پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی طاقت مسلمہ ہے لہذ ا
حکومتیں بنانے اور گرانے میں اسے مکمل اختیار حاصل رہا ہے۔وہ جیسا چاہتی ہے
کرتی ہے اور اسے کوئی روک نہیں پاتا۔ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ اس کی رائے
اور مرضی کے خلاف کچھ بھی و قو ع پذیر نہیں ہو تا۔اس کی یہ طاقت روزِ اول
سے ہی مسلمہ رہی ہے۔ اس کی کئی توجیہات پیش کی جا سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی
توجیہ یہی ہے کہ سیاستدان باہمی مخاصمت اور جبگ وجدل میں مصروف رہتے ہیں جس
کا بھر پور فائدہ اسٹیبلشمنٹ اٹھا تی ہے اور انھیں کھڈے لائن ،گانے میں
کامیاب و کامران ٹھہرتی ہے ۔ کتنی حکومتیں گرائی گئیں اور کتنے نئے ستارے
سیاست کی زینت بنائے گئے عوام اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔پاکستان میں حکومتیں
گرانے کا ایک نادر نسخہ جنرل ضیا الحق نے ۱۹۷۳ کے آئین میں ۵۸ ٹو بی کی
صورت میں متعارف کروایا تھا جس کا پہلا شکار وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو
بنے ۔ اس آئینی شق کی زد میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف
بھی آئے لہذا دونوں نے مل کر ۱۹۹۷ میں آئینی ترمیم کے ذریعے اس شق کا
خاتمہ کر دیا۔بطاہر یوں لگتا تھا کہ اب جمہوریت کی گاڑی کبھی پٹری سے نہیں
اترے گی لیکن ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ کو جنرل پرویز مشرف نے شب خون سے آئینی حکومت
کا خاتمہ کر کے ملک کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ جنرل محمد ایوب خان،جنرل ضیا
الحق،جنرل یحی خان اور جنرل پرویز مشرف مارشل لائی حکومتوں کے ذریعے اقتدار
کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے اور طویل عرصے تک اقتدار سے بہرہ ور ہوتے
رہے۔سیاستدان جیلیں ، پھانسیاں اور جلا وطنیاں بھگتتے رہے اور جمہوریت کی
خاطر انتہائی نا مساعد حالات کا سامنا کرتے رہے۔ان کی جمہوری جدو جہد سے ہی
پاکستان میں جمہوری کلچر کی بحالی ممکن ہو سکی ۔آئینی طور پر تو حکومتوں کی
تبدیلی کا اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہوتا ہے ۔کوئی بھی جماعت جب پارلیمنٹ
میں عددی اکثریت کھو دیتی ہے تو پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا جا تا ہے۔یہ بات
سچ ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی اس طرح کی مثالی صورتِ حال نہیں دیکھی گئی
کہ عدمِ اعتماد کی صورت میں حکومت کو اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑے۔محترمہ بے
نظیر بھٹو کے خلاف ۱۹۹۰ میں عدمِ اعتماد لا ئی گئی تھی لیکن اپوزیشن کی
عدمِ اعتماد کی تحریک کوچند ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس تحریک
میں میاں محمد نواز شریف پیش پیش تھے اور القائدہ کے راہنما اسامہ بن لادن
نے مالی طور پر اپو زیشن کی مدد کی تھی۔وہ حکومت جسے عدمِ اعتماد سے ختم نہ
کیا جا سکا اسے اگست ۱۹۹۰ میں صدر اسحاق خان نے ۵۸ ٹو بی کے تحت رخصت کر
دیااور جب اسی ۵۸ ٹوبی کو مارچ ۱۹۹۳ میں میاں محمد نواز شریف کے خلاف
استعمال کیا گیا تو پھر اس وقت اس شق کے خاتمے کی خشتِ اول رکھ دی گئی۔پی
پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے ۵۸ ٹو بی کو آئین سے نکال باہر کیا ۔اب
اسٹیبلشمنٹ کے پاس واحد راستہ ایک ہی تھا کہ جمہوری حکومتوں کو مارشل لاء
کے ذریعے فارغ کیا جائے۔ دھشت گردانہ کاروائیوں اور لسانی سوچ کی وجہ سے
مارشل لاء کا نفاذ انتہائی مشکل نظر آتا ہے جبکہ گلوبل سیاست اور علاقائی
معاملات پاکستان میں مارشل لاء کی اجازت نہیں دے رہے لہذا مارشل لاء کے نفا
ذ کے امکانات معدوم ہیں ۔شب خون مارنا یا اقتدار پر قبضہ کر لینا کوئی نا
ممکن عمل نہیں ہے لیکن میڈیا کی آزادی اور عوامی شعور کی بیداری کے
بعدمارشل لائی اقدام کو عوامی پذیرائی ملنا نتہائی مشکل ہے اس لئے مارشل
لاء نافذ کرنے والے بھی گو مگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔،۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے
بعد نا اہل ہو چکے ہیں۔اقامہ کو بنیاد بنا کر انھیں وزارتِ عظمی سے فارغ
کیا جا چکا ہے جس پر میاں محمد نواز شریف سخت غصہ میں ہیں ۔ مسلم لیگ (ن)
اس فیصلے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ دیکھ رہی ہے ۔اسے یقین ہے کہ سپریم
کورٹ کا حالیہ فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کی سر پرستی اور دباؤ کے بغیر ناممکن
تھا۔ان کی بات میں کتنا دم خم ہے اس سے ہر شخص بخوبی آگاہ ہے ۔حالات پر
گہری نظر رکھنے والوں کو علم ہے کہ اس طرح کے بڑے فیصلے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی
اور دباؤ کے بغیر نہیں کئے جاتے ۔حالات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ
اسٹیبلشمنٹ میاں محمد نواز شریف سے سخت ناراض ہے اور انھیں سبق سکھانا
چاہتی ہے ۔میاں محمد نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے بدلے تیوروں کا بر وقت
ادراک کیا اور خم ٹھونک کر میدان میں ڈٹ گئے جس کے نتیجے میں اداروں میں
ٹکراؤ کی کیفیت نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔اسٹیبلشمنٹ میاں
محمد نواز شریف کو بے اثر اور بے تو قیر کرناچاہتی ہے لہذا ان کے خلاف بے
شمار مقدمات عدالتوں میں دائر کئے جا چکے ہیں ۔ کیا یہ احتساب کاآغاز ہے یا
ایک مخصوص خاندان کو نشانہ بنانے کی کاروائی ہے؟اہلِ نظر اس سے بخوبی آگاہ
ہیں لہذا اس بارے میں خاموشی بہتر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہے کہ میاں محمد
نواز شریف سیاست سے سنیاس لے کر بیرونِ ملک چلے جائیں تا کہ مسلم لیگ (ن)
کو اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے چلایا جائے۔اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) میں نقب
لگانے کی باتیں ہو رہی تھیں اور ایک نئی لیڈر شپ کو متعارف کروانے کی
کاوشیں ہو رہی تھیں۔شیخ رشید میڈیا پر روزانہ مسلم لیگ کے ۷۰ باغیوں کی ایک
فہرست ہوا میں لہراتے رہتے تھے۔وہ سیٹی کی آواز پر ممبران کے مسلم لہگ (ن)
سے بھاگ نکلنے کے اعلان کو بابار بار دہرا رہے تھے ۔ ان کا بیانیہ تھا کہ
مسلم لیگ (ن) جلد میاں محمد نواز شریف سے نجات حاصل کر لے گی لیکن ۲۱ نومبر
کو قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس سے مسلم لیگ (ن) میں اختلاف کی ساری
افواہیں دم توڑ گئیں ۔ مسلم لیگ (ن) نے میاں محمد نواز شریف کے ساتھ جس طرح
اظہارِ یکجہتی کیا اس سے اسٹیبلشمنٹ کی ساری کاوشیں نقش بر آب ہو گئیں ۔پی
پی پی اور پی ٹی آئی بڑی تیاری کے ساتھ اسمبلی میں آئی تھیں لیکن انھیں منہ
کی کھانی پڑی کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے ممبران جس طرح میاں محمد نواز شریف کی
پشت پر کھڑے ہو گئے وہ سب کیلئے ناقابلِ یقین تھا ۔میاں محمد نواز شریف کے
خلاف پی پی پی کا بل جس طرح مسترد ہوا وہ ایک انہونی سی لگتی ہے۔اسٹیبلشمنٹ
بھی شدید مخمصے کا شکار ہے کہ اس کے اپنے پالے ہوئے سیاستدان اس کے خلاف
متحد ہو گئے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ کو جس طرح ۲۱ نومبر کو شکست ہوئی اس سے پہلے
پاکستان تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔پارلیمان کے اس کاری وار نے سب کو
گھائل کردیا ہے۔یہ ایک ایسا چرکہ ہے جس کا درد سدا محسوس کیا جا تا
رہیگا۔کیا یہ حیران کن نہیں کہ وہ جن کے ایک اشارے پر لوگ جماعتیں بدل لیتے
تھے، جن کے ایک فون پر وہ اپنا راستہ بدل لیتے تھے اورجن کے ایک پیغام پر
وہ اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیتے تھے ۲۱نومبر کو وہ سب اسمبلی میں( نوا
شریف تیرے جا نثار بے شمار بے شمار) کے نعرے بلند کر رہے تھے؟اسٹیبلشمنٹ
بھی یہ سب کچھ ٹیلی ویژن کی سکرین پر دیکھ رہی تھی اور بدلتا ہے رنگ آسمان
کیسے کیسے قول پر اپنی آنکھیں جھپک رہی تھی ۔اسٹیبلشمنٹ کو شائد احساس ہو
گیا ہے کہ اس کے ہاتھ سے گیم نکل چکی ہے۔وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتی تھی
حاصل نہیں کر پائی۔میاں محمد نواز شریف اقتدار سے بے دخل ضرور ہوئے ہیں
لیکن وہ آج بھی مسلم لیگ (ن) کے غیر متنازعہ لیڈر ہیں ۔ انھیں کرپشن کی
کہانیوں اور قصوں سے عوام کے دلوں سے نکالنا ممکن نہیں ہے۔اسٹیبلشمنٹ کو
جان لینا چائیے کہ وقت بدل چکا ہے۔یہ ۵ جو لائی ۱۹۷۷ نہیں جب ایک منتخب
وزیرِ اعظم کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے بعد پھانسی پر لٹکا دیا گیاتھابلکہ
یہ ۲۰۱۷ ہے جب منتخب حکو مت کو گھر بھیجنا ور اس کی قیادت کو پھانسی پر
لٹکانا ممکن نہیں ہے۔۲۱ نومبر کا دن پاکستان میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا
کیونکہ اس دن عوامی نمائندگان نے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرنگوں ہو نے کی
بجائے اس کے سامنے ڈٹ جانے کو ترجیح دی ہے ۔ اس کا جذبہِ محرک میاں محمد
نوازشریف کی ووٹ کے تقدس اور جمہوریت کی ترویج کی خاطر اپنی جان لٹانے سے
دریغ نہ کرنے کی للکار ہے ۔،۔ |