پاکستان میں مفاہمتی سیاست اس وقت ہوتی ہے جب سر چکی کے
دو پارٹ کے درمیان جکڑا جاتاہے اور نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔اس دوران
این آر او اور مفاہمت کی سیاست کے سارے سبق یاد آجاتے ہیں۔ورنہ اپوزیشن اور
مخالفین کو کچلنے اور ذلیل و رسوا کرنے میں ہی حکمران استراحت محسوس کرتے
ہیں۔سیاست کو اپنی مرضی سے جب بھی چلانے کی کوشش کی گئی تو ایسے افراد کو
ہمیشہ اپنی جان کے لالے پڑے ہیں لیکن سبق حاصل کرنے کی نیت نہ ہو تو کیا
کیا جائے۔
میاں نواز شریف کے کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ وزیراعظم قومی
اقدار کا مجسم ہوتا ہے۔واقعی یہ درست بات ہے لیکن جو حکمران بادشاہی مزاج
رکھتا ہو اس کو کیسے حلف کا پابند کیا جائے۔میاں صاحب بار بار یہ کہتے ہیں
کہ مجھے اقامہ رکھنے اور تنخواہ نہ لینے پر نا اہل کیاگیا جو انتقام ہے۔وہ
شاید یہ ماننے کو ذہنی طور پر تیار ہی نہیں کہ انہیں تین سو ملین روپے
بیرون ملک منتقل کرنے کی پاداش میں سزا ملی ہے۔انہیں تیسری مرتبہ ملک کے سب
سے بڑے منصب سے کرپشن کے الزام میں حکومت سے برطرف کیا گیا ہے جو انتہائی
افسوسناک پہلو ہے۔وہ تمام اداروں کو اپنے تابع رکھنے پر بضد ہیں جو ناممکن
ہے۔بھلا عدلیہ اور فوج کیونکر ان کی ہاں میں ہاں ملا سکتی ہے۔انہوں نے فوج
اور عدلیہ کو ہمیشہ اپنے مخالف سمجھتے ہوئے ان کے خلاف مہم چلائی ہے جس کی
وجہ سے ان کی عوامی مقبولیت متاثر ہوئی اور جمہوریت کو بھی نقصان پہنچا
ہے۔ان کے چند ساتھیوں نے بھی بے لگام گھوڑوں کی طرح فوج کے خلاف بھڑکیں
لگائی ہیں جس کا حقیقت سے دور کا تعلق نہیں ہے۔فوج واحد ایسا ادارہ ہے کہ
جب قوم حکمرانوں سے عاجز آ جائے تو وہ فوج سے توقعات وابستہ کرتی ہے کیونکہ
فوج نے ملک کے ہر مشکل وقت میں ملک کو بچانے کے لیے قربانیاں دی ہیں۔اگر
حکمرانوں پے جائیں تو وہ ہر دور میں ہندوستان سے دوستی اور بزنس کے لیے بے
تاب رہے ہیں۔فوج کے خوف سے ہی وہ ملک کی بقا اور استحکام کی طرف توجہ دیتے
ہیں۔تعمیروترقی تو ہر دور میں کچھ ہوتی آئی ہے لیکن ملک کے نظریات اور اس
کی اساس کی پاسداری ہی اصل ذمہ داری ہے جس سے حکمران بے نیاز ہو جاتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر ہی کو لے لیجئے ہمارے حکمرانوں نے ہر دور میں کشمیر پر سیاست
کی ہے لیکن کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہم اب تک کوئی موثرو منظم پالیسی
نہیں بنا سکے۔دوست ممالک دشمنوں کے ساتھ ہیں۔برآمدات کی بجائے ہم درآمدات
پر خوش ہیں۔زرعی طور پر ہم روز بروز بانجھ ہورہے ہیں تعمیروترقی کے منصوبے
میرٹ کی بجائے من پسند افراد کو دیکر اپنی جیب بھرتے ہیں۔انصاف کے نام پر
من مانی کرتے ہیں عوام کو ریلیف دینے کی بجائے انہیں بددیانتی،نا
انصافی،رشوت،کرپشن،مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے انعامات تقسیم کرتے ہیں۔
سیاست میں تیزی کے فیصلے ہمیشہ ناپائیدار ہوتے ہیں۔جوش،ضد اور ہٹ دھرمی کے
مزاج سے اپنے بھی نا انصافی سے نہیں بچ سکتے۔ساتھیوں کی رائے کا احترام نہ
کیا جائے تو بند گلی میں ہی بند ہونا پڑتا ہے۔جذباتی سیاست نے ہر حکمران کی
جان جوکھوں میں ڈالی ہے لیکن اقتدار کے بعد ہم عبرت حاصل نہیں کرتے۔
سیاسی و دینی جماعتوں کو اپنے مفاداتی ایجنڈے پس پشت رکھ کر ملک کی فکر
کرنی چاہیے۔ہمارا ملک اس وقت مشکل ترین وقت سے گزر رہا ہے ہر کوئی اپنی
ڈفلی بجا رہا ہے سب کو اپنے مفاد اور اقتدار کی فکر ہے۔آخر کوئی تو ہو جو
ملک کے لیے فکر مند ہو جسکی وجہ سے سب عیاشیاں کررہے ہیں۔اگر ملک کو کچھ ہو
گیا تو حکمران اور سیاستدان تو ملک سے لوٹی ہوئی قومی دولت پر بیرون ملک
موج مستی کرنے چلے جائیں گے لیکن جن غریب عوام نے یہیں رہنا ہے انکی کسی کو
فکر نہیں ہے۔
میاں نواز شریف کو اپنی ہٹ دھرمی کی پالیسی ترک کرکے آزمودہ کار ساتھیوں سے
ازسر نو مشاورت کرنی چاہیے۔مزاحمت چند دن تو چل سکتی ہے مگر زیادہ دیرپا
نہیں ہے۔اگر مشکل ادوار میں این آر او ہو سکتے ہیں تو پھر مفاہمت ہی کے
ذریعے ہی خلاصی ممکن ہے۔عدلیہ،انتظامیہ،مقننہ اور فوج کو بھی اعتماد میں لے
کر وسیع القلبی کے ساتھ چلنے میں حرج ہی کیا ہے۔محض گاڈ فادر بن کر ہر شے
کو تہس نہس کرنے کے ارادے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ جو کچھ خوش اسلوبی سے
چل رہا ہے وہ بھی خراب ہو جائے گا۔
فوج اور عدلیہ کو فتح کرنے کا منصوبہ کسی صورت قابل عمل نہیں ہے۔اس پر اپنی
قوت ضائع نہیں کرنی چاہیے بلکہ برد باری،برداشت،رواداری اور تحمل کے ساتھ
ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آپ کا وجود کسی کے لیے تکلیف دہ نہ ہو اور
تمام ادارے اپنے اختیارات میں رہتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔یہ ملک
نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہییہاں من مستی کا نظام نہیں چل
سکتا بلکہ اس کے نظریاتی اساس کو مضبوط بنائیں انصاف کا بول بالا کریں اور
اپنی مرضی قومی مفاد کی خاطر قربان کرکے ایسا آئیڈیل ماحول بنائیں کہ لوگ
ہماری مثال دے سکیں یہی ہمارے سچے دین کا درس ہے اور یہی عوام کی تمنا ہے
اگر اسی طرح اچھل کود کا ماحول جاری رہا تو پھر یہ بات بعید نہیں کہ
جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جائے اور ایسا کڑا احتساب ہو کہ سب کو دن میں
تاڑے نظر آنے لگیں کیونکہ ہمارے مزاج اور عادات بگڑ چکی ہیں اور ہم آسانی
سے بات کو سمجھنے سے بھی عاری ہیں اﷲ کا خوف نہیں رہا۔رسول اکرم صلی اﷲ
علیہ وسلم کی تعلیمات سے دور ہوچکے ہیں اور ہم میں ایسی عادات زور پکڑ چکی
ہیں جو ہلاکت کا سبب بن سکتی ہیں۔ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہوگی
اور مزاحمت کا راستہ چھوڑ کر مفاہمت کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ |