مذاکرات کی بھیک

قصرسفیدکے فرعون ٹرمپ نے جب سے اقتدارسنبھالاہے اس کو اپنی تمام جاری پالیسیوں پراندرون ملک اوردنیابھرمیں بری طرح مزاحمت اور ناکامی کاسامناہے۔قصرسفیدمیں قدم رکھتے ہی درجن کے قریب ممالک کے شہریوں کے امریکی داخلے پرپابندیوں کااعلان کردیاجس کو عدالتی احکام نے مستردکردیا۔ میکسیکوکی سرحدپرآہنی باڑ لگانے کے معاملے پربھی پسپائی اختیارکرناپڑی اوراسی طرح جب سے ''نئی افغان پالیسی'' کا اعلان کیاہے ،افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں امریکا اوراس کی کٹھ پتلی حکومت کی درگت میں شدت آ گئی ہے۔ابھی حال ہی میں طالبان نے افغان صوبہ لوگرکے ضلع خروارمیں امریکاکاجدیدترین جنگی ہیلی کاپٹرچنیوک مارگرایاجس کے نتیجے میں۱۳/امریکی فوجی ہلاک ہوگئے جبکہ ہیلی کاپٹرکے گرنے سے اس علاقے میں شدیدلڑائی شروع ہوگئی جس میں اب تک ٣٠افغان فوجی بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔امریکی فوج نے ایمرجنسی لینڈنگ میں ہیلی کاپٹرتباہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیاکہ اس واقعے میں صرف ایک امریکی فوجی ہلاک اورچھ زخمی ہوئے ہیں۔پینٹاگون نے مزید تفصیلات دینے سے گریزکرتے ہوئے چنیوک کی تباہی کوحادثہ قراردیاہے تاہم اس کے ساتھ ہی ''ذمہ داروں''کوسزادینے کابھی اعلان کیاہے۔

جس روزپکتیامیں امریکی ڈرون حملے میں جماعت الاحرارکے سربراہ عمرخالدخراسانی عرف عبدالولی شاہ کی ہلاکت کادعویٰ کیاگیااسی روزپکتیااورغزنی میں طالبان کے خودکش دہماکوں میں پولیس چیف سمیت ۷۱/افرادہلاک اور۲۵۰ زخمی ہوئے۔پکتیاکے دارلحکومت گردیزمیں پولیس ہیڈکوارٹرپرحملے میں صوبائی پولیس چیف طوری علی عبدیانی سمیت ۴۱/افرادہلاک ۱۵۸سے زائدزخمی ہوئے جس میں دودرجن سے زائدزخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔پولیس ہیڈ کوارٹرکے دروازے پردوخودکش کاربم دہماکے کئے گئے جس کے بعدپانچ مسلح حملہ آوروں نے اندر داخل ہوکر شدید ترین فائرنگ شروع کردی۔پانچ گھنٹے پولیس اور حملہ آوروں میں شدیدجھڑپ جاری رہی لیکن بعد ازاں افغان فوج کی ایک بھاری تعدادنے مقابلے کے بعدتمام حملہ آوروں کوہلاک کردیا۔

اسی طرح ۱۹/اکتوبرکو چشمہ آرمی کیمپ (قندھار)میں دوخودکش کاربم حملوں میں۵۰فوجی ہلاک اور۲۰شدید زخمی ہوگئے جبکہ ۸فوجی ابھی تک غائب ہیں۔

اس دوران۱۰حملہ آورہلاک کرنے کادعویٰ کیاگیا۔نیزشمالی صوبہ بلخ اور مغربی صوبہ فراہ میں طالبان کے حملوں میں۱۵پولیس والے مارے گئے۔چشمہ کیمپ پر حملے میں بارودی موادسے بھری امریکی ساختہ ہموی گاڑی استعمال کی گئی۔ صوبہ قندھارضلع میوندمیں کی گئی اس کاروائی میں چشمہ آرمی کیمپ کاصفایا ہوگیا،کیمپ میں تعینات صرف دوفوجی زندہ بچے۔اس کے بعدامریکی طیاروں نے میوندمیں جوابی فضائی حملے کئے جس کے جواب میں طالبان نے غزنی کے پولیس ہیڈکوارٹرپردوبارہ حملہ کرکے دوسپاہیوں کوماردیا۔ایک خبرکے مطابق طالبان نے افغان فوجی اڈوں سے درجنوں ہموی گاڑیاں اپنے ساتھ لے گئے۔فراہ کے حملے میں صوبائی پولیس چیف عبدالمعروف فولادکے مطابق ٢٢حملہ آور ہلاک کئے گئے ہیں۔

٢١اکتوبرکو ایک فوجی بس جیسے ہی ملٹری اکیڈمی (کابل)سے نکلی ،ایک خود کش حملہ آورنے حملہ کردیاجس سے ۱۵کیڈٹ ہلاک ہوگئے۔طالبان کی کاروائیوں میں جوشدت آئی ہے اس سلسلے میں جمعہ اورہفتہ کی درمیانی شب مقامی وقت کے مطابق رات دس بجے چنیوک ہیلی کاپٹرمیں سوارامریکی اورافغان کمانڈوز لوگرکے ضلع خروارکے علاقے بیگم میں طالبان کے خلاف کاروائی کیلئے پہنچے ۔افغان طالبان کاکہناہے کہ انہوں نے خاص حکمت عملی کے تحت ہیلی کاپٹرمارگرایا ۔افغانستان کے وسطی صوبہ لوگرکاضلع خروارگزشتہ ایک سال سے افغان طالبان کے قبضے میں ہے اوراس قبضے کی وجہ سے غزنی، پکتیا اورمیان وردگ کی میران شاہ اکثرطالبان حملوں کی زدمیں رہتی ہے۔

امریکابہادرافغانستان میں تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑنے کے بعداب طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہاہے۔ استعماری طاقت کی بہادری ملاحظہ فرمائیں کہ پاکستان کو دہمکیاں دیکراس کے ذریعے سے مذاکرات کاخواہاں ہے جبکہ طاالبان کی واحدشرط یہ ہے کہ امریکی فی الفورافغانستان چھوڑدیں۔طالبان کے مذکورہ حملوں کے حوالے سے ان کے ترجمان قاری یوسف احمدنے کہا:''یہ حملے امریکااورکابل حکومت کیلئے واضح پیغام ہیں کہ وہ اپنی نام نہاداسٹرٹیجی سے ہمیں نہیں ڈراسکتے،ہم جہادکررہے ہیں اوران شاء اللہ ہر محاذپراللہ کی نصرت ہمیں میسرہے ''۔۲۰۱۶ء میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں افغان فوج اورپولیس کے۶۸۰۰اہلکارمارے گئے تھے جبکہ امسال اب تک کے مصدقہ جائزوں کے مطابق افغان فوج ،پولیس شدگان اورزخمیوں کی تعدادمیں۳۵٪اضافہ ہواہے۔ امریکی حکمرانوں اور پینٹاگون دونوں کوطالبان سے مذاکرات کے اصل تقاضے ملحوظ رکھنے ہوں گے وگرنہ طالبان نے جس طرح حالیہ چہار فریقین مذاکرات میں آنے سے انکارکردیاہے اسی طرح آئندہ بھی ایسی کوئی بھی سعی لاحاصل ہو گی۔

مذاکرات کیلئے پاکستان کواستعمال کرنے کیلئے امریکانے جوروش اختیارکر رکھی ہے وہ بھی اس بناء پرمعقول قرارنہیں پاتی کہ دہمکیوں سے کوئی بھی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ پاکستانی وزیرخارجہ خواجہ آصف نے امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کے مختصردورۂ پاکستان کے حوالے سے ایوان بالاکوآگاہ کرتے ہوئے کھری کھری سنائیں اورامریکاکواپنے گریبان میں جھانکنے کاطعنہ دیتے ہوئے کہاکہ اس نے سولہ برس تک افغانستان میں کیاکیا؟ واشنگٹن دوستی کاخمیازہ ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں،امریکاہمارے ساتھ اس سے زیادہ اوربراکیاکرسکتاہے۔ہمارے وزیرخارجہ دورۂ امریکاکے دوران انتہائی غیر دانشمندانہ گفتگوبھی کرتے رہے ہیں تاہم امریکاکے بارے میں ان کے تازہ ترین اظہارخیال سے محب وطن حلقے عمومی طورپر اتفاق ہی کریں گے۔ لگتاہے ہمارے حکمرانوں کوبالآخریہ حقیقت سمجھ آگئی ہے کہ امریکاجس کادوست ہوتا ہے اسے پھرمزیدکسی دشمن کی ضرورت نہیں ۔

یہ بات امریکی دانشوربھی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ امریکاکی دوستی اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔حقیقت تویہ ہے کہ کھلادشمن خطرناک نہیں ہوتااس کی دشمنی کے سبب ہم بھی مکمل تیاررہتے ہیں لیکن جودوستی کے پردے میں دشمنی کرتے ہیں،ان کی منافقت سے بچنامشکل ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکانے دوستی کے پردے میں اپنے مفادات کے حصول کیلئے ہمیشہ ہمیں قربانی کابکرابنایاہے لیکن ہمارے ہاں جن سیاستدانوں کے مفادامریکاسے وابستہ ہیں وہ یہ حقیقت تسلیم کرنے کوتیارنہیں حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ امریکاکیساگھناؤناکرداراداکر رہاہے تاہم اب فضاء بدلتی دکھائی دے رہی ہے۔ ریکس ٹلرسن نے اسلام آبادسے نئی دہلی جاکرصاف کہا کہ بھارت ہمارا فطری اتحادی ہے اور ہم اسے خطے کے اہم لیڈرکے طورپردیکھتے ہیں اوریہ بات پاکستانی قیادت کوبتادی گئی ہے۔

امریکی قیادت کی طرف سے بار بار اس قسم کی دہمکی اس بات کاشارہ ہے کہ امریکاپاکستان میں کاروائی کیلئے تیاری کررہا ہے اوراس کیلئے بھارت سے معاونت چاہتا ہے۔امریکا اب تک جوکام افغانستان میں پاکستان سے لیتارہاہے ،اب یہ کام پاکستان اورافغانستان میں بھارت سے لے گالیکن بھارت اور امریکا کویہ سمجھ لیناچاہئے کہ پاکستان افغانستان یاعراق نہیں۔امریکاکے نئے اتحادی اوراس کے نزدیک اس خطے کالیڈربھارت وہی ہے جوآئے دن پاکستانی سرحدوں پرحملے کرتاچلاآرہاہے اوراس کافوری منہ توڑجواب بھی اسے خوب ملتاہے۔اس نے کشمیرپرناجائزقبضہ کرکے کشمیریوں پرظلم کی انتہاء کردی ہے اوراس پر مستزادیہ کہ وہ کشمیرکے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل کرنے سے بھی گریزکرتاچلاآرہاہے۔

امریکی وزیرخارجہ نے نئی دہلی میں ایک بارپھردہرایاکہ پاکستان کی سلامتی خطرے میں ہے۔امریکاکی طرف سے ایسے اشارے اسی وقت آتے ہیں جب امریکی ایجنسی سی آئی اے کوئی شرارت کرنے کی کوئی تیاری کررہی ہو۔ پاکستان کی عسکری اورسول قیادت کا چوکس اورایک ہی صفحے پررہنا ازحد ضروری ہے۔پاکستان کے وزیرخارجہ نے سینیٹ میں جو بیان دیاہے اب اس پرمستقل عملی استقامت کامظاہرہ ازحدضروری ہے اورسب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکاکی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے دباؤ آئے توواضح طورپریہی جواب دیاجائے کہ سب سے پہلے پاکستان اوراس کے بعدافغانستان کے ساتھ ،وہی طرزِ فکر وعمل اپنایاجائے جومسائل کیلئے پرامن فضاء میں حل کیلئے ضروری ہے ۔ امریکابھارت میں اس خطے میں بھارت کو ہی لیڈرسمجھتاہے توپھربھارت سے ہی طالبان کیلئے مذاکرات کی بھیک مانگے جبکہ مکاربھارتی بنیاء اس بات کوخوب سمجھتاہے کہ افغانستان میں امن کے بعداس کی حیثیت دھوبی کے کتے جیسی ہوجائے گی جوگھرکانہ گھاٹ کارہے گا۔ اپنے مفادات کیلئے جس طرح اس نے روس سے آنکھیں پھیر کر امریکاکی گود میں جا بیٹھاہے ،امریکاکی واپسی کے بعداسے بھارت کومنظم رکھناناممکن ہو جائے گااوربھارت میں دودرجن سے زائدعلیحدگی کی تحریکیں بھارت کاشیرازہ بگاڑکر رکھ دیں گی۔تاہم یہ دن دورنہیں اوربھارتی ڈھانچہ بھی روس کی طرح کئی آزادریاستوں کی شکل میں تقسیم ہوگا۔فی الحال ہمیں اپنی حکمت عملی کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390238 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.