یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ جب بھی جمہوری حکومت قائم
ہوتی ہے تو بحرانوں پر بحران دوڑے چلے آتے ہیں کچھ حکمرانوں کی اپنی غلطیاں
اور کچھ احتجاجی مزاج رکھنے والے سیاسی رہنما ماحول کو گرم رکھتے ہیں ۔تاکہ
حکومت چاہے بھی تو کوئی اچھا کام نہ کرسکے ۔ نواز شریف نے حکومت سنبھالی تو
یہ تصور کیاگیاکہ اب پانچ سال تک سکون سے وہ سی پیک اور اقتصادی راہداری
پراجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں گے ۔ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن
دیکھ کر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے جن کو
اندرون خانہ پیپلز پارٹی ٗ ایم کیو ایم سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کی حمایت
حاصل تھی کہ حکومت مارچ اوردھرنوں کو روکنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ یہ
جمہوریت کا حسن ہے لیکن یہی جمہوریت کے اسی حسن نے پورا ملک مفلوج کردیا۔
دنیا بھر میں رسوائی کے ڈھول پیٹے گئے ۔چینی صدر کا اہم ترین دورہ ملتوی
ہوا ۔ کہایہ جاتاہے کہ عمران خان کے پیچھے بھی ملکی اور غیر ملکی طاقتوں کا
ہاتھ تھا جن کی انگلی اٹھنے کے وہ منتظر رہے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری ماڈل
ٹاؤن میں ہونے والے تشدد کو عالمی تنازعہ بنا کر جب چاہتے ہیں طوفان کھڑا
کردیتے ہیں ۔ اشتہاری ملزم ہونے کے باوجود انہیں کوئی گرفتار کرنے کی جرات
نہیں کرتا۔ نواز شریف فیملی کے خلاف عمران خان نے سپریم کورٹ میں پانامہ
کیس کے حوالے سے مقدمہ دائر کیا۔ سپریم کورٹ نے پانامہ کو چھوڑ کر اس کے
باپ دادا کی جائیداد کی چھان بھٹک شروع کردی۔ بالاخر بیٹے کی کمپنی سے
تنخواہ نہ لینے اور ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں نواز شریف کو ہمیشہ کے لیے
نااہل قرار دے دیا۔ وہ شخص جو دنیا بھر میں پاکستان کا مقدمہ نہایت کامیابی
سے لڑ رہا تھا اور پوری دنیا کی سرمایہ کاروں کو پاکستان لا رہا تھا وہ
اپنے ہی مقدمات میں الجھ کررہ گیا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ جب انسان
چاروں طرف سے گھیر جاتا ہے تو غلط فیصلے بھی اسے صحیح نظر آنے لگتے ہیں
یعنی اس کی سوچ یکسر منفی رخ اختیار کرلیتی ہے۔ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والا
نواز شریف نااہلی قبول کرنے کے باوجود غیر اخلاقی طور پر خودکو مسلم لیگ ن
کاصدر بنانے پرتلا ہواہے جو کسی بھی طرح صائب فیصلہ نہیں ہے ۔سیدھی سی بات
ہے جو شخص الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ٗ وہ پارٹی کا سربراہ کیسے ہوسکتاہے
لیکن نواز شریف پارٹی کی صدارت کسی اور کو دینے کو تیارنہیں ہیں یہ کم ظرفی
کی علامت ہے ۔پھر وہ ہر جگہ سپریم کورٹ کے ان ججوں کے خلاف اعلان بغاوت
کرتے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے انکے خلاف فیصلہ دیا تھا ۔ تاریخ اس بات کی
شاہد ہے کہ وہی لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جو عدالتوں کے فیصلوں کو اپنے خلاف
بھی کھلے دل سے قبول کرتے ہیں ۔ اگر طاہر القادری اور عمران خان کی بولتی
پہلے ہی بند کردی جاتی تونواز شریف کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔ انہوں نے
فراخ دالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران اور طاہر القادری کی رسی دراز کیے
رکھی ۔ حکمرانی کے چند اصول ہوتے ہیں اگر مخالفین کو کھلا چھوڑ دیاجائے تو
وہ حکمرانوں کو گھر بھیجنے میں تاخیرنہیں کرتے ۔ یہ پاکستان ہے یہاں سازشوں
کے جال ہر لمحے بنے جاتے ہیں ۔مجھے ڈر ہے اگر نواز شریف نے عدالتوں کے خلاف
باغیانہ گفتگو نہ روکی تو کہیں توہین عدالت کی سزا کے ہی حق دار نہ ہوجائیں۔
اٹھارہ دن سے وفاقی دارلحکومت دھرنے کی وجہ سے بند ہے حکومت عمرانی دھرنوں
کی طرح یہاں بھی منتوں اور ترلوں پر اتر آئی ہے ٗ ہائی کورٹ کے حکم کے
باوجود دو ہزار افراد کا دھرنہ ختم نہیں کرواسکی ۔ چندسال پہلے ایک شخص نے
اپنی بیوی کے ہمراہ اسلام آباد کوبلاک کردیا تھا یہ تو پھر دو ہزار افراد
ہیں ۔ حکومت اس قدر ڈرپوک اور خوفزدہ نہیں ہوتی جس طرح مسلم لیگی حکومت ہے
۔اگر حکومت اور انتظامیہ اسی طرح دھرنوں اور احتجاجی جلسوں سے ڈرتی رہی تو
پھر روزانہ ایسے دھرنے ملک کے دیگر شہروں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں ۔ سیدھی
سی بات ہے کہ دھرنے میں شامل افراد کو مارنے پیٹنے کی بجائے بے ہوش
کرنیوالی گیس کا سپرے اس مقام پر کردیاجائے جہاں دھرنے کے لوگ موجود ہیں۔
بے ہوش لوگوں کو ٹرکوں میں بھرکر جیلوں میں بند کردیا جائے۔ مزید برآں ظفر
الحق رپورٹ کے مطابق ختم نبوت شق میں تبدیلی کا کام 34 رکنی پارلیمانی
کمیٹی کا تھا جو وزیر قانون زاہد حامدنے اسمبلی میں پڑھ کر سنایا ۔اگر عوام
کی جانب سے شدید ردعمل سامنے نہ آتا تو یہ لوگ اپنا کام دکھا چکے تھے ۔
میری نظر میں وزیر قانون سمیت 34 اراکین اسمبلی بھی مجرم قرار پاتے ہیں ۔
اگر حکومت ختم نبوت پر پختہ ایمان رکھتی ہے تو وزیر قانون سمیت ان تمام کی
فوری طور پر اسمبلی کی رکنیت ختم کرکے ان کے خلاف نبی کریم ﷺ کی توہین اور
عوامی جذبات کے خلاف فیصلہ کرنے کی پاداش میں مقدمہ درج کرکے سپریم کورٹ
میں مقدمہ چلایا جائے ۔ اگر ایسانہ کیا گیا تو کل کوئی اور یہ کام کرنے کی
جستجو کرے گا ۔نہ جانے کیوں سویلین حکومتیں نااہل اور عوامی جذبات کااحساس
نہیں کرتیں اور من پسند لوگوں کو بچانے کے لیے غلطیوں پر غلطیاں کرتی چلی
جاتی ہیں ۔ یہ ان کی نااہلی ہے کہ ایک دھرنا ابھی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا
شروع ہوجاتاہے جب تک سختی نہیں کی جائے گی اس وقت تک یہ احتجاجی کھیل اور
دھرنے چلتے ہی رہیں گے اور عمران خان جیسے لوگ کرپشن کے خاتمے کانام لے کر
ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہی رہیں اور ملک ترقی کرنے کی بجائے پیچھے کو
جانا شروع کردے گا ۔کرپشن ختم کرناعمران خان کا نہیں نیب کا کام ہے جو نئے
چیئرمین مستعدی سے کام کررہے ہیں ۔ |