تحریر: ارم فاطمہ۔۔۔۔ لاہور
زندگی کی گونا گوں مصروفیات میں، گھر کی روزمرہ روٹین میں ، روزگار کے لیے
گھر سے نکلتے اور اس کی مشقت میں شب وروز گزارتے ہوئے کم وبیش ہر انسان یہی
چاہتا ہے کہ اسے کچھ لمحات ایسے میسر آجائیں جن میں وہ ان مسائل سے چھٹکارا
پا کر سکون میں رہے۔ اب پہلے کا دور اور وہ زمانہ نہیں رہا جب آس پاس کے
گھروں میں سب افراد مل کر آپس میں باتیں، دکھ سکھ بانٹا کرتے تھے۔ زندگی
بہت سادہ تھی۔ ریڈیو سنا کرتے تھے اور ایک قومی چینل " PTV " ہوا کرتا تھا
جس پر ہر عمر کے لوگوں کے لئے پروگرام پیش کیے جاتے تھے۔ تب بھی وہ عام
انسانوں کی زندگی پر اس طرح اثرانداز نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کے پاس کسی کے
لئے وقت نہ بچے۔ اب آج کے دور میں جب سائنس کی جدید ایجادات نے ہر انسان کو
اپنے تک محدود کردیا ہے وہیں ہمارا سوشل میڈیا بھی ان کے مزاج کے مطابق
پروگرام پیش کرنے سے قاصر ہے۔ 24 گھنٹے کی مسلسل نشریات میں ہر چینل پر کم
وبیش ایک ہی طرح کے پروگرام پیش کئے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے ایک دوڑ لگی
ہوئی ہے ریٹنگ کے چکر میں بلا سوچے سمجھے ایسے پروگرام پیش کیے جارہے ہیں
جن سے معاشرے کے افراد کے مزاج میں اختلافات بیزاری اور ایک دوسرے سے بحث
ومباحثہ کی فضا پیدا ہوچکی ہے۔
صبح کا آغاز اﷲ رب العزت کے بابرکت نام سے ہونا چاہیے۔ صبح نماز فجر کے وقت
اذان اور تلاوت وترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ جو لوگ سحر خیزی کے عادی ہیں وہ
یقینا اس سے مستفید ہوتے ہوں گے مگر اس کے بعد جب دن بھر کی نشریات پر نظر
ڈالتے ہیں تو کوئی پروگرام بھی دینی بصیرت پر مبنی نظر نہیں آتا۔ کیا دن
بھر میں صرف ایک ہی آذان ہوتی ہے ؟
کیا ایسا کرنا ممکن نہیں کہ ہر آذان کے وقت نشریات میں وقفہ کرکے اس کی
تلاوت اور ترجمہ پیش کیا جائے۔ کچھ نیوز چینل ہیں جو آذان کے وقت اس کے
احترام میں نیوز روک دیتے ہیں۔ مگر یہ اس سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں۔ میڈیا
کے پروگراموں کی ترتیب دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ان کے نزدیک افراد کی
زندگی میں مذہب سے آگاہی ایک اضافی چیز ہے۔ انہیں مزید شعور اور سمجھنے کی
ضرورت نہیں۔ میں یہ سمجھتی ہوں کے مذہب کے حوالے سے اور مخصوص اسلامی
تاریخوں کے حوالے سے جو پروگرام پیش کیے جاتے ہیں ان میں ایسے موضوعات شامل
کیے جانیں چاہئیں جن سے گھر اور معاشرے کے ماحول میں ان میں بسنے والے
افراد میں آپس میں محبت اور اخلاص پیدا ہوسکے اور ان کے رویے بھی اور اطوار
بھی شائستہ ہوسکیں۔
سب سے پہلے ہم بات کرتے ہیں ننھے منے نونہالوں کی جو ایک نسل کے ہاتھوں کے
پروردہ اور ایک نئی نسل کے نمائندہ ہیں۔ ان کے ذہن معصوم ہوتے ہیں۔ ان میں
منافقت نہیں ہوتی۔ اب ان کے حوالے سے میڈیا پر نظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا
ہے اتنے بے شمار چینلز میں شاید ہی کوئی پروگرام ہو جو ان کی عمر اور ذہن
کے حوالے سے ترتیب دیے جاتے ہیں۔ میں کارٹون چینلز کی بات نہیں کر رہی ان
Animated characters سے بچے متاثر ضرور ہوتے ہیں مگر ان سے وہ کچھ سیکھ
نہیں پاتے۔ شاید ہی کوئی ایسا پروگرام ہو جو ان کی ذہنی تربیت میں معاون
ہو۔ میری مراد کوئز پروگرامز اور جدید معلومات پر مبنی پروگرام ہیں جن میں
شرکت سے یا صرف انہیں دیکھ کر اندازہ ہو کہ ہماری یہ ننھی نسل کس قدر
سمجھدار اور ذہانت رکھتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انہیں اپنی ذہانت
دکھانے کا موقع ملے گا اور حوصلہ افزائی الگ ہوگی۔ یاد رہے آج کا دور بہت
چیلینجز لئے ہوئے ہے اور ہمیں اگر آگے بڑھنا ہے تو اس کے معیار کے پروگرام
پیش کرنے ہوں گے۔ اچھے اور معیاری انگلش اور اردو ادبی پروگرام ترتیب دیں
کہ نوعمری تک پہنچنے تک ان کی ذہنی اور جسمانی بنیاد اتنی مضبوط ہو چکی ہو
کہ غیر ملکی سوشل میڈیا ان پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ بنیاد مضبوط ہوگی تو اس
پہ بنی عمارت پائیدار ہوگی۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہماری آج کی نوجوان نسل بہت باشعور اور سمجھدار
ہے اور سب سے بڑھ کر بنیادی بات یہ ہے کہ انہیں معلوم ہے بہتر زندگی گزارنے
کے لئے کیا ٹارگت حاصل کرنا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی سوچ اور نظریات بالکل
واضح ہیں نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ میڈیا پر ایسے کوئی پروگرام
پیش نہیں کیے جارہے جو ان کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکیں اس کا لازمی نتیجہ
یہ ہے کہ وہ ایک کمرے ، ایک لیپ ٹاپ اور ایک سوفٹ ڈرنک تک محدود ہوگئے ہیں۔
فیس بک،ٹیوٹر، انسٹا گرام، linkd in ، گوگل یو ٹیوب ، وٹس ایپ ، viber کی
دنیا اب ان کی دنیا ہے جس میں وہ گھر اور معاشرے کے دیگر افراد سے لاتعلق
ہو چکا ہے۔ یہ سب جدید ایجادات ان کے اخلاق کو تو بگاڑ رہی ہیں ساتھ ہی
انہیں ان کے مستقبل سے بھی کسی حد تک لاپرواہ کررہی ہیں۔
سوشل میڈیا پہ واحد چیز ایک ڈرامہ ہی تھا جسے گھر کے سبھی افراد مل کر
دیکھتے تھے اور آپس میں بات چیت کرتے تھے۔ مگر اب ان کے موضوعات بھی ایسے
ایک محدود دائرے میں گھوم رہے ہیں جن میں اب بات کرنے کے لئے کچھ نہیں۔
مطلب یہ کہ نہ موضوعات میں انفرادیت ہے اور نہ انہیں پیش کرنے کا انداز الگ
ہے۔ شاید ہی کوئی چینل ایسا ہو جو محبت جیسے آفاقی جذبے کو الگ رنگ میں
دکھا رہا ہو یا پھر زندگی کی حقیقی تصویر ان نوجوان نسل کے سامنے لا رہا ہو
یا ان کے اخلاق کو سنوارنے میں معاون ہو۔شاید یہی وجہ ہے اب ایسے ادیبوں کی
بھی خدمات حاصل نہیں جو نوجوان نسل کے لئے لکھ سکیں۔
اس لئے ضروری ہے میڈیا پر ان کے لئے ایسے پروگرام پیش کئے جائیں کہ جن سے
نہ صرف انہیں جدید دور کی معلومات کے حوالے سے معلومات حاصل ہو سکیں انہیں
رہنمائی مل سکے۔ انہیں معلوم ہو کہ عالمی دنیا میں علم اور سائنس ، صحت
،ادب صحافت اور زندگی کے دیگر شعبوں کے حوالے سے کیا پیش رفت ہورہی ہے؟ اگر
وہ کہیں بین الاقوامی فورم پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور اپنے
ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں تو دیگر اقوام متاثر ہو سکیں اور ہم بجا طور پر
ان پر فخر کر سکیں میڈیا کا یہ کردار نہ صرف معاشرے کی بہتری کی جانب ایک
قدم ہوگا بلکہ عالمی افق پر بھی ہماری ساکھ بحال ہوگی شاید اسی طرح تعلیم
میں بھی بہتری کی شکل نظر آسکے۔
میڈیا پہ سب سے زیادہ پروگرام خواتین کے حوالے سے پیش کیے جاتے ہیں جن میں
زیادہ تر تعداد ڈراموں کی ہے جو بغیر تسلسل کے نشر کیے جارہے ہوتے ہیں۔ ان
میں بہت کم ایسے ہوں گے جن میں اصلاح اور بہتری کا عنصرہو۔ زیادہ تر محبت
کے حوالے سے ایسی کہانیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق
نہیں ہوتا سماجی موضوعات پیش کیے جاتے ہیں مگر انداز ایسا ہے جس سے منفی
سوچ پیدا ہوتی ہے مثبت نہیں۔ گھر کیسے بنائے جاتے ہیں، اس کا ماحول اور
بچوں کی تربیت ، رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسے کا خیال رکھنے اور خلوص دکھانے
سے ہے، کیا کوئی ڈرامہ ان کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔؟
ہمارے گھروں اور آفس میں مصروف نظر آتی یہ عورت بھی سکون اور مسرت کے چند
لمحے چاہتی ہے۔ اگر وہ بھی زندگی کی حقیقتوں سے قطع نظر ایسے ڈرامے دیکھے
گی جن میں مصنوعی روشنیاں اور نامکمل خواب دکھائے جائیں گے تو وہ کیسے
زندگی کی مشکلوں کا سامنا کر سکے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے ایسے مثبت ڈرامے
پیش کیے جانے چاہییں جن کے موضوعات ہماری زندگی کی حقیقی تصویر پیش کرتے
ہوں۔ ایک اور بات جو خواتین کے حوالے سے کہنا چاہوں گی کہ وہ یہ ہے کہ
ہماری آبادی کا زیادہ حصہ ان خواتین پر شتمل ہے جو متوسط طبقے سے تعلق
رکھتیں ہیں مگر ہمارا میڈیا اپر کلاس اور الٹرا ماڈرن کلاس کی مصنوعی
تصویریں پیش کرتا نظر آتا ہے۔ جس سے ان خواتین میں احساس کمتری ابھر آتا ہے
اور وہ معاشی طور پر کم ہونے کی بنا پر اپنی زندگی میں خوش اور مطمئن نظر
نہیں آتیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ میڈیا ایسے پروگرام بھی بنائے جن میں ان کے
مسائل پر بھی بات کی جائے جن سے انہیں اندازہ ہو کہ وہ بھی اس سوسائٹی اور
معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔ ان کی اپنی انفرادی شخصیت اور سوچ ہے انہیں معاشرے
میں وہی مقام ملے جو اسلام انہیں دیتا ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی ہمت اور
برداشت میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ ایک توانائی اپنے اندر محسوس کریں گی زندگی
گذارنے کے مضبوط اصول بنائیں گی۔
ڈراموں سے ہٹ کر اگر بات کی جائے تو قومی زبان اردو کے حوالے سے شاید ہی
کوئی ایسا ادبی پروگرام دکھایا جا رہا ہو جن سے کہ ہماری آج کی نسل اپنے ان
ادیب اور شعراء کو جان سکے جنہوں نے ادب کی لازوال خدمت سر انجام دی ہے۔
شاید یہ کوئی نہیں سوچتا کہ ادبی پروگرام کیسے ذہن کو نئی سوچ اور خیالات
کے نئے آسماں سے متعارف کرواتے ہیں جن سے زبان نکھرتی ہے اور اظہار آسان
ہوتا ہے۔ اب ہر کسی کے لئے کتابیں خریدنا آسان نہیں اور ہمارا میڈیا ان
لیجینڈ لوگوں کو نظر انداز کیے کسی اور ہی سمت رواں دواں ہے حالانکہ آج کل
سوشل نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے اگر انہیں مناب کوریج ملے تو ناممکن ہے کہ آج
کی نسل ان سے فائدہ نہ اٹھائے۔
یہ بنیادی تجاویز محض ایک خاکے کے طور پر پیش کی گئیں ہیں۔ ہم نہیں جانتے
کہ میڈیا کے ارباب اختیار لکھنے والوں کی سوچ کا محور کیا ہے ؟وہ کن تقاضوں
کو مدنظر رکھتے ہوئے پروگرام ترتیب دیتے ہیں؟کیا ان کا مقصد صرف معاشرے میں
یا گھروں میں منفی خیالات کا فروغ ہے جس کی مثالیں یہ تمام ڈرامے ہیں۔؟کیا
ان کے نزدیک صرف چینل کی ریٹنگ اہمیت رکھتی ہے جس کے لئے وہ ایسے پروگرام
پیش کرنے کے مجاز ہیں جن کا کوئی مقصد نہ ہو ؟کیا سوشل میڈیا صرف تفریح کا
ذریعہ ہے اس کی کوئی اخلاقی ذمہ داری نہیں ؟کیا اس کا معاشرے اور گھر کی
طرف کچھ فرائض نہیں نکلتے کہ یہ ان کی بہتری میں مرکزی کردار ادا کریں۔؟
حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ہر طبقے، ہر شعبے اورہر عمر کے افراد کی گھر پہنچتے
ہی اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کچھ وقت ٹی وی پروگرامز کے ساتھ گزارا جائے اس
لئے گزارش ہے کہ سوشل میڈیا پر پروگرام ایسے پیش کیے جائیں جن سے روزگار کی
فکر میں مارے ہوئے، ذہنی پریشانیوں میں گھرے عام آدمی زندگی کے چند لمحات
سکون اور خوشی کے احساس کے ساتھ گزار سکے۔
|