بلوچستان کے ضلع تربت کے علاقے گروک میں دہشتگردوں نے
پنجاب کے مختلف شہروں سے گئے 15نوجوانوں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
ذرایع کے مطابق نوجوانوں کو انسانی اسمگلر غیرقانونی طور پر ایران کے بارڈر
پر لے جا رہے تھے۔ تمام مزدوروں کو قتل واقعہ سے ایک روز پہلے اس وقت اغوا
کیا گیا تھا، جب وہ ایک بس میں جارہے تھے۔ بس میں پچاس مسافر سوار تھے۔
دہشتگردوں نے تمام مسافروں کو اسلحے کے زور پر نیچے اتار لیا اور قطار بنا
کر سب کے شناختی کارڈز چیک کیے۔ پنجاب کے شناختی کارڈز رکھنے والے پندرہ
مزدوروں کو الگ کیا اور اپنے ساتھ اغوا کر کے لے گئے۔ بعد ازاں نامعلوم
مقام پر لے جاکر ان غریب مزدوروں کی اعترافی ویڈیو بنائی گئی، جس میں ان سے
ایف ڈبلیو اور کے لیے کام کرنے کا اعتراف کرایا گیا اور پھر ساری رات تشدد
کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور پھر گولیاں مار کر قتل کردیا۔ منگل کی رات کو
رات گئے ان کی لاشیں گروک کے سنسان پہاڑی علاقے میں پھینک دی گئیں۔ جہاں ان
لاشوں کو لیویز نے برآمد کیا۔ جاں بحق ہونے والوں کا تعلق پنجاب کے مختلف
شہروں سے تھا، جن میں محمد حسین کا تعلق واہ کینٹ، اظہر وقاص، خرم شہزاد
اور ذوالفقار کا تعلق منڈی بہاء الدین، غلام ربانی اور احسن رضا کا تعلق
ضلع گوجرانوالہ، سیف اﷲ کا تعلق گجرات، محمد الیاس کا ڈسکہ، عبدالغفور اور
طیب کا تعلق سیالکوٹ سے تھا، جبکہ جن 4 افراد کی نعشوں کی شناخت نہیں ہو
سکی۔ ان میں سے دو کی عمریں 20 سے کم اور دو کی 35 سال کے قریب ہیں۔ گجرات
کے نواحی گاؤں ٹانڈہ کے علاقہ ڈب کا رہائشی 2 بچوں کا باپ 39سالہ سیف اﷲ
20روز قبل گجرات سے کوئٹہ کے راستے تربت، ایران اور یونان جانے کے لیے گیا
تھا۔ چار افرادکا تعلق منڈی بہاء الدین کے علاقوں ملکوال، ریڑکابالا، چاڑاں
والا اور واڑا چامیاں سے ہے، انہیں انسانی اسمگلر نے ایک لاکھ روپے میں
منڈی بہاء الدین سے یونان لے کر جانے کا جھانسہ دیا اور سنہرے خواب دکھاکر
انہیں بلوچستان کے راستہ ایران لے کر جا رہا تھا۔ منڈی بہاء الدین سے تعلق
رکھنے والے افراد میں خرم شہزاد ولد عبدالحمید ساکن چاڑاں والا پھالیہ نوید
نامی انسانی اسمگلرکے ذریعے گیا، ذوالفقار ولد طالب ساکن فضل آباد ریلوے
پھاٹک ملکوال کو انسانی اسمگلر محمد خان پٹھان، اظہر وقاص ولد صالح منڈی
بہاء الدین اور چوتھے کا نام ابھی سامنے نہیں آسکا ہے۔ احسن رضا منہاس ولد
عابد حسین عمر 29 سال سکنہ موضع رسولنگر تحصیل وزیر آباد کا رہائشی تھا۔
پندرہ افراد میں سے محمد غفور ولد نور احمد اور غفران زاہد ولد زاہد علی
دونوں دوست تھے اور ان کا تعلق سیالکوٹ کے تھانہ اگوکی کے گاؤں بھنڈر سے
تھا۔ بتایا گیا ہے کہ تیس35 سالہ محمد غفور تین بچوں کا باپ ہے، جبکہ غفران
زاہد بیس بائیس سال کا تھا۔ دونوں کے قتل کی خبر گاؤں پہنچنے پرگاؤں میں
کہرام برپا ہو گیا۔ بتایا گیا ہے کہ بیس سالہ طیب رضا ولد حامد رضا کا تعلق
قصبہ پنج گرائیں سے تھا۔ محمد الیاس ولد محمد شریف تحصیل ڈسکہ کے گاؤں
گوجرہ کا رہنے والا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ یہ تمام افراد روزگار کے سلسلہ
میں ایران کے راستہ بیرون ملک جانا چاہتے تھے۔
ایرانی سرحد خاص کر ایرانی شہر تفتان غیرقانونی طور داخلے کا ایک بڑا ذریعہ
ہے۔ یہاں سے اکثر و بیشتر ایرانی سیکورٹی فورسز، انسانی اسمگلرز میں پھنسے
لوگوں کو نکال کر پاکستانی لیویز کے حوالے کردیتے ہیں۔ ایسے واقعات ہر روز
پیش آتے ہیں اور اب تک انگنت افراد کو تفتان سے گرفتار کرکے لیویز کے حوالے
کیا جاچکا ہے۔ غیرقانونی طورپرایران میں داخل ہونے کی اصل وجوہات یہ ہیں کہ
انسانی اسمگلرز لوگوں کو ایران سے ترکی اور پھر یونان کے راستے یورپی ممالک
بھیج دیتے ہیں اور اس کام کے لیے وہ لاکھوں روپے کماتے ہیں۔ صدر مملکت
ممنون حسین، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تربت اور کوئٹہ میں دہشت گرد
حملوں کی مذمت کی ہے اور کہا کہ پولیس اور دیگر افراد پر دہشت گردوں کا
حملہ بزدلانہ فعل ہے، جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ تربت میں قتل ہونے والے
15 افراد کی نماز جنازہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اﷲ زہری، صوبائی وزرا
اور عسکری حکام نے شرکت کی۔ دہشتگرد کارروائی کی ذمہ داری اگرچہ بلوچستان
لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے قبول کی ہے، تاہم ذرایع کے مطابق یہ کارروائی
بلوچستان لبریشن آرمی کے دہشتگردوں کے ساتھ مل کر کی گئی ہے۔ بتایا جارہا
ہے کہ ایسے واقعات کا مقصد بلوچستان میں بدامنی پھیلا نا اور سی پیک منصوبے
کو ناکام بنانا ہے، قندھار اور جلال آباد کے بھارتی قونصلیٹ میں موجود ’’را‘‘
کے نیٹ ورک کو سی پیک منصوبے اور بلوچستان میں بدامنی کا خصوصی ٹاسک دیا
گیا ہے، جبکہ ڈاکٹر اﷲ نذر دونوں قونصلیٹ سے رابطے میں ہے۔
کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ تنظیم کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ مارے جانے
والے افراد فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے ملازمین تھے اور ضلع کیچ میں چین
پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ادھر بلوچستان ہی میں
دہشتگردی کے ایک اور واقعہ میں ایس پی انویسٹی گیشن، ان کی اہلیہ، بیٹے اور
پوتے کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ دونوں سانحات ٹارگٹ کلنگ کے اسی
پْرانے سلسلے کی کڑی لگتے ہیں، جس کے تحت غیرمقامی مسافروں اور سیکورٹی
اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، تاکہ معاشرے میں دہشت پھیل جائے اور
لوگ خوف زدہ ہو جائیں۔ بلوچستان میں پیش آنے والے دہشتگردی کے واقعات بہت
افسوسناک ہیں۔ بلوچستان ایک عرصے سے دہشتگردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، کوئی
دن نہیں گزرتا جب وہاں دہشتگردی کی کوئی نہ کوئی واردات رونما نہ ہوتی
ہو۔طویل مدت سے بلوچستان بدامنی کاشکار ہے تو اس کی وجہ صوبے میں غیر ملکی
دشمن ایجنسیوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے۔ خود ہمارے محافظ اداروں کی طرف
سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ صوبے میں کم و بیش ڈیڑھ درجن خفیہ ایجنسیاں
برسرپیکار ہیں اور بلوچوں کی علیحدگی پسند تحریکوں کی معاونت کے علاوہ
سکیورٹی فورسز پر وار کرنے سے نہیں چوکتیں۔ صوبے کی صورتحال سیکورٹی اداروں
کی اس بات کو سچ ثابت کرتی ہے۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں قائم مقام
ایس پی انویسٹی گیشن کو ان کے اہل خانہ سمیت نشانہ بنانا اور تربت میں
15نوجوانوں کوگولیوں سے بھون ڈالنا اس امر کاغماز ہے کہ بلوچستان میں قیام
امن کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں بے گناہ پنجابی
افراد کے قتل کا افسوسناک واقعہ پہلی بار نہیں ہوا، اس سے پیشتر بھی متعدد
واقعات میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں اور دیگر افراد کو دہشتگردی
کا نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ مارے جانے والے نوجوانوں کا تعلق کسی تنظیم، کسی
حکمران خاندان یا سیاسی تنظیم سے نہیں تھا، نہ وہ اختیارات کی دوڑ میں شریک
تھے، وہ تو عام گھروں کے بیروز گاری کے ستائے ہوئے نوجوان تھے، جو روز گار
کی تلاش میں کسی نہ کسی طرح بیرون ملک جانا چاہتے تھے۔ یہ سب واقعات کسی
سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ معلوم ہوتے ہیں، جس کا مقصد صوبائیت اور نفرت کو
ہوا دینا ہے۔ پنجاب کے مزدوروں کا قتل صوبائی تعصب پھیلانے کی سوچی سمجھی
سازش ہے جس کے پیچھے بھارتی تخریب کار کلبھوشن یادیو جیسے دہشت گردوں کا
ہاتھ ہے۔بھارت علیحدگی کی تحریکوں کو مالی و عسکری معاونت فراہم کرکے دشمن
بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتا ہے، ایس پی انویسٹی گیشن ، ان کے
خاندان کے افراد اور پندرہ مزدوروں کا قتل اس گھناؤنی سازش کا حصہ ہے جو
بھارت بلوچستان میں رچا رہا ہے۔ غیرملکی ایجنسیاں ایک عرصے سے بلوچستان کے
حالات خراب کرنے میں مصروف عمل ہیں، وہ یہاں دہشتگردی کو ہوا دینے کے لیے
بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہیں۔ مٹھی بھر مقامی افراد اپنے گروہی مفادات ان
غیرملکی ایجنسیوں کے آلہ کار کا کردارادا کر رہے ہیں۔ پاکستان بھارتی
ایجنسی را کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد عالمی سطح پر پیش کر چکا ہے، مگر
اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا، جس سے شہ پا کر
بھارتی ایجنسیاں بلوچستان اور افغانستان کے راستے خیبرپختونخوا میں
دہشتگردی کی کارروائیاں کروا رہی ہیں۔ افغانستان کی حکومت بھی بھارت کے
ساتھ ملی ہوئی ہے۔ بھارت اور دیگر عالمی قوتیں پاک چین اقتصادی راہداری کے
منصوبے کو کسی نہ کسی طرح روکنے کی کوشش میں دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہی
ہیں۔ بھارتی ایجنسیاں عالمی ایجنڈے کے تحت بلوچستان میں قتل و غارت اور
دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے انتشار اور بے چینی پھیلانے میں مصروف ہیں۔
بھارت ایک طرف بلوچستان میں انتشار پھیلا رہا ہے اور دوسری طرف افغانستان
میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گرد کاروائیاں کروا رہا ہے۔ بلوچستان کے
گوادر بندرگاہ نے دشمن کو بے چین کررکھا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان
گوادر بندرگاہ کے ذریعے اپنی معاشی پوزیشن مضبوط کرے۔ دہشت گردی واقعات میں
بھارت کا کردار پہلے ہی بے نقاب ہوچکا ہے۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس بات
کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کاروائیوں بھارت براہ راست
ملوث ہے۔متعدد رسیاسی رہنماؤں نے بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات کا الزام
بھارت پر عاید کیا ہے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بلوچستان میں
ٹارگٹ کلنگ کے متذکرہ دونوں واقعات میں بھارتی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کا
الزام عاید کیا ہے۔
بھارت سی پیک کے خلاف اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے معصوم لوگوں کی
زندگیوں سے کھیل رہا ہے، دشمن نے بلوچستان کو اپنی دہشت گرد سرگرمیوں کا
مرکز بنایا ہے۔ جب سے سی پیک کے ذریعے بلوچستان سے پسماندگی کے خاتمہ اور
احساس محرومی کے سدباب کے لیے ترقیاتی منصوبوں خصوصاً گوادر کا فعال کردار
سامنے آیا ہے، دشمن اسے ہضم نہیں کر پا رہا اور یہ ترقیاتی منصوبے دشمن کی
آنکھ میں کھٹک رہے ہیں، جس کے خلاف دشمن نے منظم منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اس
منصوبے کے تحت بیرونی اور اندرونی طور پر گروپ سرگرم ہیں، افغانستان کے
اندر ایسے ٹریننگ کیمپ موجود ہیں جو ’’را‘‘ اور’’ این ڈی ایس ‘‘چلا رہے
ہیں، جہاں دہشت گردی کی ٹریننگ ہوتی ہے اور ٹارگٹ سونپے جاتے ہیں۔دہشتگردی
کے واقعات کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ بلوچستان کو غیر مستحکم کیا جائے۔ جب
تک بلوچستان کے اندر دہشت گردی اور تخریب کاری کے سدباب کے لیے انٹیلی جنس
کا منظم اور جدید نیٹ ورک قائم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک بلوچستان سے دہشت
گردی کی جڑیں کاٹنا ممکن نہیں ہو گا، اس کے لیے اسلام آباد کا کردار اہم ہے
اور جب تک اسلام آباد سے بلوچستان کے حالات میں سنجیدگی ظاہر نہیں کی جاتی
مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ
سیکورٹی اداروں نے بلوچستان میں دہشتگردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی
کرتے ہوئے متعدد کو گرفتار اور ان سے خوفناک اسلحہ برآمد کیا ہے، مگر
دہشتگردوں کا نیٹ ورک اس قدر وسیع اور منظم ہے کہ اسے ختم کرنے میں ایک
عرصہ درکار ہے۔اصل کام سانحہ تربت اور ایس پی انویسٹی گیشن کے قاتلوں کو
کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ بلوچستان میں کچھ گروہ علیحدگی پسندی کو ہوا دے
رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں لندن میں بھی ان کی کارروائیاں دیکھنے میں آئیں، جس پر
پاکستان نے شدید احتجاج کیا۔ بھارت برسوں سے بلوچستان میں سازشوں کے تانے
بانے بن رہا ہے۔ جب تک بلوچستان کے اندر بھیانک کھیل کھیلنے والے دشمن کا
اصل چہرہ اور مکروہ کردار دنیا کے سامنے بے نقاب نہیں کیا جائے گا، دہشت
گردی کی وارداتیں جاری رہیں گی۔ |