پاکستانیوں کی اٹکی سانسیں اس وقت بحال ہوئیں جب فوج نے
جماعت' لبیک یا رسول اللہ' کے سربراہ خادم رضوی کے ساتھ ایک تحریری معاہدے
کے ذریعے دھرنے اور مظاہروں کا سلسلہ پرامن طور پر ختم کرا دیا۔اس سے پہلے
حکومت کی طرف سے معاملے کو پرامن طور پر حل کرانے سمیت علماء ثالثی شخصیات
کی تمام کوششوں کے بعد بے ڈھنگا پولیس ایکشن بھی ناکام ثابت ہو چکا
تھا۔پولیس ایکشن کے بعدآرمی چیف نے وزیر اعظم کو کہا کہ معاملہ پرامن طور
پر حل کیا جائے اور پھر ایک ہی دن میں معاملہ حل بھی کرا کے دکھا دیا۔اس سے
فوج نے حکومت اور سیاسی جماعتوں کو ایک سبق یہ بھی دیا ہے کہ جب '' اپنے
لوگوں'' کو اپنا سمجھا جائے تو مشتعل ہو کر ہٹ دھرمی دکھانے والوں کو بھی
آسانی سے'' رام'' کیا جا سکتا ہے۔فوج نے پہلے خادم رضوی اور ان کے ساتھیوں
کے بارے میں کہا کہ انہیں کچھ نہ کہا جائے اور پھر خادم رضوی نے معاہدے کے
اعلان کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے کہا کہ انھیں کوئی کچھ نہیں کہے
گا۔کچھ نہ کہنے کی ان یقین دہانیوں سے عوام کی عذاب میں پھنسی جان چھوٹی
اور صحافیوں کو بھی ''امان'' کا پروانہ صادر ہو گیا۔
اس معاہدے کے اعلان کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائیکورٹ میں دھرنے کے بارے میں
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس معاملے میں فوج کے کردار
کے معاملے پر کڑی تنقید کی۔تنقید مدلل ہونے کے علاوہ اتنی واضح تھی کہ ایسی
ہمت کسی سیاستدان کی طرف سے بھی نظر نہیں آتی۔اس تمام معاملے سے یہ بات کھل
کر سامنے آ گئی ہے کہ وجوہات سے قطع نظر،پاکستان میں ہر کام اچھے اور موثر
انداز میں صرف فوج ہی کر سکتی ہے۔ملک میں دہشت گردوں کے خلاف طویل آپریشن
ہو،تعلیمی،تجارتی اداروں کو شاندار طریقے سے چلانا ہو،ملکی دفاعی،خارجہ اور
دیگر پالیسیاں بنانی اور چلانی ہوں،علم و دانش کا کوئی چیلنج درپیش ہویا
کوئی پیچیدہ ، الجھے ہوئے سیاسی یا مذہبی معاملات ہوں،فوج زندگی کے ہر شعبے
میں شاندار نتائج فوری طور پر ملک و عوام کے سامنے رکھنے کی ہمہ جہتی
صلاحیتوں کی حامل ہے۔لیکن ملکی مفادات کے تقاضوں کے برعکس ملک کے کمتر درجے
کی محب وطنی کے حامل لوگ اپنی کمتر معیار کی حب الوطنی کو ہی بالادست قرار
دینے کی خود فریبی میں مبتلا رہیں گے جو گروہوں میں تقسیم عوام پر'' کنٹرول
اینڈ کمان'' کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔
حکومت اور تحریک لبیک یا رسول اللہ کے درمیان دھرنا ختم کرنے کے سلسلے میں
چھ نکاتی معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے مطابق فوج نے معاہدہ کروانے میں مرکزی
کردار ادا کیا ہے۔لبیک یا رسول اللہ کے سربراہ خادم حسین رضوی نے پریس
کانفرنس میں کہا کہ 'جنرل صاحب ضامن بنے۔ انھوں نے ٹیم بھجوائی۔ ہمارا
معاہدہ ان کے ساتھ ہوا۔ زاہد حامد کا استعفی ہمارے شہدا کے خون کی قیمت
نہیں ہے۔ یہ استعفی صرف ختم نبوت کی وجہ سے ہے۔ ہم جنرل صاحب کو جو چاہتے
کہہ سکتے تھے، لیکن لوگوں نے کہنا تھا کہ یہ حکومت ہٹانے آئے ہیں۔انھوں نے
کہا کہ 'جو الزامات لگے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آرمی چیف نے خصوصی
نمائندے بھیجے۔ ہم نے بتایا کہ انھوں نے ہمارے بیسیوں کارکنان کو شہید کیا
ہے۔ ملک کے حالات خرابی کی طرف جا رہے تھے۔ ہم نے معاہدے کے ضامن لوگوں کو
بتایا کہ اگر ہمارے یہ مطالبات پورے ہو جائیں گے تو دھرنا دینے والے لوگ
اپنے گھروں کو تشریف لے جائیں۔خادم حسین نے میڈیا کے نمائندوں سے سوال کیا
کہ آپ یہ خبریں کیوں دے رہے ہیں کہ ہائی کورٹ کے حکم پر دھرنا ختم کر دیا
گیا ہے؟رے جتنے کارکن جیلوں میں ہیں، ہمارے جتنے کارکن پنڈی اسلام آباد کی
جیلوں میں ہیں، جب وہ آ جائیں گے تو اس دوران ہم چیزیں سمیٹ کر چل پڑیں
گے۔انھوں نے فیس بک لائیو کے ذریعے کی جانے والی پریس کانفرنس کی پاکستانی
میڈیا پر لائیو کوریج نہ ملنے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ 'نہیں کوئی
چلانا چاہتا، آپ نے ہماروقت ضائع کیا ہے۔ پہلے بتاتے، ہم نے بات ہی نہیں
کرنی تھی۔انھوں نے کہا کہ اب چلا ،پھر ہم تمھیں اٹھنے دیں گے۔ تاہم بعد میں
انھوں نے میڈیا کے نمائندوں سے کہا کہ انھیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔چھ نکات
پر مشتمل اس معاہدے کے آخر میں یہ درج ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے
ملک کو بڑے سانحے سے بچا لیا ہے جبکہ بتایا گیا ہے کہ یہ معاہدہ کرنے میں
فوج کے حاضر سروس افسر میجر جنرل فیض حمید کی مدد شامل تھی۔معاہدے میں درج
ہے: 'یہ تمام معاہدہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور ان کے
نمائندے کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا، جس کے لیے ہم ان کے مشکور ہیں
کہ انھوں نے قوم کو ایک بہت بڑے سانحہ سے بچا لیا۔'وزیرِ قانون زاہد حامد
کی برطرفی کا پہلا مطالبہ تھا تاہم تحریک لبیک کا کہنا ہے کہ وہ ان کے بارے
میں کوئی فتوی جاری نہیں کرے گی۔تحریک لبیک کی جانب سے معاہدے میں الیکشن
ایکٹ میں سیون بی اور سیون سی اور حلف نامے کی شمولیت پر حکومت کی ستائش کی
ہے تاہم یہ بھی کہا ہے کہ اس میں ترمیم کرنے والوں کا پتہ لگانے کے لیے
راجہ ظفر الحق کی رپورٹ 30 دن میں منظر عام پر لائی جائے۔پریس کانفرنس سے
خطاب میں خادم حسین رضوی نے تحفظ ناموس رسالت کو یقینی بنانے کا مطالبہ
کیا۔ ووٹر لسٹ سے متعلق تحفظات دور کرنے، نو نومبر کی چھٹی، لاڈ سپیکر کے
استعمال، رانا ثنا اللہ کے بیان کے حوالے سے بورڈ کی تشکیل سمیت متعدد
سابقہ مطالبات کو دہرایا اور اس حوالے سے کمیٹیاں بنانے کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب'بی بی سی' کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے
بارے میں سماعت میں استفسار کیا کہ آرمی چیف کی آزادانہ حیثیت کیا ہے اور
وہ کیسے دھرنے کے معاملے میں ایگزیکیٹو کا حکم ماننے کی بجائے ثالث کا
کردار ادا کر سکتے ہیں؟اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے
کہا کہ ملک کے ادارے ہی ریاست کے خلاف کام کر رہے ہیں اور اگر فوجیوں کو
سیاست کرنے کا شوق ہے تو وہ نوکری سے مستعفی ہو کر سیاست میں آئیں۔جسٹس
شوکت صدیقی نے فیض آباد انٹرچینج کے مقام پر مذہبی جماعت کے دھرنے کے بارے
میں نوٹس اور وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو دھرنا ختم کرنے سے متعلق از
خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ملکی آئین میں آرمی چیف کی بطور ثالث
بننے کی کیا حیثیت ہے؟ انھوں نے کہا کہ ریاست کے ساتھ ایسا کب تک ہوتا رہے
گا؟جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وفاقی وزیر داخلہ سے استفسار کیا کہ وہ میجر
جنرل صاحب کون ہیں جنھوں نے دھرنا ختم کروانے کے لیے آرمی چیف کے نمائندے
کی حیثیت سے شرکت کی؟ عدالت کا کہنا تھا کہ اس میجر جنرل کا نام سوشل میڈیا
پر چل رہا ہے۔سماعت میں خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سیکٹر انچارج بریگیڈیئر
عرفان شکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ سوشل میڈیا پر چھپنے والا مواد غیر
تصدیق شدہ ہوتا ہے، اس لیے اس پر ریمارکس بھی نہیں دینے چاہیے۔ انھوں نے
کہا کہ دھرنے کے پیچھے آئی ایس آئی کا کوئی کردار نہیں ہے۔عدالت نے سوال
کیا کہ فوجی کیوں خوامخواہ ہیرو بنے پھرتے ہیں؟ اور کہا کہ فوج اپنے آئینی
کردار کے اندر رہے۔سوشل میڈیا پر آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیض حمید کا نام
لیا جارہا ہے جو آرمی چیف کے نمائندے کی حیثیت سے پیش ہوئے تھے۔عدالت کا
کہنا تھا کہ سکیورٹی ادارے پورے ملک میں ردالفساد کے نام سے آپریشن کر رہے
ہیں تاکہ ملک سے دہشت گردی کو ختم کیا جا سکے۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس
دیتے ہوئے کہا کہ کیا ان اداروں کو فیض آباد دھرنا نظر نہیں آیا؟عدالت کے
استفسار پر وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ دھرنا دینے والوں کے ساتھ
معاہدہ قومی قیادت نے اتفاق رائے سے کیا جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس
دیتے ہوئے کہا کہ قانون توڑنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان
فوج کا ثالثی کردار قابل قبول نہیں ہے۔احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ ملک
ایک ایسی صورت حال پر آ گیا تھا جہاں خانہ جنگی کا خطرہ تھا اس لیے حالات
کو دیکھتے ہوئے معاہدہ کرنا ناگزیر تھا۔عدالت کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت
گردی کی دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمات کو فریقین کے درمیان ہونے والے
معاہدے سے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے استفسار کیا کہ
کیا اگر فیض آباد کے قریب حمزہ کیمپ کی بجائے فو ج کا ہیڈ کوراٹر ہوتا تو
تب بھی مظاہرین اسی جگہ پر دھرنا دیتے؟ اس پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس
کا جواب تو مظاہرین ہی دے سکتے ہیں۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس بات پر
برہمی کا اظہار کیا کہ حکومت اور دھرنا دینے والی قیادت کے درمیان جو
معاہدہ طے پایا ہے اس میں ججوں سے معافی مانگنے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا
کیونکہ مظاہرین نے دھرنے کے دوران اعلی عدلیہ کے ججوں کے بارے میں نازیبا
الفاظ ادا کیے تھے۔سماعت کے دوران عدالت نے وزیر داخلہ کی سرزنش بھی کی کہ
انھوں نے مظاہرین کے خلاف کارروائی کے دوران اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ
اور پولیس کو تنہا چھوڑ دیا۔عدالت نے وزیر داخلہ سے ان وجوہات کے بارے میں
بھی طلب کیا ہے جس کی وجہ سے دھرنا دینے والوں کے خلاف قانون نافذ کرنے
والے اداروں کی کارروائی ناکام ہوئی۔ |