آزاد کشمیر میں سیاسی جماعتیں اور غرض و غائیت

آزاد کشمیر حکومت کی ایک فہرست کے مطابق آزاد کشمیر میں سیاسی جماعتوں کی تعداد37ہے ۔ان میں پارلیمانی ،غیر پارلیمانی اور فرقہ وارانہ جماعتوں کے علاوہ غیرمعروف ، غیر فعال سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کو کئی سیاسی جماعتوں کی '' ماں'' کہا جاتا ہے کہ کئی سیاسی جماعتیں،جن میں لبریشن لیگ،آزاد مسلم کانفرنس ،جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) وغیرہ مسلم کانفرنس سے وابستہ افراد نے جماعت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے الگ سیاسی جماعتیں قائم کیں۔آزاد کشمیر کے سینئر ترین بزرگ سیاستدان سردار سکندر حیات خان نے نوے کی دہائی میں آزاد کشمیر کے صدر کی حیثیت سے ایوان صدر مظفر آباد میں تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو دعوت دی۔اس موقع پر سردار سیاب خالد نے کہا کہ آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں مسلم کانفرنس کے وجود سے ہی قائم ہوئی ہیں،یوں مسلم کانفرنس تمام سیاسی جماعتوں کی '' ماں'' ہے۔اس پر الحاج ثنا اللہ قادری نے ہنستے ہوئے کہا کہ مسلم کانفرنس چھوڑنے والوں نے اپنی '' ماں '' سے بے وفائی کی ہے،انہیں چاہئے کہ وہ واپس اپنی '' ماں'' کے پاس آ جائیں۔ اس پر سب خاموش رہے لیکن راجہ ممتاز حسین راٹھور نے برجستہ کہا کہ '' جب ماں خراب ہو جائے تو بچوں کو اسے چھوڑنا ہی پڑتا ہے''۔اس پر بلند ہونے والا قہقہ اجتماعی تھا۔

24اکتوبر1947کو مسلم کانفرنس نے ہی آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر قائم کی جسے 1949میں معاہدہ کراچی کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت میں تبدیل کر دیا گیا اوراس کے ساتھ ہی مسلم کانفرنس میں گروپوں کی سیاست شروع ہو گئی۔ایک گروپ چودھری غلام عباس اور دوسرا سردار محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں چلتا رہا۔1959میں مسلم کانفرنس کی طرف سے کے ایچ خورشید کو آزاد کشمیر کے صدر کے لئے نامزد کیا گیا۔بعد میں کے ایچ خورشید نے لبریشن لیگ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کر لی۔سقوط ڈھاکہ کے بعد مسلم کانفرنس کے ایک سینئر رہنما مولانا عبدالباری نے آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی قائم کی تاہم اس کی حیثیت پاکستان جماعت اسلامی سے الگ جماعت کے طور پر قائم ہوئی۔بیرسٹر سلطان محمود چودھری کے والد چودھری نور حسین نے مسلم کانفرنس سے الگ ہو کر آزاد مسلم کانفرنس کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی ۔ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی وزارت عظمی کے دوران آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی شاخ قائم کی ۔یوں پیپلز پارٹی پاکستان کی وہ پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے آزاد کشمیر میں اپنی شاخ قائم کی ۔جنرل ضیا کے مارشل لا کے دور میں آزاد کشمیر میں صدر بننے والے بریگیڈیئر محمد حیات خان نے بعد میں تحریک عمل کے نام سے سیاسی جماعت بنائی جو ان کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں سردار محمد ابراہیم خان اور سردار خالد ابراہیم نے پاکستان پیپلز پارٹی سے الگ ہو کر آزاد جموں و کشمیر پیپلز پارٹی قائم کی۔ایک عشرے سے زائد عرصہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) بھی آزاد کشمیر میں قائم رہی تاہم اب اس کے وجود کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ رواں صدی کے پہلے عشرے مسلم کانفرنس میں کئی بار کی طرح ایک بار پھر مخالف گروپ قائم ہوا ۔اور اس کے کچھ ہی عرصہ بعد آزاد کشمیر میں پاکستان مسلم لیگ(ن)کی شاخ قائم کر دی گئی۔اسی دورا ن بیرسٹر سلطان محمود چودھری کی صدارت میں پاکستان تحریک انصاف کی آزاد کشمیر شاخ بھی قائم ہوئی ۔

تمام ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ انقلابی حکومت مسلم کانفرنس کے رہنمائوں پر مشتمل تھی۔جنگ کشمیر بند ہوتے ہی حکومت پاکستان اورآزادریاست جموں و کشمیر حکومت کے درمیان طے پائے معاہدہ کراچی کے ذریعے آزاد حکومت کی تحریک آزادی کشمیر کی نمائندہ انقلابی حکومت کی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے مقامی علاقائی حکومت میں تبدیل کر دیا،تاہم تحریک آزادی کشمیر سے متعلق سیاسی کردار تسلیم کیا گیا۔اس کے بعد آزاد کشمیر میں گروپوں کی سیاست کا دور شروع ہوگیا۔ آزاد کشمیر کے اہم امور میں وزارت امور کشمیر کی حاکمیت مزید مضبوط ہوئی۔وزارت امور کشمیر جسے چاہتی اسے آزاد کشمیر کا حکمران بنادیا جاتا ۔مسلم کانفرنس کو آزاد کشمیر کی سیاست میں کلیدی کردار حاصل تھا لیکن آزاد کشمیر حکومت کا کردار محدود کرنے کے بعد گروپنگ کی وجہ سے مسلم کانفرنس اپنی حیثیت اور اسی بنیاد پر اپنے مقام اور اختیار سے محروم ہوتی چلی گئی۔سقوط ڈھاکہ کے بعد 'فیڈرل سیکورٹی فورس(ایف ایس ایف)کے ذریعے مسلم کانفرنس کی حکومت ناجائز طور پر زبردستی ختم کی گئی۔ پاکستان کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی شاخ قائم کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی قائم کی گئی جو جنرل ضیا مارشل لائ(1977)کے بعد ختم کی گئی۔نئی سیاسی جماعتیں بننے سے مسلم کانفرنس کا کردار محدود ہوا ،تاہم تحریک سے متعلق سیاسی عزم کی وجہ سے مسلم کانفرنس کو پھر بھی باقی سیاسی جماعتوں کے مقابلے کلیدی حیثیت حاصل رہی۔کے ایچ خورشید نے لبریشن لیگ اس بنیاد اور مطالبے کے ساتھ قائم کی کہ آزاد کشمیر حکومت کو تحریک آزادی کشمیر کی نمائندہ حکومت کا کردار عطا کیا جائے ۔جبکہ مسلم کانفرنس اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کئے جانے کے موقف پر قائم تھی۔واضح رہے کہ مسلم کانفرنس کی قرار داد الحاق پاکستان میں پاکستان کے ساتھ بطور ریاست،خصوصی حیثیت میں الحاق کی بات کی گئی ہے جس میں دفاع،خارجہ پالیسی،مواصلات وغیرہ کے علاوہ ریاست اپنے معاملات میں مکمل با اختیار ہو گی۔

ایک عرصے کے بعد 1985سے مسلم کانفرنس میں ایک بار پھر گروپ بندی شروع ہو گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔1985سے1996 تک مسلم کانفرنس کی حکومت رہی اور1996میں پیپلز پارٹی کی ؟حکومت قائم ہوئی۔2001کے الیکشن میں مسلم کانفرنس کی حکومت قائم ہوئی اور2006کے الیکشن میں بھی مسلم کانفرنس حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔2001کے الیکشن کے بعد گروپ بندی تیز ہوئی لیکن معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا گیا،تاہم گروپ بندی میں شدت آتی گئی۔اسی گروپ بندی کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ2006کے الیکشن سے پہلے ہی مسلم کانفرنس کی قیادت نے پاکستان میں صدر مشرف کی سرپرستی میں قائم مسلم لیگ(ق)کی آشیر باد حاصل کرتے ہوئے الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔اسی حکومت کے دور میں پہلے مسلم کانفرنس میں الگ گروپ قائم ہوا ۔اس کے کچھ ہی عرصہ بعد بہت بڑی تعداد، اکثریت نے مسلم کانفرنس کو خیر آباد کہہ دیا اور پھر آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کی شاخ قائم کر دی گئی۔شاخ ہونے کے باوجود مسلم لیگ(ن)آزاد کشمیر کی اپنی حیثیت ہونے کا دعوی بھی کیا جاتا ہے۔2011کے الیکشن میں کامیاب ہو کر پیپلز پارٹی نے پانچ سال حکومت کی اور2016کے الیکشن میں کامیابی سے مسلم لیگ(ن)کی حکومت بن گئی۔پاکستان میں مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔آزاد کشمیر میں ان دونوں جماعتوں کی موجودگی کی وجہ سے آزاد کشمیر پر پاکستان کی سیاست کے اثر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور آزادکشمیر کی سیاست انہی دونوں سیاسی جماعتوں کے گرد گھوم رہی ہے۔

آزاد کشمیر میں سیاسی گروپ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، نقصان پہنچانے پر یقین رکھتے ہیں اور مخالفت سیاسی جماعت کی ہی نہیں بلکہ اپنی پارٹی کے افراد کے ساتھ مخاصمت اور عناد کو پالنے،پروان چڑہانے کی مشق پر عمل کرتے چلے آتے ہیں۔دیکھا جائے تو آزاد کشمیر کے سیاست دان ایک دوسرے کی مخالفت اور اور اپنا حصہ نہ ملنے پر الگ گروپ،الگ پارٹی میں تبدیل ہوتے ہیں۔جب آزاد کشمیر میں سیاست دانوں کو اپنی کمزور پوزیشن کا احساس ہوتا ہے تو پاکستان میں موجود بڑی پارٹی کا سہار ا لیتے ہوئے آزاد کشمیر میں اپنی سیاسی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔آزاد کشمیر کی بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر بھی مختلف حوالوں سے کشمکش ،عدم اتفاق کی صورتحال نظر آتی ہے اور کئی ایک اس حوالے سے مناسب موقع کی تلاش میں معلوم ہوتے ہیں۔پیپلز پارٹی نے اپنی آزاد کشمیر شاخ کے عہدیداران میں تبدیلی کی ہے اورتنظیم نو کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنی سرگرمیاں تیز کی ہیں ۔پاکستان میں ڈرامائی طور پر تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال آزاد کشمیر پربھی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو عہدے سے ہٹانے کے ساتھ ہی آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے رابطے کی اطلاعات بھی گردش میں آنے لگیں۔پاکستان میں آئندہ سال کے جنرل الیکشن کی صورتحال میں آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی فکر ہونا لازمی امر ہے۔پاکستان میں جاری اختیار حکمرانی کی سیاسی کشمکش کی صورتحال سینٹ الیکشن سے واضح ہو جائے گی کہ صورتحال کس کے حق میں ہموار ہوتی ہے۔آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی پر مختلف حوالوں سے کئی الزامات لگائے گئے تاہم عمومی طور پر کارکن اپنی پارٹی سے ناراض نہیں ہیں۔دوسری طرف حکمران مسلم لیگ(ن)کی صورتحال اس کے برعکس ہے۔گڈ گوریننس اور میرٹ کے حوالے سے مسلم لیگی حکومت کے چند کام نمایاں ہیں تاہم کشمیر کاز اور سیاسی حوالے سے مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر سے وابستہ توقعات کو پورا کرنے میں ابھی تک کوئی پیش رفت نظر نہیں آ سکی ہے۔

کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے کردار کو قابل تعریف نہیں کہا جا سکتا۔آزاد کشمیر میں کشمیر کاز کے نام پر تمام سیاسی جماعتوں وغیرہ کی کل جماعتی رابطہ کونسل تو قائم کی گئی ہے لیکن اب تک اس کی حیثیت تاش کے جوکر کے پتے سے بڑھ کر نہیں ہے۔آزاد کشمیر کے آئین میں ترامیم کا معاملہ بدستور پائپ لائین میں اور غیر یقینی کا شکار ہے۔انہی دنوں وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ سب مل کر آزاد کشمیر حکومت کو کشمیر کاز کے حوالے سے کردار دیئے جانے سے متعلق مشاورت کریں۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم میں کشمیر کاز سے متعلق آزاد کشمیر حکومت کے کردار سے متعلق کوئی تجویز شامل نہیں ہے۔

آزاد کشمیر کی سیاست میں ارتعاش نظر آ رہا ہے۔اس ہلچل سے سیاسی لہریں تیز ہو سکتی ہیں،یہ لہریں کس کی کشتی پار لگائیں گی اور کس کی کشتی کو بھنور نصیب ہو گا،اس کا فیصلہ آزاد کشمیر کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی پاکستانی قیادت کے سیاسی مستقبل کے فیصلے،آزاد کشمیر میں پارٹی کو چلانے کے انداز اور آزاد کشمیر کے رہنمائوں کے طرز برتائو کی بنیاد پر ہی ہو سکے گا۔آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے اغراض و مقاصد کیا تھے اور اب کیا ہو گئے ہیں۔ اس وقت آزاد کشمیر کی کسی سیاسی جماعت کے پاس کشمیر کاز کے حوالے سے کوئی تجویز ،لائحہ عمل نہیں ہے اور یوں آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں اپنے بلند و بانگ دعووں ،بیانات کے برعکس مسئلہ کشمیر پر '' سٹیٹس کو'' کی حامی نظر آ رہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا آزاد کشمیر کی بڑی سیاسی جماعتیں آزاد کشمیر کی بنیادی حیثیت کو مکمل طور پر فراموش کر چکی ہیں اور کیا کشمیر کاز سے اپنے سیاسی،سماجی ا ور اخلاقی تعلق کو بھی بھلا دیا گیا ہے؟ کشمیر کاز تو ایک طرف مقامی مسائل و امور سے متعلق عوامی تشویش میں بھی کمی نظر نہیں آتی۔آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی غرض و غائیت کیا ہے اور کیا ہونی چاہئے،اس بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے آزاد حکومت کے قیام،کردار اور آزاد کشمیر کی تاریخ کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 612517 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More