں تھا حیدرآباد میں ۸۵ فیصد پانی میں مضر صحت
جراثیم کی تصدیق ہوئی تھی ٹھٹھ میں تو سیوریج نظام اور ٹریمنٹ پلانٹ ہی
موجودنہیں بتایا گیا تھا اس رپورٹ کے مطابق لوگو ں کوگندا پانی فراہم کیا
جاناقابل مذمت ہے رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پانی میں موجود بیکٹریااور ڈی
ایس کی وجہ سے پیٹ کے امراض پھیل رہے ہیں اس کے علاوہ شہر اور دیہات میں
مرد خواتین بچے بوڑھے افراد میں یرقان کی بیماری پھیل رہی ہے اور صاف پانی
نہ ملنے کے باعث انسانی گردے بھی خراب ہورہے ہیں جس سے اب تک کئی افراد اس
مرض میں مبتلا ہو کر ہسپتال میں داخل ہوچکے ہیں خاص طور پر اندرون دیہات
میں یہ مرض زیادہ پایا جارہا ہے لہذا ان حقائق سے چشم پوشی اختیار کرنا
انتہائی تشویش ناک عمل ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ پورے ملک میں لوگوں کو صاف
پانی فراہم کیا جائے جو کہ بنیادی ضرورتوں میں شامل ہیں یہاں ایک بات غور
طلب ہے کہ کراچی ملک کا سب سے اہم ترین جسے معاشی حب کہا جاتا ہے اور دنیا
کے معروف شہروں میں شمار ہوتا ہے اسے شہری اور بلدیاتی سہولتوں کو مثالی
ہونا چاہیے لیکن اب تک ایسا نہیں ہو پا رہا ہے در اصل اس کی وجہ یہ گندی
ذہنیت کے منتخب اراکین نام نہاد سیاست دان ہیں جو کہ ان کی عدم توجہ عدم
دلچسپی اور لاپرواہی و غفلت کا نتیجہ ہے جس کو قوم عرصے درازسے بُھگت رہی
ہے۔ اور دوسری جانب ان منتخب اراکین اسمبلی جو خود کو سیاست دان کہلاتے
جبکہ ان کے لئے بے شرمی کا مقام ہے یہ نام نہاد لوگ ا پنے ڈھیٹ پنے سے قوم
کو مسلسل گمراہ کئے ہوئے ہیں روزانہ صبح وشام ان کی گندی زُبان سے نکلنے
والے لفظ سے مکاری، فریبی ،دھوکہ دہی، مفاد پرستی ، نفرت کی بو آتی ہے اور
مسلسل اپنی گندی سیاست سے پاکستان کے اداروں کو بھی دیمک کی طرح چانٹ رہے
ہیں پاکستان کے گھمبیر مسائل ان کی نا کامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اوریہ
بدنام سیاست دان جس طرح کی گندی زُبان بول رہے ہیں ان کی قابلیت کا اندازہ
قوم بخوبی لگا رہی ہے یہ بات واضح رہے کہ قوموں پر نشیب و فراز واقعات
رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن قوم کو گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ ثابت قدمی سے ان
کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ہاں اب تو ان کے مکروہ چہرے بھی قوم کے سامنے بے نقاب
ہورے ہیں پھر بھی یہ اپنی بے شرمی کا رونا رورہے ہیں اور جھوٹ فریبی کا
چکمہ دے کر اپنا قد بڑھا نے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے
دراصل یہ گندی سیاست کرنے والے اراکین کو گندگیاں منہ لگ چکی ہیں اور یہ ان
عادتوں کو چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ انہوں نے اس کو اپنا وطیرہ بنالیا بہر حال
یہ گندی و غلاظت پر مبنی سوچ کو چھوڑیں یا نہ چھوڑیں لیکن عوام کو ان سے
پیچھا چھوڑانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ عوام بالغ نظری کا عملی
مظاہرہ کرتے ہوئے صاف ستھرے لوگوں کی پہچان اور پرکھنے کی کوشش کی جائیں
اور ان نام نہاد مفاد پرستوں سے خوف زدہ ہونے کے بجائے بلا خوف اپنا کلیدی
کردار اداکریں اور ایک اچھا ماحول بنانے کی جدوجہدکی جائے کیونکہ صاف ستھر
ے ماحول میں صاف ستھری سیاست میں ہی ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ہے یہاں
یہ با ت قابل ذکر ہے کہ صوبہ پنجاب کی جانب سے دیہات پروگرام شروع کرنے
فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ خوش آئند ہے اس طرح ملک کے دیگر صوبے بھی شہروں کے
ساتھ ساتھ دیہاتوں میں بھی صحت وصفائی کے نظام کی بہتری کے لئے موثرپروگروم
شروع کرے تاکہ لوگوں کو بیماریوں سے نجات ملے اور شہری اور دیہی زندگی میں
بہتری آئے- |