کشمیریوں کو اپنی ہی تاریخ سے محروم رکھا جا رہا ہے

ضلع میرپور کو متحدہ جموں کشمیر میں بھی ایک منفرد مقام حاصل تھا۔ مہاراجہ کے دور میں موجودہ پورا میرپور ڈویژن ایک ضلع تھا۔ جموں کشمیر کی جبری تقسیم کے پندرہ سال بعد ایوبی دورہ حکومت میں ڈیم کی تعمیر کے لیے لوگوں کو یہاں سے زبردستی بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس وقت میرے ماموں راجہ سید اﷲ خان وہاں پولیس انسپکٹر تھے جنہوں نے آنکھیں بند کر کے حکومت کے حکم پر عمل کرنے کے بجائے لوگوں کے حقوق کے حوالے سے ان سے گفت و شنید کا مشورہ دیا اور پھر حکومت نے راجہ سیدا ﷲ خان کو ہی ڈیم کے اشو پر ہمارے ایک اور رشتہ دار جنرل سروپ خان کے والد میجر غلام عباس کو قائل کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ حکومت پاکستان نے مفت بجلی سمیت بہت سارے وعدے کیے مگر ان پر عمل تو درکنار منگلہ ڈیم کی رائلٹی کا مسلہ بھی ابھی تک حل نہ ہو سکا البتہ لوگوں نے اپنی مدد آپ نیا میرپور شہر آباد کیا جس میں تارکین وطن کا اہم کردار ہے۔ آزاد کشمیر کے اہم تعلیمی ادارے اور سب سے بڑی بار یہاں ہے ۔ ۱۱ نومبر کو راقم کو میرپور کی خوبصور ت بار میں مسلہ کشمیر پر خصوصی خطاب کا اعزاز بخشا گیا بار کے سنئیر رکن راجہ وسیم یونس چند سال قبل لاہور بار سے بھی میرا خطاب کروا چکے ہیں ۔ جدید دور کی ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ گلگت سے سٹیٹ سبجیکٹ کی بحالی کی مہم چلانے والے سابق اسسٹنٹ کمشنر مشتاق احمد نے کہا کہ نوجوان وکلاء کی سنجیدگی حوصلہ افزاء ہے تو میں نے وکلاء کے چہروں پر دوبارہ نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ اکثریت واقعی نوجوانوں کی تھی ۔ راقم کے خطاب سے قبل نوٹ کی جانے والی تین باتیں قابل زکر ہیں۔ اول یہ کہ دعوت کا جو وقت دیا گیا اس پر تمام انتظامات مکمل تھے جس نے ایک اعلی تعلیم یافتہ مہذب اور باشعور کمیونٹی اور روائتی سیاسی لوگوں کے درمیان فرق کو واضع کیا۔ دوم جن وکلاء نے تقریب میں شرکت کی انکی اکثریت مجھے بار روم میں لے جانے سے پہلے ہی منظم طور پر اپنی اپنی نشستوں پر موجود تھی جسکی وجہ سے ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہوا۔ سوم تقریب کا سٹائل باالکل ترکوں جیسا تھا۔ تین سال قبل اسی موضوع پر جب استنبول یونیورسٹی نے مجھے خطاب کی دعوت دی تو میں نے کہا کہ کسی مقامی مقرر کو بھی موقع دیا جائے جس پر مجھے کہا گیا کہ ترکی میں صرف میزبان کو سنا جاتا ہے۔ میرپور بار میں بھی بار کے جنرل سیکرٹری مدثر اقبال ایڈووکیٹ نے صدر بار شبیر شریف ایڈووکیٹ کو استقبالی کلمات کی دعوت دی جسکے فوری بعد مجھے بلا لیا گیا۔ وکلاء معاشرے کی کریم اور ایک بڑی قوت ہیں لہذا ان سے قانونی اصلاحات اور مسلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے کی درخواست لازمی تھی۔ سائنس اور سیاست کے مصنف سابق برطانوی رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر برائن ایڈن کا یہ موقف شئیر کیا کہ جب تک کشمیری کسی ایک ایجنڈہ پر متحد نہ ہونگے تب تک عالمی برادری مسلہ کشمیر کے حل میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی ۔ چوہدری محمد محفوظ ایڈووکیٹ کے گھر لنچ کی میز پر سیف سلک روٹ سے لے کر سی پیک کے منصوبہ پر انکی مائرانہ گفتگو سے استفادہ کیا۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر الگ کالم درکار ہے۔

کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ کمیٹی کے تعاون سے میرپور سے مظفرآباد پہنچا جہاں وزیر تعلیم بیرسٹر افتخار گیلانی سے ملاقات کر کے تاریخ کشمیر کو نصاب میں شامل کرنے کے حوالے سے ایک مکتوب دیا۔ جب میں جیل سے بری ہو کر آیا تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ہمارے سکولوں میں جو محدود تاریخ اور جغرافیعہ پڑھایا جاتا تھا اسے بھی نصاب سے نکال دیا گیاحالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے تاریخ کو مزید اجاگر کیا جاتا ۔ میں نے اس وقت کی حکومت سے تحریری مطالبہ کیا کہ وہ تاریخ اور جغرافیعہ کو دوبارہ نصاب میں شامل کرے لیکن حکومت نے عجیب جواب دیا کہ اس کے پاس تاریخ مرتب کرنے کے لیے وسائل اور مائرین نہیں ہیں جسکے رد عمل میں راقم نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ اس وقت کے وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان نے کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ اور تاریخ کشمیر کو نصاب میں شامل کرنے کے لیے اسمبلی میں نوٹیفکیشن تو جاری کر دیا لیکن آٹھ سال گزرنے کے باوجود عمل درآمد کرنے کے بجائے انہی پرانی کتابوں کی کاٹھیوں پر کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ لکھ کرقوم کے ساتھ چیٹنگ ہوتی رہی جس پر اس ریاست کے نام نہاد مائرین تعلیم بھی خاموش رہے کیونکہ انہیں صرف اپنی تنخواؤں سے غرض تھی۔ اپنے خط کے ساتھ میں نے وزیر تعلیم کو ثبوت بھی دئیے وزیر تعلیم نے یقین دلایا کہ وہ میرے خط کو اچھی طرح پڑھنے کے بعد جواب دیں گے۔ وزیر تعلیم سے ملاقات کے بعد میں نے متعلقہ اداروں کا دورہ کر کے مزید تحقیق کی کہ آیا مسلہ کیا ہے تو پتہ چلا کہ آزاد کشمیر ڈائریکٹوریٹ صرف سفارشات پیش کر سکتا ہے نصاب کا تعین اور اسکا این او سی اسلام آباد جاری کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جموں کشمیر کو شہ رگ اور ہندوستان اٹوٹ انگ گردانتا ہے لیکن دونوں نے اپنے نصاب سے جموں کشمیر کی تاریخ نکال دی ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تو ہم مسلسل حالت جنگ میں ہیں لیکن پاکستان جسے کشمیری اپنا بڑا بھائی سمجھتے ہیں وہ اگر اپنے چاروں صوبوں کے الگ الگ ٹیکسٹ بک بورڈز کی اجازت دیتا ہے اور ان صوبوں کی تاریخ بھی پڑھاتا ہے تو پھر جموں کشمیر کو بلینک کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اپنی تاریخ پڑھنا ہر معاشرے کے بچوں کا پیدائشی حق ہوتا ہے اور کشمیری بچوں کو اس حق سے محروم رکھنے کی کیا وجہ ہے؟ جموں کشمیر کی وحدت کو بحال کرنے کے لیے کشمیری بچوں کو تاریخ اور جغرافیعہ پڑھا کر ضروری معلومات سے لیس کرنا توتحریک آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اور بھی ضروری ہے۔ کشمیر کی شناخت کے بغیر تو مسلہ کشمیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ پاکستانی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے درمیان دن بدن غلط فہمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جسکا پاکستان کے باشعور طبقے کو نوٹس لینا چائیے۔ جو حریت پسندتحریک کے آغاز میں ہندوستان کو دشمن تصور کرتے تھے ان میں سے بے شمار اب پاکستان کو اپنی آزادی میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں اس سوچ نے حریت پسندوں کے تلخ تجربات کی کھوکھ سے جنم لیا ہے جو انتہائی خطرناک بات ہے اس پر اہل دانش کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر تعلیم سے ملاقات کے بعد ہم نے کچھ نجی ملاقاتیں کیں جن میں ایڈیشنل جج جناب راجہ اطہر محمود اور اپنے سینے میں بے شمار تاریخی یادوں کا خزانہ رکھنے والے بزرگ سیاسی رہنماء جناب میر محمد اشرف تھے۔ میر صاحب کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں میر عبدالطیف ایڈووکیٹ اور محترمہ راحت فاروق ایڈووکیٹ بھی ساتھ تھیں۔ ان دونوں نے تاریخ کشمیر کو نصاب میں شامل کروانے کے حوالے سے قانونی مشورے دئیے مگر ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت مجھے دوبار عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبورنہیں کرے گی۔ واپسی پر راولپنڈی میں برطانیہ سے آئے ہوئے ڈاکٹر سید نذیر گیلانی کے گھر دوران ڈنرمسلہ کشمیر کی عالمی پوزیشن پر گفتگو ہوئی۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نذیر گیلانی مسلہ کشمیر کی آئینی اور عالمی پوزیشن پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 40738 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.