میڈیا میں بھی نعوذ بااللہ خدا بن بیٹھے ہیں ۔۔۔!!

عرصہ دس سالوں سے کالم رکھ رہا ہوں ،مختلف موضوعات پر تحریر یں لکھیں لیکن آج مین اپنے میڈیا کے لوگوں کی درخواست پر اپنے ہی شعبہ پر تحریر کررہا ہوں، کئی دوستوں اور میڈیا کے لوگوں نے کہا کہ صحافت کا اصل رنگ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے درمیان پائے جانے والے خامیوں کی نشاندہی کرے اور میڈیا سےتعلق رکھنے والوں کی ترجمانی بھی کی جائے کیونکہ میڈیا دنیا بھر میں اصلاح اور بہتری کیلئے تونشاندہی اور ااگاہی فراہم کرتا ہے مگر اپنے اندر پائے جانے والی خامیوں کو دور کرنے کیلئے کوئی قلم اور آواز نہیں اٹھاتا۔۔۔ معزز قارئین!!سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے میڈیا اور صحافت کی آزادی کیلئے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں اسے فراموش کرنا یا اس کی اس کاوش کو نہ سراہانہ سراسر نا نصافی کے مترادف ہوگا، دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں الیکٹرونک میڈیا سمیت پرنٹ میڈیا کو پروان چڑھانے کیلئے جہاں لائسنس کے اجرا کا سلسلہ شروع کیا وہیں میڈیا کو قانونی ضابطے ،قوائد و ضوابط میں رکھنے کیلئے ایک ادارہ بنایا گیا جسے پیمرا یعنی پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولر اتھارٹی کا قیام لایا گیا جس کی تمام ذمہ داریاں میڈیا سے منسلک ہیں، اس ادارے کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ کوئی بھی چینل یا اخبار اپنے ملازمین کے ساتھ پیمرا کے قوانین کی پاسداری کا پابند ہے جس میں ان کی تنخواہیں، پروموشن و دیگر مراعات شامل ہیں ۔۔۔معزز قارئین!! سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد سے آج تک پیمرا کو سیاسی رہنماؤں، حکمرانوں نے تھانے کی طرح اپنی غلامی میں باندھ رکھا ہے ، اس ادارے کے سربراہ من پسند تعینات کیئے جاتے ہیں تاکہ ہر چینل اور ہر اخبار و جرائد حکومت کے مخالف خبر نہ دے سکے لیکن حکومت وقت بھول گئی ہے کہ پیمرا کے قوانین میں ایسا کچھ نہیں جو وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کرسکیں اسی لیئے اے آر وائی سمیت چند ایک ایسے چینلز ہیں جو سچ و حق کے بول بالا کیلئے ثابت قدم کھڑے ہیں اور نہ بکتے ہیں نہ ان کے قدم ڈگمگاتے ہیں، بہت کوشش کرنے کے باوجود حکومت صحافت کے اصل رنگ کو دبانے میں ناکام رہی ہے ،دوسری جانب میڈیا اور صحافیوں کی تنظیموں نے بھی اس بابت بھرپور کردار ادا کیا ہے خاص کر پی ایف یو جے اورکے یوجے دستوراور برناسمیت نیشنل پریس کلب کی صحافی کاوشیں بھلائی نہیں جاسکتیں، صحافیوں سمیت میڈیا پرسن کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر آواز بلند کرنا ان کا مشن ہے۔۔۔معزز قارئین!!میرے صحافی اور میڈیا کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والےدوستوںنے بتایا کہ ہماری انڈسٹریز میں اب حال یہ ہوگیا ہے کہ مالکان نے ادارے کو چلانے کیلئے مکمل بے پناہ حق افسران کے حوالے کردیئے ہیں جس سے نا انصافی ، حق تلفی، عدم تحفظ اور عدم استحکام بے پناہ بڑھ گیا ہے ،اس کے علاوہ گروہ بندی، سیاست گیری، چاپلوسی، منافقت اور جھوٹ کے عوامل کا قبضہ ہوگیا ہے ،انھوں نے بتایا کہ میڈیا کے شروع زمانے میں جب نجی شعبے میں چینلز و اخبارات بڑھ رہے تھے تو اس وقت کم لوگ تھے مالکان ازخود مشاہدہ کرتے تھے اور کسی بھی افسر کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ اپنے ماتحتوں کو بلا وجہ دبائے یا نوکری سے برخاست کردے لیکن جب سے مالکان نے ہر شعبہ سے ہیڈ کو مکمل اختیارات سے نوازا ہے تب سے میڈیا میں جاب کی سیکیورٹی عدم تحفظ کا شکار ہوگئی ہے ،انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پروموشن ہوں یا انکریمنٹس ان مراحل میں بھی آج کل نجی شعبے کی میڈیا میں اقربہ پروری، نور نظراور پسند نا پسند کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جو ادارے کیلئے ایک نا سور ہے جس سے اہل و قابل افراد کی صلاحیتوں نے ادارے کو فائدہ نہیں پہنچایا جاتا، ان کے مطابق میڈیا مالکان اپنی اس ذمہ داری کو اُن افسروں کے حوالے کردیتے ہیں جنہیں منظم کرنا اور انصاف کیساتھ چلانا ہی نہیں آتا، میڈیا کے دوستوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ اب چینلز ہوں یا اخبارات و جرائد ان مین زیادہ تر ایسے افسران ہیں جو نعوذ باللہ خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں، جن کی گردنوں میں گویا سریا ہو، جو بات بھی بہت بد تمیزی کیساتھ کرتے ہیں اور جائز حقوق کیلئے مشکلات پیدا کرتے ہیں انھوں نے بتا یا کہ سالانہ چھٹیاں ہوں یا اچانک رخصتی یا معمولی سے سرزش پر یہ افسران نکال باہر کردیتے ہیں ،انھوں نے کوئی ضابطہ اخلاق نہیں بنایا کہ جس پر کوئی الزام لگا ہے تو وہ اپنے الزام کی صفائی میں کچھ کہ سکے، میڈیا کے دوستوں نے یہ بھی بتایاکہ سزا یافتہ ملازم بار بار پوچھتا ہے کہ مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے تو کہ دیا جاتا ہے کہ افسر کا حکم ہے گویا افسر نہ ہوا کوئی خدا بیٹھا ہے ، انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جب مالکان خود ادارے کو دیکھتے تھے تو وہ سب کو ایک نظر میں رکھتے تھے ان کے نزدیک ہر وہ شخص چاہے آفس بوائے یعنی پیون ہی کیوں نہ ہو اہم ہوتا تھا ، ادارے میں مخلص لوگوں کی مالکان قدر کرتے ہیں مگر افسران اپنے عہدے ، مراعات اور گروہ کی مضبوطی کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں جس سے ہمارا میڈیا ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب بڑھ رہا ہے ، میڈیا کے دوستوں نے یہ بھی بتایا کہ اب سالانہ رپورٹ تیار نہیں کی جاتی نہ ہی سالانہ انکریمنٹ دیا جاتا ہے ایک دور ایسا بھی تھا کہ عید بکرا عید پر بونس دیا جاتا تھا لیکن اب چاہے منافع بھی بے شمار حاصل کرلیں لیکن بونس کا نام بھی نہیں لیا جاتاجبکہ نجی میڈیا میں نہ تو پینشن ہے، نہ گریجویٹی اور نہ ہے بینیونٹ فنڈ صرف اور صرف نتخواہ ملتی ہے جس پر کسی نہ کسی طور پر کٹوتی بھی ہوجاتی ہے ، میڈیا کے دوستوں نے یہ بھی بتایاکہ آج کل چینلز ہوں یا اخبارات کسی بھی تنخواہ آسمان کو چھورہی ہوتی ہے تو کسی کی تنخواہ اس قدر کم نہ گزارہ بھی مشکل یہ طویل فاصلے رکھ کر افسران کیا بتانا چاہتے ہیں اور انھوں نے کہا کہ ہمیں حیرت ہوتی ہے ان اینکروں پر جن کی تنخواہیں ان کے کئی سالوں کی جمع تنخواہ کے برابر ہوتی ہیں یعنی بیس پچیس لاکھ ماہانہ ،میڈیا کے ان دوستوں نے بتایا کہ ان کے پروگرام یا پرنٹ رپورٹس پر ہم لوگوں کی بھی خدمات شامل ہوتی ہیں اگر ہمارے خدمات نہ ہوں تو یہ پروگرام یا پرنٹ رپورٹ تیار نہیں کرسکتے گویا ایک ٹیم کا مکمل کا م ہوتا ہے مگر حلواہ صرف اینکر کھاتا ہے اور ہم منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔۔۔ معزز قارئین!! میڈیا کے دوستوں نے یہ بھی بتاتے ہوئےکہا کہ اس دور میں جہاں سرکاری اداروں میں بد عنوانی عروج پر پہچی ہوئی ہے وہاں پی ٹی وی میں آج بھی سینئر لوگوں کونہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ ان کے پروموشن اور دیگر مراعات بھی ابھی تک قانون کے مطابق دی جاتی ہیں اور لاکھ اقربہ پروی ، سیاسی مداخلت کے با وجود سینئرز کو ہمیشہ جونیئرز سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے اور سینئرز کے تجربے سے مکمل پی ٹی وی کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب نجی چینلز اور اخبارات و جرائد میں اس کے برعکس عمل کیا جاتا رہا ہے، انھوں نے بتایا کہ اگر ہمارے نجی چینلز میں بھی اصول و طریقہ وہی رکھے جائیں جس کی قانونی حیثیت بھی ہو اور جو انصاف پر مبنی ہوتو یقیناً دن چگنی رات دگنی دنیا بھر پور اپنا لوہا منواسکتے ہیں کیونکہ جب چھوٹےملازم سے لیکر بڑے افسران تک استحکام ، تحفظ اور پر سکون ماحول دستیاب ہوگا تو ٹرانسمیشن اور پرنٹ بھی اعلیٰ ترین ہونگے، ان کے مطابق برطانیہ، امریکہ، وقطر ممالک کے چینلز کی کامیابی بھی ان کی انصاف پسندی کی وجہ سے ہے۔۔۔۔۔معزز قارئین!! میڈیا کے دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بدلتے زمانے میں کیا ہماری نجی شعبہ سے تعلق رکھنے والی الیکٹرنک میڈیا اور پرنٹ میڈیا اپنے اندر پائے جانے والی خامیوں کو دور کرتی ہے کہ نہیں، کیا نجی میڈیا اپنے ملازمین کے حقوق کی علمبدار ثابت ہوگی، کیا با اختیار افسران اپنا رویہ درست کریں گے، کیا مخلص دیانتدار ملازمین کی قدر و منزلت ممکن ہوسکے گی کہ نہیں، کہتے ہیں کہ پاکستان تبدیل ہورہا ہے، کرپشن و لوٹ مار ،اقربہ پروری، لاقانونیت، نا انصافی، حق تلفی کرنے والوں کا محاسبہ ہورہا ہے تو کیا ہمارے نجی شعبے سے تعلق رکھنے والا میڈیا میں بھی یہی مثبت تبدیلی آئیگی کہ نہیں ،یہ تو قت ہی بتائے گا، اللہ ہمارے نجی چینلز اور نجی اخبارات کے تمام مالکان کو اپنے اداروں کی بہتری اوربہتر نظام کے رائج کرنے کیلئے توجہ دینے کا وقت عطا فرمائے تاکہ بگڑے ہوئے خود کو خدا سمجھنے والے افسران کی نا جائزاجارہ داری کا خاتمہ ممکن ہوسکے اور بہتر نجی چینلز ترقی کی جانب گامزن ہوسکیں۔۔۔۔۔، آمین ثما آمین ۔۔۔۔،پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔!!

جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 273511 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.