معیشت کی زبوں حالی کے قصے زبان زد عام ہیں بیرونی ممالک
کے سرمایہ کار پاکستان میں انویسٹمنٹ کرنے سے کتراتے ہیں کہ یہاں کا سرمایہ
کار اور صنعتکار خود ملک سے بھاگ رہا ہے اندرون ملک قطعاً کوئی تحفظ نہ ہے
اندرون سندھ کی درجن سے زائد شوگرملیں زرداری نے قبضہ کرلیں اور انہیں کوئی
پوچھ تک بھی نہ سکا غنڈہ گردی دھونس سے ایسی بڑی ڈکیتیوں کی مثالیں روئے
زمین پر کم ہی ملتی ہیں۔ کراچی جو کہ پاکستان کا معاشی حب ہے اور انشاء اﷲ
رہے گا ایسی دگرگوں حالت کبھی نہ دیکھی تھی بھتہ مافیا نے کراچی میں مقیم
صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کاناک میں دم کر رکھا ہے۔ گو ہر ایوب نے ایوب
خان کے صدارتی انتخاب کو دھاندلیوں سے جیتنے اور قائد اعظم کی بہن محترمہ
فاطمہ جناح کوہرانے کے بعد کراچی میں فتح کا جلوس نکالا مگر درا صل چونکہ
مہاجروں کو سبق سکھانا چاہتے تھے جنہوں نے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ
جناح کو ایوب خان سے زائد ووٹ دیکر کراچی میں فتح سے ہمکنار کیا تھا گوہر
ایوب نے پٹھانوں کے جلوس کے بعد مہاجروں کا ایساقتل عام کیا کہ خون کی
ندیاں بہا ڈالیں ۔اس روز سے ہی انہوں نے وہاں لسانیت اور برادری ازم کا
غلیظ ترین بیج ایسا بویا کہ اب وہ پورا زہریلا درخت بن چکا ہے۔پھر الطاف
حسین نے طالب علمی کے دور سے ہی مہاجر ازم کا ایسا پروپیگنڈا کیا کہ جب اس
نے جلسۂ عام کا اعلان کیا تو عمران خان کے مینار پاکستان پر چند سال قبل
مخصوص جلسہ کی طرح مہاجر قوم امڈ کر آئی گوہر ایوب کے حملہ کے بعد اس کی
شدید مذمت کی جاتی ،تمام حزب اختلاف اس واقعہ کے بعد تمام برادریوں کے
اتحاد کی کوششیں کرتی مگر ایسا نہ ہونے کی وجہ سے کراچی میں پٹھان پنجابی
سندھی اور مہاجروں کے درمیان کدورتیں جنم لیتی چلی گئیں بھٹو دور میں بھی
اس کے کزن ممتاز علی بھٹو جو کہ وزیر اعلیٰ سندھ تھے نے پنجابیوں کا قتل
عام کروایااور انہیں اپنی زمینیں جائدادیں اونے پونے داموں بیچ کر وہاں سے
بھاگنے پر مجبورہونا پڑاکسی نے نوٹس نہ لیا اب وہ پی ٹی آئی کے ہوچکے ہیں
اب کسی غلطی سے خدانخواستہ انہیں کوئی ایسا عہدہ مل گیا کہ وہ اپنی من مرضی
کرسکیں تو پھر وہ کیا رعایت کریں گے؟دوسری طرف پوری مل کو اس لیے کراچی کے
غنڈہ عناصراور بھتہ خور مافیا نے جلا کر خاکستر کر ڈالا جس میں 250سے زائد
افراد بھی بھسم ہوگئے کہ وہ کروڑوں روپیہ "چندہ "دینے سے انکاری تھے اب
ایسے دہشت گرد عناصر کی گردنوں تک افواج کی کوششوں سے ہاتھ پہنچ چکا ہے تو
اب اتحاد کی باتیں ہورہی ہیں۔
کراچی میں سرمایہ کاری کرنے اور بیرونی انویسٹرز کو لانے کے لیے ضروری ہے
کہ اس لسانیت زدہ کراچی کو تمام گروہوں کے اتحاد کی طرف لانے کے لیے بھرپور
کوششیں کی جائیں ویسے اصل حل تو یہ ہے کہ عمران خان کی طرف سے بیرونی
امریکن اسلحہ کے کنٹینروں کو کئی ماہ تک روکے رکھنے کے دوران 600کنٹینر
وہاں سے"اغواء"کر لیے گئے اور اربوں کا جدید اسلحہ مسلح دہشت گردوں نے زیر
زمین دبا ڈالاجس سے اب کراچی آتش فشاں بنا ہو ا ہے الطاف کی طرف سے پاکستان
مردہ باد اور امریکہ اسرائیل اور بھارت کی امداد سے پاکستان کو توڑنے کے
نعروں کے بعد افواج کو کسی کی رو رعایت کیے بغیر غیر ملکی جدید اسلحہ سے
مسلح دستوں اور غنڈہ عناصر کی مکمل بیخ کنی کر ڈالنی چاہیے تھی سیاست جو
بھی روپ دھارے جس طبقہ لسانی گروہ کی تعداد کراچی میں زیادہ ہے اسی نے
اکثریت سے جیتنا ہے اور اس کو کوئی ریورس گئیر لگا ہی نہیں سکتا۔اب افواج
پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے کہ چھ سو کنٹنیرز سے لوٹے ہوئے اسلحہ کی
گراؤنڈز ، گھر کے دالانوں اور مخصوص جگہوں سے مکمل برآمدگی کی جائے اور
دہشت گرد بھتہ خور مافیا کے ایسے افراد مخصوصہ کو ایسی سزائیں دی جائیں کہ
وہ دوبارہ انتشار پھیلانے سے باز رہ سکیں اگر ملک میں شتر بے مہار سیاست کی
اجازت فرقہ واریت لسانیت اور مخصوص برادری ازم کی بنیاد پر جاری رہی تو
لازمی امر ہے کہ اس کا نتیجہ خطرناک ہی برآمد ہوگا خدانخواستہ کراچی پر
مذموم ٹولہ کا قبضہ ہوگیاتو پرانی ایجنسیوں کی رپورٹ جناح پور کہ نقشے
برآمد کیے گئے تھے وہ بالکل سچ ثابت ہوجائیں گی اور بنگلہ دیش کی طرح ملک
کے مزید حصے بخرے کرنے سے پھر کوئی نہ روک سکے گا۔مخلوط طرز انتخابات کے
موضوع پر مرحوم سید مودودی نے1970کے عام انتخابات سے قبل ہی فرما دیا تھا
کہ اگر ایک بھی عام انتخاب مخلوط بنیادوں پر کروایا گیا تو مجھے خدشہ ہے کہ
خدانخواستہ خدانخواستہ ملک دشمن عناصر اسے توڑنے میں کامیاب ہوجائیں
گے۔1970کے انتخابات اس کا واضح ثبوت تھے کہ مشرقی پاکستان کی168قومی نشستوں
میں سے167نشستیں مجیب الرحمٰن نے وہاں لسانی نعرے لگا کر جیت لیں اور ہندو
جو کہ ہر حلقہ میں 16تا43فیصد تک موجود تھے نے مکمل ووٹ مجیب کو دیے کہ اس
کے چھ نکاتی پروگرام پر ملک دو لخت ہوسکتا تھاانتخابات کے بعد اسے حکمران
مانے بغیر چارا نہ تھا مگر یحییٰ نے مغربی پاکستانی لیڈر سے ساز باز کرکے
کہ وہ صدر کے طور پر بدستور قائم رہے بنگالیوں کو دھکا دے ڈالا۔
کراچی ہمیں 60فیصد ریوینیو دیتا ہے اس کی حفاظت در اصل پاکستان کی حفاظت ہے
یہاں سے لسانی بتوں کو حکمت کے ذریعے پاش پاش کیا جائے تاکہ وہاں بیرونی
انویسٹر رقوم لائیں اور معیشت کا پہیہ گردش کرتا رہے اور ہمارے ملکی
صنعتکار بھی امن و سکون میں کام کرسکیں یہ کام صرف اور صرف افواج پاکستان
ہی کرسکتی ہیں۔سیاستدانوں کی مصلحت کوشیاں انہیں صرف ایسے امیدواروں
کوپارٹی میں داخل کرنے کی طرف رواں دواں رہتی ہیں جو مخصوص لسانیت زدہ
نعروں سے خاص علاقہ میں مضبوط سیاسی ساکھ رکھتے ہوں اس طرح ان کا نامزد
کردہ ممبر منتخب ہو سکے اس لیے کوئی چاہے کہ موجودہ دور کے جغادری سیاستدان
برادری ازم کے پیروکار لوگوں کوجیت کے بعد نتھ ڈالیں گے ایسا سوچنا بھی غلط
ہو گا صرف افواج جن پر ملک کے تحفظ کی اصل ذمہ داری ہے وہ اندرونی سازشوں
کو کچلیں سارا ڈمپ شدہ اسلحہ برآمد کریں ،کسی کی رو رعایت نہ کریں تو ہی
ملک میں اتحاد اتفاق پیدا ہو سکے گا اور بیرونی سرمایہ کار خوشی خوشی یہاں
سرمایہ کاریاں کرے گا اور پیارا وطن ترقی کی منزلیں طے کرتا جائے گا۔ |