قطر اورروایتی عرب اتحادیوں (مصر، سعودی عرب، بحرین
اورابو ظہبی۔۔۔ یہ چار ملکی اتحاد جو اس وقت خود کو انسدادِ دہشت گردی
اتحاد کے طور پر پیش کر رہا ہے) کے درمیان جاری سفارتی بحران کاکوئی ممکنہ
حل نظرنہیں آرہا۔ اکتوبرکے آغازمیں لندن،بحرین،ابو ظہبی اور دبئی کے دورے
کے بعد کم ازکم مجھے تویہی محسوس ہورہا ہے۔ اپنے اپنے موقف پر ہٹ دھرمی سے
قائم رہنے کی وجہ سے معاملات مزید الجھ رہے ہیں،جس کا مجموعی طورپرفائدہ
قطرسمیت سب کا مشترکہ دشمن ایران اٹھارہاہے اور اس کے اثرات واشنگٹن پر بھی
پڑ رہے ہیں، جس کی خلیج فارس کے حوالے سے حکمت عملی یہ ہے کہ باہمی دوریوں
اورتنازعات کے باوجود خلیجی ممالک کے اتحاد کوقائم رہناچاہیے۔
واشنگٹن اس معاملے کے حل کے لیے کوئی واضح موقف نہیں اپنارہا،اس کی طرف سے
ملا جلا سفارتی ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ امریکا کے سیکریٹری اسٹیٹ ریکس
ٹیلرسن اور سیکریٹری دفاع جیمس میٹس مصالحت کی بھر پور کو ششیں کر رہے ہیں
۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ ابھی تک تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے موقف
کی حمایت کرتے نظر آرہے ہیں لیکن وہ اس وقت جھنجلاہٹ کا شکار ہو گئے جب
سعودی ولی عہد اور امیر قطر کے درمیان فون پر رابطہ کروانا چاہ رہے
تھے،اوراس مقصد میں وہ کامیاب نہ ہو سکے،بلکہ اس کے بعد سے معاملا ت مزید
خراب ہو گئے ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو معاملات کی خرابی کا ذمہ دار
ٹھہرا رہے ہیں۔
بظاہر تواس بحران کی اصل وجہ قطرکی پالیسیاں ہیں،چارملکی انسداد دہشت گردی
اتحادنے جون کے آغازمیں ۱۳ نکات پرمشتمل فہرست قطر کودی تھی، جس میں
بنیادی طور پر قطر پر داخلی معا ملات میں مداخلت کا الزام لگایا گیا تھا۔
لیکن یہ مشرق وسطیٰ ہے،جہاں روایتی انا پرستی اہم کر دار ادا کرتی ہے۔ اس
سارے بحران میں جو لوگ نمایاں ہیں ان میں ایک تو محمد بن سلمان ہیں اور
دوسرے ان کے اتحادی اورسفارتی معاملات میں ان کے استاد، متحدہ عرب امارت کے
اہم رہنما، ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زید ہیں۔ جبکہ دوسری طرف قطر کے
امیر تمیم بن حمد آل ثانی ہیں جو کہ شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی کے بیٹے
ہیں،جنھوں نے عرب کی روایت کو توڑتے ہوئے اپنی زندگی میں ہی امارت اپنے
بیٹے کے سپرد کر دی تھی،لیکن وہ ابھی بھی دوحہ کے فعال لوگوں میں شمار ہوتے
ہیں۔
اگرچہ تجارتی اور سفری پابندیاں ابھی تک جاری ہیں لیکن اصل جنگ ’’پبلک
ریلشنز‘‘کے محاز پر لڑی جا رہی ہے۔ دونوں فریقین اس محازپر لاکھوں ڈالر خرچ
کر رہے ہیں،تاکہ اپنا مقدمہ بہتر طریقے سے پیش کر سکیں۔ واشنگٹن میں دوحہ
مخالف اشتہار CNNپر تواتر کے ساتھ چلائے جا رہے ہیں ۔ اسی طرح نیو یارک میں
بھی گزشتہ ہفتے ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران بڑی بڑی عمارتوں
پر اس طرح کا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا،لندن دریائے ٹیمز کے کنارے واقع انٹر
کانٹی نینٹل ہوٹل میں ایک کانفرنس جس کاعنوان تھاQatar Global Security and
Stability Conference میں مدعوتھا۔ یہ قطر مخالف لوگوں کا ایک اجتماع تھا۔
جس کے پس پردہ بنیادی طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تھے،لیکن
اہتمام ایسا تھا کہ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا۔ کسی بڑی طاقت نے اس کانفرنس
کے لیے مالی وسائل فراہم کیے تھے۔ کانفرنس کی سیکورٹی کافی سخت تھی اور
کوئی قطر حمایتی مظاہرین نظر نہیں آئے۔ پروگرام بہت نمود نمائش سے کیا گیا
تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تمام شرکا کوایک انچ موٹا
کاغذات کا پلندہ دیا گیا،جس میں موضوع پر بریفنگ دی گئی تھی۔
حزبِ اختلاف کے خود ساختہ رہنما ۲۹ سالہ قطری تاجر خالدمیزبان تھے،جن کو
قطر سے جلاوطن کیاجاچکا ہے۔ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے تمام لوگوں سے ہاتھ
ملا رہے تھے اوراخوان کے خلاف باتیں ان کی زبان پر تھیں، یاد رہے کہ اخوان
کے ارکان کو قطر نے پناہ دی تھی۔ حالانکہ وہ کافی سرگرم شخصیت ہیں اور
انھیں مزید نمایاں کرنے کے لیے دو مسلح گارڈز بھی فراہم کیے گئے تھے، لیکن
پھر بھی وہ اس کردار کے لیے بالکل غیر موزوں لگ رہے تھے(اکنامسٹ نے ان کے
بارے میں لکھا ہے ان کی تعمیراتی کمپنی پرایمنسٹی انٹر نیشنل نے الزام عائد
کیا تھا کہ اس کمپنی نے مزدوروں کو معاوضہ ادا نہیں کیا تھا، لیکن یہ اس
الزام کومسترد کرتے ہیں)۔ وہاں ایک اورصاحب بھی نظرآئے جو’’مہمان‘‘ کا بیج
لگائے ہوئے تھے، ان کا نام علی تھا۔ یہ اپنا تعارف حزب اختلاف کے نائب
رہنما کے طورپرکروارہے تھے۔ ان کاکہناتھاکہ وہ قطرکی خفیہ ایجنسی میں رہے
ہیں لیکن وہ کہیں سے بھی ایسے لگ نہیں رہے تھے۔
اس کے علاو ہ کچھ برطانیہ کے سیاسی لوگ بھی نظر آئے، جن کے قطر کے حوالے
سے مفادات کا آج سے پہلے تک مجھے علم نہیں تھا۔ کچھ امریکی اور ایک
اسرائیلی بھی اس پروگرام میں شرکت کیلئےخصوصی طور پر آئے تھے، حالانکہ ان
کوصرف تین دن پہلے دعوت نامہ موصول ہواتھا۔ ان شخصیات میں پینٹاگون کے سابق
ترجمان، اقوام متحدہ میں امریکا کے سابق سفیر اورریٹائرڈ ایئرفورس جنرل بھی
موجود تھے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سابق ترجمان اس پروگرام کی میزبانی کے فرائض
سر انجام دے رہے تھے۔ بی بی سی کے ترجمان نے الجزیرہ کے سابق صحافی محمد
فہمی سے انٹرویو لیا، یہ صحافی مصر کی جیل میں رہ چکے ہیں اوراس کاذمہ
دارقطرکوٹھہراتے ہیں اورتوقع کے عین مطابق یہ انٹرویومکمل طورپریکطرفہ تھا۔
مثال کے طورپر محمد فہمی جب قطرکوالجزیرہ میں سیاسی مداخلت پر تنقید کا
نشانہ بنا رہے تھے،اس وقت پروگرام کے میزبان نے یہ پوچھنے سے گریزکیاکہ
باقی عرب ممالک میں کیاایسا نہیں ہوتا۔ اس ساری کانفرنس کامقصد قطرکے خلاف
کوئی سیاسی اقدام کرنانہیں تھابلکہ ایسالگ رہا تھاکہ قطرکے خلاف ایک
فضابنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میں نے کانفرنس کے میزبانوں میں سے کسی ایک
سے پوچھا کہ ’’شیخ عبداللہ بن علی الثانی یہاں موجود کیوں نہیں ہیں؟"(یہ
شاہی خاندان کے فرد ہیں اور سعودی عرب نے متبادل امیر قطر کے طورپران کوپیش
کیاہے اوران کی شناخت بنائی ہے)۔ اس میزبان نے مجھے حیرت سے دیکھتے ہوئے
کہاکہ’’یہ کچھ زیادہ ہی جارحانہ اقدام ہو جاتا‘‘۔
اس کے ٹھیک دودن بعدہی بحرین کے دارالحکومت مانامہ میں ہونے والی ایک معاشی
کانفرنس کے دوران بھی قطر کابحران ہی موضوع بحث بنا رہا (بحرین خلیج کاوہ
جزیرہ ہے جہاں سے کھڑے ہوکر اگر گردوغباراوردھندنہ ہوتوقطرنظرآتا ہے)۔ اب
قطر کی حمایت میں کوئی بھی معلومات یا خبر چھاپنا غیر قانونی ہے۔ اس دن
کے’’گلف ڈیلی نیوز‘‘(جو اپنے آپ کو بحرین کا ترجمان سمجھتا ہے) کے شروع کے
تین صفحات پرقطرکے خلاف خبریں لگی ہوئی تھیں۔ طعام کے دوران شاہی خاندان کے
ایک اہم فردنے بڑے اعتماد سے اس بات کااظہارکیاکہ اس دباؤ کے نتیجے میں
قطربہت جلدگھٹنے ٹیک دے گا۔اس کوخود اعتمادی سے دیاگیا بیان توکہہ سکتے ہیں
لیکن یہ حقائق پرمبنی بات نہیں۔ اس بیان اورحقیقت میں فرق مجھے اس وقت واضح
ہواجب میں گلف ائیر کی پرواز سے مانامہ سے دبئی روانہ ہوا۔جہاز کی نشست کی
پشت پرموجودخودکارنقشہ یہ ظاہرکررہاتھاکہ پروازقطر کے شمال سے گزررہی
ہے۔بحرین نے قطر ایئر ویزکواپنی فضائی حدوداستعمال کرنے پرپابندی لگادی تھی
لیکن اس نے پابندی کے فوراًبعدہی اپنے آپ کواس پابندی کے نقصان سے بچانے
کیلئے نئے راستے بنالیے تھے۔ اسی طرح تعلقات کشیدہ ہونے کے باوجود دبئی میں
ایئرکنڈیشن پہلے کی طرح چل رہے ہیں کیوں کہ قطر سے اب بھی قدرتی گیس کی
فراہمی جاری ہے۔
ٹرمپ کے سعودیہ کے کاروباری دورے کے بعد شروع ہونے والے اس بحران کے وقت
اورشدت پرجب میں نے خلیج کے ماہرین کی آراء لی تو ان کی متفقہ رائے تھی
کہ’’یہ سب کچھ ہوناہی تھا‘‘اور دونوں فریق بہت عرصے سے اس سارے عمل کے لیے
تیار تھے۔ امریکی اہلکار نے نا م ظاہرنہ کرنے کی شرط پرواشنگٹن پوسٹ کو
بتایا کہ ’’متحدہ عرب امارات کو یہ بات ہفتوں پہلے پتا چل چکی تھی کہ ایران
کی حمایت میں جعلی خبر چلانے کیلئے قطرنیوزایجنسی کی ویب کو کیسے ہیک کیا
جائے گا‘‘۔
بحران کے خاتمے کے امکان کا اندازہ فریقین کی جانب سے اپنے آپ کوپہنچائے
جانے والے معاشی نقصان سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ دوحہ کو ۲۰۲۲ء کے فٹبال
ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے ابھی بہت سا کام کر نا ہے۔ تعمیراتی ساما ن کی
درآمدات تومتاثرہوئی ہیں لیکن غذائی اجناس اور ضرورت کی دوسری اشیا کی
ترسیل بذریعہ ایران،کویت اور عمان جاری ہے۔ بحرین کی معیشت مشکلات کا شکار
ہے لیکن اس مشکل کو کم کرنے کے لیے سعودی عرب امداد دے گا۔ متحدہ عرب
امارات کے دوسرے بڑے شہر دبئی کو ۲۰۲۰ء کی عالمی نمائش کی میزبانی کرنی ہے۔
وہاں کے حکمران شیخ محمد بن راشد آل مکتوم کاخیال ہے کہ قطرکابحران’’برانڈ
دبئی‘‘کو نقصان پہنچائے گا،اس برانڈ کویہ عنوان دیتے وقت یہ حکمت عملی
اپنائی گئی تھی کہ دنیابھر سے آنے والے غیر ملکیوں کواس پرامن،تفریح سے
بھرپوراس شہرمیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ سعودی عرب، جو قطر کیلئے
واحدزمینی راستے کے طورپراستعمال ہوتا تھا، اس وقت اپنی سرحدوں
کوبندکرچکاہے۔ اس اقدام سے سعودی تاجربھی پریشان ہیں لیکن وہ خاموشی اختیار
کیے ہوئے ہیں۔
سارا معاملہ اس پرمنحصرہے کہ محمدبن سلمان،محمد بن زیداورامیر تمیم،ان سب
میں کون سااہم کھلاڑی پہلے ہمت ہارتاہے۔ ۳۲ سالہ محمد بن سلمان اپنی
پالیسیوں کے حوالے سے انتہا درجے کے پُراعتماد ہیں لیکن وہ اپنی بادشاہت کو
خطرے میں ڈالنا نہیں چاہتے، جس کو وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ ۵۶ سالہ
محمد بن زید جوکہ پختہ عمرکے ہیں اوریکسو بھی لیکن ایسامحسوس ہوتاہے کہ ان
پردبئی کے امیرمحمد بن راشد کابہت زیادہ دباؤ ہے(سعودی عرب کے امیراور بڑے
ملک ہونے کے باوجوداس معاملے میں محمد بن زید کا کردارزیادہ اہم سمجھاجا
رہاہے)۔ ۳۷ سالہ امیرتمیم بھی ابھی جوان ہیں،لیکن وہ اپنے والدکے اثرورسوخ
سے نکلناچاہتے ہیں۔اگروہ اپنے والدکوزیادہ سے زیادہ وقت اپنے ذاتی یونانی
جزیرے پر اپنی شاہانہ کشتی میں صرف کرنے پر رضا مند کرلیں توان کوآزادانہ
طریقے سے کام کرنے کا موقع مل سکے گا۔
(خلیج کے ایک تجزیہ نگارکے مطابق اس سارے بحران میں ایک اہم عنصر،جو کہ اس
بحران کے حل میں ایک رکاوٹ ہے، ان تینوں اہم شخصیات کی مائیں بھی ہیں۔ جن
کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ تینوں خواتین اس بارے میں سخت موقف رکھتی ہیں
کہ ان کے بچے قومی حمیت پر کوئی سودے بازی نہ کریں اوراپنے شوہروں کی میراث
کی حفاظت کریں)۔
دوسری طرف امریکا کی جانب سے ریاض کی حمایت کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ کو بڑے
پیمانے پرتنقید کانشانہ بنایاجارہا ہےجیسا کہ یمن میں ہیضے کی وبا اورقحط
سالی کی صورت حال کی ذمہ داری امریکاپربھی ڈالی جارہی ہے۔اگرچہ ایران
کاخطرہ امریکا کیلئے اس سے کئی گنابڑاہے لیکن پھربھی امریکااس بحران سے صرف
نظر نہیں کرسکتا۔ (سعودی اوراماراتی اس بات کے دعویدارہیں کہ قطر کے ایران
کااتحادی بن جانے کے امکانات بہت کم ہیں)۔ درحقیقت واشنگٹن اوردیگریورپی
دارالحکومتوں میں اس سارے معاملے کوبچوں کے جھگڑے کے طورپردیکھاجارہاہے
اوراس معاملے میں سفارت کاری کاعمل بھی رکاہوا ہے۔ لگتا ہے کہ کچھ عرصہ میں
ہونے والاخلیج تعاون کونسل کااجلاس،جہاں تمام خلیجی رہنماایک ساتھ نظرآئیں
گے،بھی فریقین کومجبورنہیں کررہا کہ وہ اس سے پہلے اس بحران کو حل کر لیں۔
اب تک اس بحران سے سب سے زیادہ فائدہ لابنگ کرنے والی کمپنیوں نے اٹھایا
ہے۔ ان کمپنیوں نے حزب اختلاف کیلئے ویب گاہیں بنا کر،ایک دوسرے کے خلاف
اشتہاربناکراورمختلف قسم کی کانفرنس اوراجلاس منعقدکرواکرخوب پیسہ کمایاہے۔
محمدبن سلمان اورمحمدبن زیدکاخیال ہے کے وہ ایک بڑاکھیل کھیل رہے ہیں اوروہ
امیرتمیم کوبہت سے مطالبات ماننے پرمجبورکردیں گے،ان میں وہ مطالبات بھی
شامل ہوں گے جوان کیلئےناپسندیدہ ہوں گے اوران کے مشیران کاکہناہے کہ وہ اس
بحران کے سودمنداختتام کے حوالے سے پرامید ہیں،چاہے وہ اس سال ہو یا۲۰۱۸ءکے
اختتام پر۔ |